بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(17مارچ:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
آئر لینڈ،بحراوقیانوس کے جزائر ،مغربی یورپ کا ملک ہے جس میں آئرش اقوام
بستی ہیں۔جغرافیائی طور پریہ برطانیہ کے مغرب میں واقع ہے اور پوری دنیا سے
الگ تھلگ ہونے کے باعث یہاں کی کوہستانی زبان اور مقامی کلچر اپنی نوعیت
میں یکتاہیں۔اس سرزمین کی تہ میں قدرت نے بے پناہ خزانے دفن کر رکھے ہیں ۔یورپ
کی مقامی کہانیوں میں آئر لینڈ کو وہی مقام حاصل ہے جو مشرق کے داستانی
لٹریچر میں کوہ قاف کومیسر ہے کہ یہ علاقہ دوردراز کا سحرزدہ اور مسحور کن
حسن کا حامل سمجھاجاتاہے۔ستروہیں صدی کے آغاز میں یہ علاقہ برطانوی تسلط کے
زیرنگیں ہوا۔1800ء سے 1922ء تک تاج برطانیہ نے اسے براہ راست اپنے
زیرانتظام لے لیا۔6دسمبر1921کواینگلو آئرش معاہدے کے تحت یہاں پر ایک مقامی
حکومت تشکیل دی گئی لیکن برطانوی اقتدارکے ماتحت۔آزادی کی تکمیل 1937میں
ہوئی جب آئر لینڈ کو باقائدہ سے دولت مشترکہ کا رکن بنالیا گیا۔تب کے بعد
سے یہ ملک دنیا کی سیاست میں اپنے کردارکا خود سے تعین کرتا ہے لیکن ہنوز
شمالی آئرلینڈ کے بعض جزائربرطانوی تسلط سے آزادی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
آئرلینڈ کا دارالحکومت ’’ڈبلین‘‘ ہے،یہ آبادی سے بھراہوا اور دولت سے
بھرپور شہر ہے ۔مملکت کی ایک چوتھائی سے زائد آبادی صرف اس ایک خوشحال شہر
میں بستی ہے ۔’’کورک‘‘یہاں کا دوسرابڑاشہراورجبوب مغربی بحراوقیانوس کی بہت
بڑی بندرگاہ ہے۔آئیرلینڈ، دیہاتی تہذیب اور مغربی ثقافت کا حسین سنگم
ہے،یہاں کے دیہاتی اور فوک کلچر میں علاقے کی قدیم تہذیب کے بہت کچھ
آثارابھی باقی ہیں اور مقامی آبادی اپنی ان تہذیبی روایات سے بہت پیار کرتی
ہے۔یورپ کا حصہ ہونے کے باعث یہ ایک سرد آب و ہوا کی سرزمین ہے ،جنوری اور
فروری حسب دنیا یہاں کے سرد ترین مہینے ہیں جب یہاں کا درجہ حرارت 4سے7ڈگری
سینٹی گریڈ تک ہی ہوتا ہے جبکہ جون جولائی جو کہ گرم مہینے سمجھے جاتے ہیں
لیکن اس دوران بھی درجہ حرارت 14سے16ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھنے نہیں
پاتا۔مئی اور جون میں یہاں پانچ سے چھ گھنٹوں کے لیے روزانہ سورج چمکتا ہے
اور لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔پہاڑوں پر ساراسال برف رہتی ہے تاہم
جنگلی حیات کے لیے قدرت نے یہاں گھاس کے وسیع میدان بنائے ہیں جن کی خاطر
بارش بھی کم و بیش ایک سو انچ سالانہ کے حساب سے برستی ہے۔
ہندوستان کی طرح آئرلینڈ بھی کم و بیش اپنی کل تاریخ میں غیرعلاقائیوں کے
ہی زیر تسلط رہا ہے ،کلٹی نسل کے لوگ،ناروژی نسل کے لوگ جو مغربی اسکینڈے
نیویا کے باشندے تھے ،نارمن قبائل کے باشندے ،انگریزاور اسکاٹ یہاں وقتاََ
فوقتاََ حکومت کرتے رہے ۔ایک اندازے کے مطابق آج بھی یہاں کے مقامی لوگ
آبادی کاپانچ فیصد سے کم حصہ ہیں اور زیاد تر لوگ یورپ کے دیگرعلاقوں اور
ایشیاوافریقہ سے آکر آباد ہوئے ہیں۔تاہم 5%سے بھی کم مقامی آبادی کی بہت
بڑی تاریخی کامیابی ہے کہ دیگر اقوام کے اژدہام کے باوجودانہوں نے پھر بھی
اپنی مقامی زبان،لباس اور جملہ روایات کو زندہ رکھاہوا ہے۔آئین کے مطابق
یہاں دفتری زبان کے طور پر ’’آئرش زبان‘‘کواولیت حاصل ہے جبکہ انگریزی
ثانویت کی حامل ہے۔1922تک آئرش زبان رو بہ زوال تھی لیکن بعد میں اس زبان
کو تعلیمی اداروں میں وسیع پیمانے پر پڑھانے کے باعث گویا آئرلینڈ کو اسکی
مقامی شناخت میسر آ گئی ہے۔اکثریت مسیحی مذہب کی پیروکار ہے ،پانچویں صدی
سے قبل یہاں کلٹیوں کا مذہب تھاانکے جملہ عقائد اگرچہ واضع نہیں ہو سکے
لیکن اس زمانے کے اکثر دیوتاؤں اوربزرگوں کے نام آج بھی یہاں کی مقامی
روایات میں زندہ ہیں۔یہاں 90%عیسائی ہیں اور دس فیصد دیگر مذہب تاہم قانونی
طور پر ریاست کا کوئی مذہب نہیں ۔
آئرلینڈ میں پارلیمانی جمہوریت کانظام قائم ہے۔18سال کی عمرکے لوگوں کوووٹ
کا حق مل جاتا ہے۔یہاں کے آئین کااعلان 1937میں ہوا اور اس میں ریفرنڈم کے
ذریعے ترمیم کی جاسکتی ہے۔’’صدر‘‘یہاں مملکت کاآئینی سربراہ ہوتا ہے جسے
عوام ایک براہ راست انتخابات کے ذریعے سات سالوں کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ایک
شخص زیادہ سے زیادہ دو دفعہ صدر رہ سکتاہے۔صدر پارلیمان سے منظور شدہ
قوانین پر دستخط کرتاہے اور وزیراعظم کے مشورے پر حکومت کو برخواست کرنے
کااختیار بھی صدریہ کے پاس ہی ہے۔پارلیمانی طرزجمہوریت کی طرح یہاں بھی
ایوان بالا اور ایوان زیریں ہیں۔6اراکین پارلیمان ملک کی تعلیمی جامعات سے
منتخب ہو کر آتے ہیں۔وزیراعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے اور اسکی معاونت کے
لیے کابینہ میں جملہ وزراء اسکے ہم رکاب ہوتے ہیں۔ملک کو چھبیس کؤنٹیزمیں
تقسیم کیاہواہے ۔نچلی سطح پرمقامی حکومتوں کانظام ہے جہاں منتخب افرادمقامی
انتظامیہ کی مدد سے اس نظام کو چلاتے ہیں اور پولیس اور تعلیم کے صیغے
مقامی حکومتوں کے ہی سپرد ہیں۔یہاں انگلش کامن لاء رائج ہے اورانصاف کانظام
چار قسم کی عدالتوں پر مشتمل ہے،ضلعی عدالتیں،سرکٹ عدالتیں،ہائی کورٹس اور
سپریم کورٹ۔ججوں کی تقرری صدر کی طرف سے کی جاتی ہے اور زیادہ تر ججز اپنی
زندگی کے آخر تک اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔آئین کے مطابق سپریم کورٹ میں
ایک چیف جسٹس اور سات دیگر ججز کام کرتے ہیں۔
آئرلینڈ میں سڑکوں کانظام بہت اچھا ہے،یہاں کی شاہراہیں بہت عمدہ اور ٹریفک
کے لیے بہترین خدمت فراہم کرتی ہیں ،حکومت نے گزشتہ کچھ عرصہ سے سڑکوں کے
نظام پر خصوصی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔تاہم ریلوے کے نظام کو یہاں مایوسی
کاسامنا ہے ،بڑے شہروں کے درمیان تو ریلوے ٹریفک موجود ہے لیکن بعض برانچ
لائنیں معاشی نقصانات کے باعث بند کردی گئی ہیں اور وہاں وسیع کشادہ اور
عالمی معیار کی شاہراہیں بنادی گئی ہیں۔نہروں اور دریاؤں کوآبی وسائل رسل و
رسائل کے طور پراستعمال کرنے کا منصوبہ زیرغور ہے۔یہاں 34ہوائی اڈے ہیں
جہاں سے ملک اور بیرون ملک کے لیے پروازیں اڑتی ہیں۔آئرلینڈ میں پرائمری
تعلیم مفت اور لازمی ہے اور پرائمری تعلیم کانصاب زیادہ تر مذہبی تصورات پر
مبنی ہے ۔سیکنڈری تعلیم زیادہ تر پرائیویٹ ادارے ہی فراہم کرتے ہیں لیکن
ریاست ان اداروں کے ساتھ بھرپورمالی تعاون کرتی ہے۔ہائرایجوکیشن اتھارٹی
آئرلینڈکے نام سے 1972میں ایک ادارہ قائم کیاگیاجواعلی تعلیم کے انتظام و
انصرام کاذمہ دار ہے۔آئرلینڈ ان خوش قسمت ملکوں میں سے ہے جہاں شرح خواندگی
99%ہے اور پندہ سال سے بڑا ہر مرد عورت لکھ پڑھ سکتا ہے کیونکہ گورمنٹ جی
ڈی پی کا 4.7%تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔یہاں بے روزگاری کی شرح 6.2%ہے۔
جولائی 2008کے مطابق یہاں کی آبادی چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ آبادی میں
اضافہ کی شرح 1.13فیصد ہے ۔نیشنل میوزیم آف آئرلینڈ سمیت متعدد سرکاری و
نیم سرکاری اور نجی ادارے اور تنظیمیں یہاں کی ثقافت کے اظہاراور اسکے تحفظ
کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔اس کام کاآغاز آئرلینڈ میں برطانوی دور سے ہواجب
اینگلو آئرش کلچرل ادارے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔17مارچ آئرلینڈ میں قومی دن
کے طور پر منایا جاتا ہے ۔یہ سینٹ پیٹرک کا یوم وفات ہے۔سینٹ پیٹرک کو
آئرلینڈ میں سرپرست کا درجہ حاصل ہے ،یہ چوتھی صدی عیسوی کی بات ہے جب سینٹ
پٹرک روم میں پیدا ہوئے اور انہیں اغواکر کے تو غلام کی حیثیت سے آئرلینڈ
میں لایا گیا۔انہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اس سرزمین پر مسیحی تعلیمی
ادارے قائم کیے اور یہاں کی آبادی کو تعلیمات مسیح علیہ السلام سے روشناس
کرایا۔اس طرح 432ء میں تقریباََ تمام آئر لینڈ ایمان سے روشناس ہو چکا
تھا۔آئرلینڈ میں یہ دن پورے مذہبی جو ش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
آئرلینڈ میں اسلام کی قدیم تاریخ کے بارے میں تومکمل خاموشی ہے کیونکہ یہ
مملکت بنیادی طور پر ایک عیسائی ریاست ہے ،تاہم اسلامک فاؤنڈیشن آف آئرلینڈ
کے نام سے وہاں مسلمانوں کی ایک متحرک تنظیم کام کررہی ہے۔اس تنظیم کو1959
میں مسلمان طالب علموں نے قائم کیااوروہاں کے مقامی قانون کے مطابق 1971میں
رجسٹرکروایا،آئرلینڈ میں رہنے والے تقریباََ سب مسلمان اس تنظیم کے رکن
ہیں۔اس تنظیم نے 1976میں آئرلینڈ میں سب سے پہلی مسجد تعمیر کی بہت جلد یہ
مسجد چھوٹی پڑ گئی اب ماضی قریب میں ریاست کے دارالحکومت کے اندر ایک بہت
بڑا اسلامی مرکز تعمیر کر لیاگیا ہے جس کے بارے میں امید ہے کہ وہ ایک
مناسب عرصہ تک مسلمانوں کی ضروریات کے لیے کافی ہوگا۔اس تنظیم کا مرکزی
دفتر ڈبلین میں ہے اور یہ تنظیم پورے آئر لینڈ میں مساجد کی تعمیر میں
تعاون کرتی ہے۔مسلمانوں کی مذہبی تعلیم اور انکی دیگر معاشرتی ضروریات کی
تکمیل بھی اسی سوسائٹی نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔اس سوسائٹی کا ایک دستور بھی
ہے جو اکیس شقوں پر مشتمل ہے جس میں جملہ قوائدوضوابط بیان کیے گئے
ہیں۔سوسائٹی کے تحت بہت سے تعلیمی ادارے اور دیگر رفاہی پروگرام چل رہے
ہیں۔ |