پندرہویں تراویح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج اٹھارویں پارے کے نویں رکوع سے انیسویں پارے کے سولہویں رکوع تلاوت کی جائے گی سورہ نور میں اہل ایمان کو ان احکام اور ہدایت سے آگاہ کیا گیا کہ جو ایک نئے تشکیل پانے والے معاشرے کو ایمان کے اثرات سے مزین اور منافی ایمان مفاسد سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری تھے- ابتداء ہی میں یہ فرمایا کہ یہ ایک عظیم سورت ہے- ہمارا اتارا ہوا یہ فرمان جو احکام دئے جارہے ہیں ان کی حیثیت فرض کی سی ہے جن کی اطاعت بے چون و چراں کی جانی چاہیے- پھر زنا کی سزا کا ذکر کیا کیوں کہ معاشرے کے انتشار اور فساد میں سب سے زیادہ دخل اسی کو ہے۔ معاشرے کےاستحکام کا انحصار اس بات پر ہے کہ رحم کے رشتوں کی پاکیزگی برقرار رکھی جائے، ان کا احترام کیا جائے اور انہیں ہر طرح کے خلل اور بگاڑ سے محفوظ رکھا جائے۔ زنا اس پاکیزگی کو ختم کرکے معاشرے کو بالآخر ڈھور ڈنگروں کا ایک گلہ بنا کر رکھ دیتا ہے، رشتوں سے باہمی اعتماد اٹھ جاتا ہے، اسی لئے اسلام نے پہلے دن سے اس انتشار کو روکنے کے لیے تفصیل سے احکام جاری کئے اور زنا کی سزا کو “ دین اللہ “ یعنی اللہ کا دین قرار دیا- آج یہ فلسفہ گھڑا گیا ہے کہ جو لوگ جرم کرتے ہیں وہ ذہنی بیماری کے سبب کرتے ہیں، اس وجہ سے وہ سزا کے نہیں بلکہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ان کی تربیت اور اصلاح کرنی چاہئے۔ اس فلسفہ کی برکت سے اللہ کی زمین غنڈوں بدمعاشوں سے بھر گئی ہے۔ چوروں اور زانیوں کی ہمدردی میں لوگ یہاں تک کہ مسلمان بھی نعوذ باللہ اللہ سے زیادہ رحیم بن جاتے ہیں-

معاشرے کو خرابیوں سے بچانے کے لئے جو احکام دئے گئے ان میں سے چند اہم یہ ہیں۔ ١ مسلمان مرد و عورت کا یہ حق ہے کہ دوسرے افراد ان کے بارے میں اچھا گمان رکھیں اور جب تک دلیل سے کسی چیز کا غلط ہونا ثابت نہ ہوجائے سنی سنائی باتوں پر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ ٢ شریر لوگوں کو بھی کھلی چھٹی نہیں ملنی چاہئے بلکہ انہیں برائی سے روکنا چایئے اور مسنون طریقوں کی تلقین کرنا چاہئے ٣ بدمعاش لوگ اچھے معاشرے کو برداشت نہیں کرسکتے اس لئے بے حیائی کا چرچا کرتے ہیں مگر یہ بات اللہ سے نزدیک بہت بری ہے، بے حیائی پھیلانے والوں کے لئے دنیا اور آخرت میں رسوا کرنے والا عذاب ہے ٤ بے اجازت ایک دوسرے کے گھروں میں داخل نہیں ہونا چاہئے، تین دفعہ اجازت مانگنے پر بھی جواب نہ ملے تو واپس لوٹ جانا چاہئے ٥ عورت اور مرد دونوں کو آمنا سامنا ہونے پر نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ دونوں کے درمیان سب سے پہلا قاصد نگاہ ہوتی ہے۔ ٦ نفسانی اشتعال سے بچنے کے لئے باوقار لباس پہننے اور دوپٹہ اوڑھنے کو ضروری قرار دیا گیا جس سے سر اور گریبان کو ڈھانکا جائے یہاں تک کہ سینہ بھی چھپ جائے۔ ٧ بیوہ عورتوں اور لونڈی غلاموں تک کا نکاح کرنے کی تاکید کی اور کہا کہ جب کوئی نکاح کی عمر کو پہنچ جائے تو لازماً نکاح کا بندوبست ہونا چاہئے۔

کائنات کی نشانیوں پر غور کرنے کی دعوت دی کہ اس کائنات میں تمام اختیارات اور تصرفات کا مالک اللہ واحدہ لاشریک ہے ہر چیز اس کی حمد اور تسبیح کرتی ہے اس لئے انسانوں پر بھی فرض ہے کہ اس پر ایمان لائیں- اس کی عبادت اور اطاعت میں کسی کو شریک کر کے اس کے غضب کے مستحق نہ بنیں- یہاں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ کے حکم کے خلاف کس کی اطاعت نہ کی جائے- ہمارے ہاں ایک بیماری یہ پھیلی ہوئی ہے کہ کہ اگر شوہر بے پردگی اور بے حیائی چاہتا ہے تو عورت یہ کہہ کر کہ شوہر ایسا چاہتا ہے وہی روش اختیار کرلیتی ہیں، اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ منافقین کو تنیبہہ کی کہ انہوں نے جو روش اپنائی ہوئی ہے کہ اپنے مفاد کی حد تک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کہنا مانتے ہیں اور مفاد کے خلاف ان کے حکم کو ٹال جاتے ہیں، یہ روش اب نہیں چلے گی۔ ماننا ہے تو پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم مانو ورنہ اللہ کو تمہاری کوئی پرواہ نہیں-

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے ساتھیوں کو واضح الفاظ میں خوشخبری دی کہ زمین کی خلافت انہیں ملے گی اور مخالفین اور دین کے دشمن تمہارا اور تمہارے دین کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ تم نماز کا اہتمام کرو، زکوٰت ادا کرتے رہو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت پر پوری طرح دل جمعی سے ڈٹے رہو۔ جلد وقت آنے والا ہے کہ اللہ خوف کی حالت کو امن اور اطمینان سے بدل دے گا۔

اب سورہ فرقان نہایت مؤثر انداز میں شروع ہوتی ہے۔ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کتاب اتاری تاکہ اہل عالم کو ہوشیار کردے کہ وہ ذات آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کی مالک، کسی بیٹے یا بادشاہی میں کسی کی شرکت سے پاک ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے، پھر اس کی تقدیر مقرر کی- لوگوں نے اس ہستی کو چھوڑ کر انہیں معبود بنا لیا جو کسی کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں- جو نہ مار سکتے ہیں نہ جال سکتے ہیں۔

منکرین حق کا انجام بتاتے ہوئے ان کے انکار کی اصل وجہ بتائی گئی کہ کیونکہ یہ لوگ ایک مرتبہ اس گھڑی کو جھٹلا چکے ہیں اس لئے اب ضد پر اڑے ہوئے ہیں مگر جب وہ گھڑی آنے پر ہاتھ پیر باندھ کر بھڑکتی ہوئی آگ میں ایک جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا “ آج ایک موت نہیں بلکہ بہت سی موتوں کو پکارو “ ان سے پوچھو یہ انجام اچھا ہے وہ ابدی جنت جس کا وعدہ خدا ترس لوگوں سے کیا گیا ہے جو ان کے عمل کی جزا اور ان کے سفر کی آخری منزل ہوگی- اس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمہ ایک واجب الادا وعدہ ہے- کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔

سائے کے نظام کو اپنی قدرت کاملہ اور توحید کی دعوت کے برحق ہونے دلیل میں پیش کیا کہ تمہاری زندگی اس سائے کی طرح گھٹنے بڑھنے کی محتاج ہے کیوں کہ سورج کی روشنی اور حرارت پر سب کی زندگی کا دار ومدار ہے اور سایہ اس کی وجہ سے ہے- اگر سایہ ہمیشہ ساتھ رہے یا ہمیشہ سورج نہ نکلے تو ساری مخلوق اس کی شعاعوں سے جھلس کر رہ جائے۔ یہ تو ایک حکیم اور قادر مطلق خالق ہے جس نے سورج اور زمین کے درمیان ایسی مناسبت قائم رکھی ہے جو ہمیشہ لگے بندھے اصولوں سے آہستہ آہستہ سایہ ڈالتی ہے اور گھٹاتی بڑھاتی رہتی ہے- یہ حکیمانہ نظام نہ تو خود بخود قائم ہوسکتا ہے اور نہ بے اختیار خدا اسے قائم کر کے چلا سکتے ہیں۔

خاتمہ پر اللہ کے اصل بندے کہلانے کے مستحق افراد کا نقشہ کھنیچا ہے- رحمان کے اصل بندے وہ ہیں جو نرم چال چلنے والے، جاہلوں سے بحث میں نہ الجھنے والے، عبادت گزار، عذاب سے بچنےکی دعائیں مانگنے والے، اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے والے، ناحق کسی کو نہ مارنے والے، بدکاری، جھوٹی گواہی اور لغو باتوں سے بچنے والے اور اپنے رب کی آیات کا گہرا اثر قبول کرنے والے، ایسے بندوں کا جنتوں میں شاندار استقبال ہوگا۔

سورہ الشعراء کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ “ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ اپنی جان اس غم میں کھو دیں گے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے- ہم چاہیں تو ان کے مطالبہ کے مطابق آسمان سے ایسی نشانی نازل کرسکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں، مگر اس طرح کا جبری ایمان ہمیں مطلوب نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ عقل و فہم سے کام لیکر ایمان لائیں۔

آخر کے رکوع میں بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا گیا کہ اگر تم لوگ نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں- اس قرآن کو دیکھو، اس کے لانے والے کو دیکھو، اس کے ساتھیوں کو دیکھو، کیا یہ کلام کسی شیطان یا کسی جن کا کلام ہوسکتا ہے؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھی تم کو ایسے نظر آتے ہیں جیسے شاعر اور ان کے داد دینے والے ہوتے ہیں، ضد کی بات تو دوسری ہے مگر اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا گواہی دے رہے ہیں،اگر دلوں میں تم خود جانتے کہ کہانی اور شاعری کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں تو پھر یہ بھی جان لو کہ تم ظلم کررہے ہو اور ظالموں کا انجام بھی دیکھو گے۔

آج سورہ نمل کے دو رکوع پڑھے جائیں گے جن کا مفہوم انشاء اللہ کل کی آیات کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔ آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن پڑھنے، اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللہ اس قرآن برکت سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات درست فرمائے۔ آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520408 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More