چودہویں تراویح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج کی تراویح میں سترہویں پارے کے پانچویں رکوع سے اٹھارہویں پارے کے آٹھویں رکوع تک تلاوت کی جائے گی۔

آج کی آیات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تذکرے سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے کہ ہم نے انہیں وہ ہدایت و معرفت عطا فرمائی جو ان کے شایان شان تھی اور یونہی نہیں بخش دی تھی بلکہ نہایت کڑے امتحانوں سے گزارنے کے بعد ان کو بخشی تھی- جس کے ذریعے انہوں نے اپنے آپ کو اس کا حقدار ثابت کیا تھا- اس طرح یہ بتانا مقصود ہے کہ تم لوگ اپنے اندر ہمت تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کسی سنت پر چلنے کی بھی نہیں رکھتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ نسبت کا دعوے دار ہو اور اس نسبت کے بل پر اپنے آپ کو دنیا اور آخرت دونوں میں بڑے سے بڑے مرتبہ کا حقدار سمجھتے ہو-

فرمایا کہ اللہ کے ہاں اس غلط بخشی کی کوئی گنجائش نہیں- وہ جس کو بھی اپنی معرفت اور حکمت عطا کرتا ہے اس کا ظرف اور حوصلہ دیکھ کر عطا کرتا ہے۔ پھر انکی جوانی کا حال بیان کیا کہ اگرچہ وہ ایک بت پرست قوم اور مشرک و بت بنانے والے خاندان میں پیدا ہوئے تھے لیکن اللہ نے کو توحید کا وہ نور عطا فرمایا کہ جس کی روشنی سے دنیا آج تک منور ہے اور قیامت تک منور رہے گی- انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے باپ اور اپنی قوم کو دعوت دی کہ یہ مورتیں کیا ہیں جن پر تم دھرنا دیئے بیٹھے ہو-اس کم عمری میں اور ایسے ماحول میں وہی یہ نعرہ لگا سکتا ہے جسے اللہ کی خاص عنایت حاصل ہو، اس سوال کا انہیں بھی وہی جواب ملا جو ہمیشہ گمراہ لوگ دیتے آئے ہیں کہ ہمارے باپ دادا ان کی عبادت کرتے آئے ہیں- انہوں نے پوری بےخوفی سے کہا “ تم اور تمہارے باپ دادا کھلی گمراہی میں رہے اور اور تم بھی ہو۔ کوئی گمراہی اس دلیل سے ہدایت نہیں بن جاتی کہ وہ باپ داد کے زمانے سے چلی آرہی ہے“

پھر انہوں نے موقع پاکر سب چھوٹے بتوں کو پاش پاش کردیا اور بڑے کو رہنے دیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام پر شبہ کر کے انہوں نے باز پرس کی تو آپ نے جواب دیا “ مجھ سے کیا پوچھتے ہو ان بتوں سے پوچھو کس نے ان کا یہ حشر کیا ہے بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس بڑے بت نے کیا ہوگا“ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی حکمت سے پوری قوم کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا کہ انہوں نے خود اعتراف کیا کہ “ یہ بول نہیں سکتے“ تو آپ نے کہا “پھر یہ کس مرض کی دوا ہیں ایسے بےبس بتوں کو تم پوجتے ہو “ بجائے اپنی غلطی ماننے کے قوم نے کھسیا کر آپ کو آگ میں ڈال دیا- تعصب میں لوگوں کی عقلیں اسی طرح ماری جاتی ہیں- مگر اللہ نے اس آگ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی بنا دیا-اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں وہی ہر چیز میں تاثیر پیدا کرتا ہے۔ کیا دیکھتے نہیں کہ ایک ہی دوا سے کتنے ہی لوگ اچھے ہوجاتے ہیں اور اسی دوا سے جسے مرنا لکھا ہوتا ہے اس کی طبیعت الٹی خراب ہوجاتی ہے-اس پر بھی لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام، انکی بیوی اور چچا زاد بھائی حضرت لوط علیہ السلام ہجرت کر کے نکل کھڑے ہوئے اور اللہ ان دونوں کو دو الگ الگ ٹھکانے دیئے- پھر صفاتی ترتیب کے ساتھ انبیاء کا ذکر کیا جو صبر اور شکر کے امتحانوں سے گزرے اور ان میں سو فیصد کامیاب رہے۔

چنانچہ پہلے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا حوالہ دیکر بتایا کہ ان کی طرح ہی شکر گزار بننا چاہئے اور اقتدار پاکر اللہ کے حکم کے مطابق معاملات چلانے چاہیں پھر حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام، اور حضرت ذوالکفل علیہ السلام کا حوالہ دیکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے مظلوم صحابہ کرام کی ہمت افزائی کی کہ جس طرح اللہ کے ان نیک بندوں نے صبر اختیار کیا اور اللہ نے صبر کے بدلے میں اپنی رحمتوں سے نوازا اسی طرح تم بھی مصائب کے مقابلہ میں صبر کا مظاہرہ کرو اللہ تمہیں بھی اپنی رحمتوں سے نوازے گا- گویا اب قیامت تک کے لئے مسلمانون کو یہی سبق دیا جارہا ہے ( کاش کہ وہ اسے سمجھیں)

اس طرح حضرت یونس علیہ السلام، ذکریا علیہ السلام، یحیٰی علیہ السلام، مریم علیہ السلام، عیسٰی علیہ السلام کا حوالہ دیا جن کے لئے اللہ نے انتہائی تاریک اور مایوس کن حالات میں اپنی قدرت و حکمت کے نہایت حیرت انگیز کرشمے نمودار کئے تاکہ یقین آجائے کہ حالات و اسباب سب اللہ کے اختیار میں ہیں اس لئے اسے راضی کرنے کی فکر کرو- سورت کا خاتمہ پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو اطمینان دلایا ہے کہ اپنے کام میں لگے رہو جو اختلاف کرتے ہیں ان کا معاملہ ہم پر چھوڑ دو-

اس کے بعد سورہ حج ہے یہ مکی دور کی آخری سورت ہے جبکہ قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمانوں نے مدینہ ہجرت شروع کردی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کا وقت بھی قریب آگیا تھا اس میں قریش کو اللہ کے غضب سے ڈراتے ہوئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت اور بیت اللہ کی تعمیر کرنے کے مقصد کی روشنی میں واضح کیا گیا کہ اس گھر کا متولی ہونے کے اصل حقدار مشرکین نہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جن کو یہاں سے نکالنے کے کئے ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں- اسی طرح قریش کو اللہ کا غدار اور غاصب قرار دیا گیا اور مسلمانوں کو بشارت دی گئی کہ اللہ ان کی حفاظت فرمائے گا اور قریش کی جگہ ان کو اپنی امانت کا امین بنائے گا۔

سورہ ختم کرتے ہوئے قریش کے مشرکانہ عقائد کا خلاف زبردست استدلال پیش کیا جو ہر زمانہ میں قابل غور ہے فرمایا جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے ہیں، اس کو بچا بھی نہیں سکتے، جن سے مانگا جارہا ہے اور جو مانگ رہے ہیں دونوں ہی کمزور ہیں- حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی جیسا کہ اس کا حق ہے ویسی قدر ہی نہیں پہچانی ہے بے شک اللہ سب سے زیادہ قوی اور غالب ہے-اے ایمان لانے والوں! رکوع اور سجدہ اور اپنے رب کی بندگی کرتے رہو اور بھلائی کے کام کرتے رہو تاکہ فلاح پا سکو اور اللہ کی راہ میں جدو جہد کرو جیسا کہ اس کا حق ہے- اس نے تم کو اسی کام کے لئے چن چن کر اکٹھا کیا ہے اور دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ تمہارے باپ ابراہیم کی ملت کو تمہارے لئے پسند کیا ہے- اسی نے تمہارا نام مسلم یعنی اطاعت گزار رکھا ہے۔ پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی تاکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لئے دین کا مکمل نمونہ بنے اور تم دوسروں کے لئے نمونہ بنو- پس نماز کا اہتمام کرو، زکوٰت ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوطی سے تھام لو- وہی تمہارا مولٰی ہے اور وہی تمہارا مدد گار، کتنا اچھا ہے وہ مولیٰ کتنا، اور کتنا اچھا ہے وہ مددگار-

سورہ حج کے آخر میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے لئے دین کے گواہ یعنی نمونہ بنائے گئے ہیں اس لئے انہیں نماز،زکوٰت اور توکل علی اللہ کی صفات پیدا کرنی چایئے-سورہ مومنون کی ابتداء اس کی تفصیل سے کی گئی ہے- فرمایا کامیاب ہوگئے وہ اہل ایمان جو ١ اپنی نمازوں کا خشوع اختیار کرتے ہیں ٢ لغویات یعنی فضول اور بے مقصد باتوں اور کاموں سے دور رہتے ہیں ٣ اپنے نفس،اخلاق زندگی، اور مال سب کا تزکیہ کرتے رہتے ہیں ٤ اپنے جسموں کے قابل شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں اور جنسی معاملات میں آزاد اور بے لگام نہیں ہوتے ٥ اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں ٦ اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں - یہ لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
انسان کی پیدائش میں اللہ قدرت کی جو نشانیاں ہیں -ان سے موت کے بعد دوبارہ اٹھائےجانے پر دلیل دی اور کائنات میں اللہ کی پروردگاری کی جو نشانیاں ہیں ان سے سزا اور جزا کے لازم ہونے کی دلیل دی- ہر قسم کے میووں، پھلوں، اور غذا کی دوسری چیزوں، جانوروں، اور ان کے دودھ اور دوسرے فوائد کی تفصیل سے گنا کر توجہ دلائی کہ جو ہستی تمہاری ایک ایک ضرورت اور آسائش کا اس درجہ خیال رکھتی ہے کیا تمہیں اور ان چیزوں کو بنا کر وہ ایک کونے میں جا بیٹھی ہے اور اس بات سے بالکل بے تعلق ہوگئی ہے کہ تم اس کی دنیا میں کیا کرہے ہو اور کیا نہیں کر رہے ہو- کیا انصاف پسندی کا یہ لازمی تقاضہ نہیں ہے کہ وہ ایک دن ایسا بھی لائے جب تم سے تمہاری ذمہ داریوں کی باز پرس ہو اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور اس کے حقوق ادا کرنے والوں کو جزا اور ناشکری اور ظلم کرنے والوں کو سزا دی جائے-

بتایا کہ تمام انبیاء کو اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ملا ہے اور وہ ایک ہی پیغام لیکر آئے ان کی امتوں نے ان کے لائے ہوئے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا اور اب سب اپنے اپنے طریقوں میں مگن ہیں- نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلقین کی گئی کہ صبر کریں اور کچھ دن انہیں اپنے طریقوں پر مگن رہنے دیں - یہ دنیا دار اور دنیا پرست اپنی انہی دلچسپیوں میں ڈوبے رہیں گے یہاں تک کہ جب ہم ان کو پکڑیں گے تو یہ سب چیخیں اور چلائیں گے لیکن یہ سب بیکار ہوگا۔

سورت کے اختتام پر نافرمانوں کو دی جانے والی عبرت ناک سزا کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ تم نے ہمارے فرمانبرداروں اور ہم سے بخشش اور رحم کی دعائیں کرنے والوں کا مذاق اڑایا یہاں تک کہ انکی مخالفت میں تم یہ بھی بھول گئے کہ میں بھی کوئی ہوں اور تم ان پر ہنستے رہے۔ آج ان کے صبر کا پھل میں نے یہ دیا ہے کہ انہیں کامیاب کردیا- پھر اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا “ بتاؤ زمین میں کتنے سال رہے؟ “ وہ کہیں گے “ایک دن یا اس کا کوئی حصہ“ ارشاد ہوگا “ تھوڑی دیر ٹہرے ہونا ! کاش تم نے یہ بات اسی وقت جان لی ہوتی - کیا تم نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے “ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! دعا کیجئے میرے رب درگزر کر اور رحم فرما ! تو سب رحم کرنے والوں سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے۔

سورہ نور میں سب سے پہلے زنا کی سزا بیان کی گئی ہے کہ ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں پھر جھوٹے الزام کی سزا بیان کی کہ اسی ٨٠ کوڑے مارے جائیں-اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام منافقین نے لگایا تھا اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بری کرتے ہوئے فرمایا کہ “ تم نے اسی وقت کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے “

آج کی تروایح کا بیان ختم ہوا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین اللہ اس قرآن کی برکت سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات تبدیل فرمائے آمین
تحریر:مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520359 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More