پرچم ستارہ وہلال

ویسے تو ہمیں روز فیس بک پر بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو ملتا ہیں لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انسان نظر انداز کرنا بھی چاہے توبھی نہیں کر سکتے۔کچھ پوسٹس ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک ہی نظر میں دل کو چھو جائے اور انسان اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جایے۔ آج مجھے فیس بک پر کچھ اسی طرح کی پوسٹ پڑھنے کوملی۔ پڑھتے ہی میرے ذہن میں سو سوالوں نے جنم لیا اور سوچتے ہی دل گھبرانے لگا کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے میرے پیارے مُلک پاکستان کے پرچم کے ساتھ۔۔۔۔پوسٹ میں ایک پاکستانی بچہ، پتہ نہیں کس دن کا ذکر کر رہا تھا جسے پڑھتے پڑھتے میں خود شرم محسوس کرنے لگااور تھوڑی مایوسی بھی ہوئی۔ پوسٹ کچھ اس طرح تھا ـ ـــــــــــــ․․․․آج کا دن ہم پاکستانیوں کے لیے اہم تھا۔ میں پاکستان کا جھنڈا لیکر گھر سے نکلا لیکن جوں جوں میں بڑھتا گیا، میرا جھنڈا نیچا اور نیچا ہوتا گیاکیونکہ کسی کے پاس میرے پاکستان کا جھنڈا نہیں تھا۔ سب کے پاس اپنے اپنے جھنڈے تھے لیکن کسی کو بھی ذرا بھر افسوس نہیں تھا۔ سب بُہت خوش تھے اور میں شرمندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔․؛

پھر میں نے پوسٹ سے نظریں ہٹائی اور پاکستان کے پرچم کے بارے میں سوچنے لگا۔ پاکستان کا قومی پرچم پاکستان کے آزاد ہونے سے تین دن پہلے یعنی 11 اگست 1947 کو آئین سازاسمبلی میں اپنایا گیا جسے امیرالدین کدوائی نے ڈیزائن کیا تھا۔ پاکستان کا قومی پرچم دو رنگوں سے سجایا گیاہے۔ سبز اور سفید۔سبز رنگ اسلام اور مسلمانوں کی اکثریت کی نمائیندگی کرتا ہے جبکہ سُفید پٹی مذہبی اقلیتوں اور اقلیتی مذاہب کی نمائیندگی کرتا ہے۔ جھنڈے کے مرکز میں ہلال اور ستارہ بالترتیب ترقی اور روشنی کی علامت ہے۔پاکستان کا قومی پرچم پاکستان کی اسلام سے وابستگی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی علامت ہے۔پاکستان کا قومی پرچم اپنے مُلک کے ماضی ، حال و مستقبل کی ترجمانی کرتا ہے۔پاکستان کے قومی پرچم کو باقی جھنڈوں ( پاکستان کے ساری پارٹیوں کے جھنڈوں) پر فوقیت حاصل ہے۔مگر یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ ہم سب اپنی اپنی پارٹیوں میں ضم اور تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہم عوام نے تو پہلے ہی سے اپنے مُلک کو ـسندھودیش، پختونستان، جاگ پنجابی جاگ اور عظیم بلوچستان کے نعروں سے تقسیم کر دیا ہے اور پاکستان کا لفظ اپنی ڈکشنری سے مٹا دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی مقدس پرچم کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں۔ ہم سب نے صرف اپنے اپنے پارٹیوں کے جھنڈے اپنے دل میں رکھے ہوئے ہیں اور کسی کو بھی اپنے قومی پرچم کا کچھ پاس نہیں۔۔۔ انفرادیت کے جھنڈے (سوچ ) ہمیں کہاں سے کہاں تک لے جا سکتے ہیں، کسی نے سوچا اور نہ ہی کسی کو اس بارے میں سوچنے کا موقع ملا ہے۔ہمیں انفرادیت کے جھنڈے کسی حد تک ایک طرف رکھنی چاہیے اور اجتماعیت کا جھنڈا بُلند رکھنا چاہیے تاکہ سب ملکر اس کی حفاظت کر سکیں اور یک زُباں ہو کراس نعرہ کو بُلند کر سکیں ۔۔۔۔
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں۔۔۔۔۔