عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے

یہاں اسلامی نظریاتی کونسل نکاح کے مسائل پر پرمغز فتوے جاری کرتے ہوئے نابالغ لڑکیوں سے نکاح کو جائز قرار دے رہی ہے تو وہاں کائنات کے رازوں پر سے پردہ اٹھانے پر دن رات کام ہو رہا ہے۔ کائنات کی ابتداء سے جڑی بگ بینگ تھیوری سے متعلق ٹھوس شواہد حاصل کر لئے گئے ہیں اور ان شواہد کی درستگی کو مزید پرکھنے کے مقصد سے تحقیق کا آغاز ہو گیا ہے! یہاں تمام تر عقل و دانش کے گھوڑے دوڑا کر مرد کے لئے دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی کی اجازت لینا غیر ضروری قرار دیا جا رہا ہے اور وہاں ’نیوٹرینو‘ کو سمجھ کر اسے منعکس کر کے سورج کے بطن کی منظر کشی کی جا رہی ہے۔ اب نیوٹرینو کیا ہے؟ نیوٹرینو ، الیکڑون، پروٹون، نیوٹرون جیسے متعدد ذرات ہی کی طرح ایک عدد ذرہ ہے ۔ یہ نیوٹرینو جوھری ردِ عمل کے دوران پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا سورج نیوکلئیر فیوژن ری ایکشن کے باعث حرارت اور روشنی پیدا کرتا ہے اور یہ جوہری ردِ عمل سورج کے مرکز میں وقوع پذیر ہے تو نیوٹرینو بھی اسی عمل کے دوران سورج کے مرکز میں پیدا ہو کر باہر کی جانب اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔ یہ نیو ٹرینو اربوں کی تعداد میں ہر سیکنڈ ہمارے جسم سے غیر محسوس طور پر گزر جاتے ہیں۔یہ شعور و علم کی باتیں ہیں!

بلا شبہ وہ ہم سے ہر طرح بہت آگے ہیں۔ عقل میں ، فہم میں، نظام میں، قانون میں، انصاف میں، تعلیم میں، سائنس میں، حقوق میں، آزادی میں، سوچ میں، سمجھ بوجھ میں!!!صرف سائنس کی بات ہی کر لیں تو یہاں اور وہاں کی سمجھ بوجھ کا فاصلہ دو سو برس سے بھی زیادہ کا ہے۔ اور ہونا بھی چاہیے۔ بنتا بھی ہے!!!جہاں صدیوں سے بحث کا موضوع شادی اور نکاح کے نت نئے طریقے ہوں گے، جہاں سود بھی اسلامی نام رکھ دیے جانے اور کسی مولانا کے دستخط کے باعث حلال گوشت کی طرح پاک صاف ہو جائے خواہ وہ کتنا ہی مضرِ صحت ہو، جہاں معاشرے کے نابغہ افراد کا سب سے بڑا مسئلہ عورت کا پردہ ہو،جہاں زیادتی کی صورت میں عورت چار گواہ ڈھونڈتی پھرے، جہاں دنیا میں تو عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جائے پر اسی عورت کے حوروں کے روپ میں حصول کے خاطر عام افراد کو کافر گردان کر پرخچے اڑائے جاتے ہوں، جہاں دہشت گردوں اور قاتلوں کی سیاسی حمایت فعال ہو، جہاں ریاستی معاملات مُلا کے ہاتھ میں سونپ دیے جائیں وہاں یہی سب کچھ ہوتا ہے جس سے ہم ہر لحظہ نبرد آزما ہو رہے ہیں۔ مذہب کو مذہب کی جگہ پر رکھیں، افرادِ مملکت کو انسان سمجھ کر انسانوں جیسا سلوک برتیں،امورِ ریاست کو یوں چلائیں کہ جیسے جدید ریاستی معاملات چلانے کا حق ہے تو ہی آفاقہ ممکن ہے وگرنہ ریاستی امور میں ملا کو شامل کیے جانے کا مطلب فی سبیل اﷲ فساد سے زیادہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔

تاریخ شاہد ہے کہ جن اقوام نے ترقی کی انہوں نے مذہب، ریاست اور افراد کے مابین توازن پیدا کرنے کے کلیے کو عملی جامہ پہنایا تب ہی ترقی ممکن اور ریاست مضبوط ہوئی ۔ان تین جزو میں عدم توازن کا نتیجہ ناکام ، فرقہ وارانہ تشدد سے لبریز، پچھڑی ہوئی ریاست کی رو سامنے آئے گا۔

مُلاں اپنی محدود سوچ، سمجھ بوجھ، آپسی اختلافات اور نظریے کے باعث محض تنزلی کا موجب ہی بن سکتے ہیں۔ سونے پہ سہاگا یقین کا ایسا عالم کہ تنزلی ہی کو چیخ چیخ کر حقیقی ترقی قرار دیتے نہیں تھکتے۔ واضح مثال ایسے ایسے جید علماء اور دانشور حضرات ہیں جو طالبان دور کو مثالی ثابت کرنے میں ہمہ وقت جہد میں مصروف ہیں۔
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے

مذہبی جماعتوں کی تاریخ اور کردار پر نظر دوڑائیں تو تقسیمِ ہند کے وقت یہ پاکستان کے وجود کے مخالف رہیں، قائدِ اعظم کو جن القابات سے نوازا وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، مسلمانانِ ہند کی سرحدوں کی صورت میں بٹاورے پر خوب لعن طعن بھی کرتے رہے، پاکستان بن گیا تو بوریا بسترا سمیٹ کر پاکستان آ ن دھمکے اور پھر ریاست کو صحیح مسلمان کرنے کے مشن پر کمر کس لی۔ اسلام کی اس قدر خدمت کرنے کے باوجود پاکستان کے وجود سے لے کر اب تک سیاسی طور پر ہمیشہ ناکام رہے ہیں اور عوام نے انہیں ہر انتخابات میں صرف اور صرف رد کیا ہے۔ماضی میں اقتدار میں آنے کے لئے فوجی ڈکٹیٹروں کے کندھے استعمال کیے،خونریزی ک، ملک میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کی جڑیں پکی کیں ۔ آج کل ڈکٹیٹر نہیں توکیا ہوا طالبان حمایتی سیاسی قوت پاکستان تحریکِ انصاف کا توانا کندھا خدمت میں حاضر ہے۔ ایک جانب مضبوط سیاسی حمایت، دوسری جانب منہ زور،حکمتِ عملی میں واضح، نڈر دہشت گرد قوتیں، تیسری جانب ابہام کا شکار ڈری سہمی ہوئی حکومت، چوتھی جانب تماشا دیکھتی ہوئی افواجِ پاکستان ہیں!! ملا کے تو وارے نیارے ہو گئے ہیں ۔ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا اس سے نادر موقع بھلا اور کیا ہو گا کہ مذاکرات کے نام پرسلگتی تیلی ان کے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے۔

اب ان کی آنیاں جانیاں دیکھیے گا۔ ابھی تو طالبان کی آزادانہ نقل و حرکت کے لئے بس ذرا سا فری پیس زون ہی تو مانگا ہے ، افواج جنوبی وزیرستان کے دو علاقوں (فری پیس زون) سے پسپا ہو جائے تو کیا ہی بات ہے اور طالبان کو پاکستان کے 60سے 70 ہزار شہریوں بمعہ سیکیورٹی اہلکاروں کے قتال کے عوض عام معافی مل جائے تو بس سمجھئے کہ امن ایک ننھے منھے بچے کے بسان ہاتھ پھیلائے ہماری گودی میں آنے کے لئے دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!

پاکستان میں مذہب ہمیشہ ذاتی مفادات ،اقتدار کے حصول اور اس کی تقویت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اب بھی ہو رہا ہے ! تقسیم سے پہلے سندھ میں سکھر منزل گاہ کے واقعہ پر بھی استعمال ہوا، تقسیم کے بعد ایوب خان نے بھی حسبِ منشاء مذہب سے استفادہ حاصل کیا، بھٹو صاحب بھی پیچھے نہیں رہے اور ضیاء محترم تو وہ کچھ کر گئے جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگتے چلا جا رہا ہے۔ جو رہی سہی کسر تھی اب نکل رہی ہے۔ خدا تعالی پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔

Jahid Ahmad
About the Author: Jahid Ahmad Read More Articles by Jahid Ahmad: 19 Articles with 13161 views Columnist for Roznama "Din"... View More