محترم قارئین سلام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اور اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُنہیں اُس کا احوال سُناؤ جسے ہم
نے آیتیں دی تو وہ اُن سے صاف نکل گیا تو شیطان اُس کے پیچھے لگا تو (وہ)
گمراہوں میں ہوگیا اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اُسے اُٹھا لیتے مگر وہ تو
زمین پکڑ گیا اور اپنی خواہش کے تابع ہوا تو اُس کا حال کتے کی طرح ہے تُو
اس پر حملہ کرے تو زباں نکالے اور چھوڑ دے تو زباں نکالے یہ حال ہے اُن کا
جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو آپ نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان دیں (
القرآن ترجمہ کنزالایمان سورہ الاعراف آیت نمبر 175-176 )
یعنی بلعم باعور جس کا واقعہ مفسّرین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جب حضرت
موسٰی علیہ السلام نے جبّارین سے جنگ کا قصد کیا اور سر زمینِ شام میں
نُزول فرمایا تو بلعم باعور کی قوم اس کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی کہ
حضرت موسٰی علیہ السلام بہت تیز مزاج ہیں اور ان کے ساتھ کثیر لشکر ہے وہ
یہاں آئے ہیں ہمیں ہمارے بلاد سے نکالیں گے اور قتل کریں گے اور بجائے
ہمارے بنی اسرائیل کو اس سر زمین میں آباد کریں گے، تیرے پاس اسمِ اعظم ہے
اور تیری دعا قبول ہوتی ہے تو نکل اور اللہ تعالٰی سے دعا کر اللہ تعالیٰ
انہیں یہاں سے ہٹا دے ۔ بلعم باعور نے کہا تمہارا بُرا ہو حضرت مُوسٰی علیہ
السلام نبی ہیں اور ان کے ساتھ فرشتے ہیں اور ایمان دار لوگ ہیں، میں کیسے
ان پر دعا کروں؟ میں جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مرتبہ ہے اگر
میں ایسا کروں تو میری دنیا و آخرت برباد ہو جائے گی مگر قوم اس سے اصرار
کرتی رہی اور بہت اِلحاح و زاری کے ساتھ انہوں نے اپنا یہ سوال جاری رکھا
تو بلعم باعور نے کہا کہ میں اپنے ربّ کی مرضی معلوم کر لوں اور اس کا یہی
طریقہ تھا کہ جب کبھی کوئی دعا کرتا پہلے مرضی الہی معلوم کر لیتا اور خواب
میں اس کا جواب مل جاتا چنانچہ اس مرتبہ بھی اس کو یہی جواب ملا کہ حضرت
موسٰی علیہ السلام اور ان کے ہمراہیوں کے خلاف دعا نہ کرنا، اس نے قوم سے
کہہ دیا کہ میں نے اپنے ربّ سے اجازت چاہی تھی مگر میرے رب نے ان پر دعا
کرنے کی مُمانعت فرما دی تب قوم نے اس کو ہدیے اور نذرانے دیئے جو اس نے
قبول کئے اور قوم نے اپنا سوال جاری رکھا تو پھر دوسری مرتبہ بلعم باعور نے
ربّ تبارَک وتعالیٰ سے اجازت چاہی اس کا کچھ جواب نہ ملا، اس نے قوم سے کہہ
دیا کہ مجھے اس مرتبہ کچھ جواب ہی نہ ملا قوم کے لوگ کہنے لگے کہ اگر اللہ
کو منظور نہ ہوتا تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ بھی منع فرماتا اور قوم کا
اِلحاح و اصرار اور بھی زیادہ ہوا حتٰی کہ انہوں نے اس کو فتنہ میں ڈال دیا
اور آخر کار وہ بددعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھا تو جو بد دعا کرتا اللہ
تعالیٰ اس کی زبان کو اس کی قوم کی طرف پھیر دیتا تھا اور اپنی قوم کے لئے
جو دعائے خیر کرتا تھا بجائے قوم کے بنی اسرائیل کا نام اس کی زبان پر آتا
تھا ۔ قوم نے کہا اے بلعم یہ کیا کر رہا ہے ؟ بنی اسرائیل کے لئے دعا کرتا
ہے ہمارے لئے بددعا، کہا یہ میرے اختیار کی بات نہیں، میری زبان میرے قبضہ
میں نہیں ہے اور اس کی زبان باہر نکل پڑی تو اس نے اپنی قوم سے کہا میری
دنیا و آخرت دونوں برباد ہوگئیں ۔ (تفسیر خزائن العرفان )
محترم قارئین اکرام ان دو آیتوں کے مطالعے اور اِن کی تشریح جان کر دل میں
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں آخر ایک زبردست عالم جو ایسا مستعجاب
الدعوات ہو کہ جو دعا کرنے کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور ہاتھ گِرنے سے قبل
اُسکی دعا بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوجائے وہ راندہ درگاہ ہوا اُسکی
دُنیا بھی خراب ہوئی اور آخرت میں ٹھکانہ جہنم قرار پایا ؟
اِسکا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ دُنیا کی محبت اور مال و زر کی چمک میں
گرفتار ہوگیا تھا دوسری وجہ یہ کہ وہ اللہ کے ایک مُقرب نبی علیہ السلام کو
نبی ماننے کے باوجود اپنے جیسا سمجھ رہا تھا -
اور روایت ہے کہ بعض انبیاء کرام علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض و
دریافت کیا کہ تو نے بلعم بن باعورا کو اتنی نعمتیں عطا فرما کر پھر اِسے
کیوں اس قعرِ مزلت میں گِرادیا ؟
اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ اُس نے میری نعمتوں کا کبھی شُکر ادا نہیں
کیا اگر وہ میرا شُکر گزار بندہ ہوتا تو میں اُس کی کرامتوں کو سلب کر کے
اُس کو دونوں جہاں میں اِس طرح ذلیل و خوار اور غائب ؤ خاسِر نہ کرتا (
تفسیر روح البیان جلد ٣ صفحہ ١٣٩ )
محترم قارئین کرام قرآنِ مجید کے اِس مختصر اور عجیب و غریب واقعہ میں
ہمارے لئے نہائت کارآمد نصیحت کے پھول موجود ہیں اگر ہم اِن پھولوں کو چُن
کر اپنی زندگیوں کے گلدستے میں سجا لیں تو انشاءاللہ دُنیا اور آخرت میں
سُرخرو ہو سکتے ہیں -
١ - سب سے پہلے تو یہ کہ اللہ کے ہر نبی علیہ السلام کی مُحبت اور تعظیم
ہمارے دل میں رہنی چاہیے کہ اِس میں زرہ بھر بھی کمی ہماری تمام عبادتوں
اور ریاضتوں پر پانی پھیر دے گی - بلکہ ایمان ہی نہ رہے گا اور حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ سیدُالانبیا ہیں اللہ عزوجل کے محبوب ہیں اِس
لئے آپکی محبت اور تعظیم سب بے زیادہ دل میں موجود ہونی چاہیے حتیٰ کے ماں
باپ مال اولاد ازواج اور خود اپنی جان سے بھی زیادہ وگرنہ ایمان چِھن جائے
گا -
٢ - ہمیشہ حق بات کہنی چاہیے چاہے ہماری اِس بات سے ہماری برادری ناراض ہو
یا کوئی سیاسی جماعت جِس سے خواہ ہمیں کتنی ہی دلی وابستگی ہو -
٣ - مال و زر کی حرص و ہوس سے بچنا ضروری ہے -
٤ - کبھی اپنی عبادت اور اعمال صالحہ پر گھمنڈ نہ کریں -
٥ - اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ ہم نہیں جانتے کہ
ہمارے لئے اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر کیا ہے کیا ہمارا خاتمہ ایمان پر ہوگا
یا کفریہ بول کیساتھ -
اِس واقعہ میں اہل علم حضرات کے لئے بھی میسج ہے کہ اپنے علم پر ناز نہ
کریں بلکہ اس علم کو فضل خُدا اور عطائے مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جانیں - اور جب بھی ہمیں کوئی نعمت ملے تو اللہ عزوجل کا شُکر ادا ضرور
کریں اور جب کوئی تکلیف آجائے تو ناشُکری کے بجائے رحمت اور عافیت کی دعا
کریں
اللہ عزوجل ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اپنے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی سَچی پَکی محبت عطا فرمائے ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور
ہمیں اپنے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں سے بھی محبت کی
توفیق عطا کرے اور ہمیشہ اپنا شُکر گُزار بندہ بنائے رکھے
آمین بجاہِ نبی الامین و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم |