اندھی تقلید اور انتہا پسندی

ملالہ یوسف زئی کی کتاب ـ’ائی ایم ملالہ ‘‘تازہ تازہ منظر عام پر آئی تھی ہر طرف شور شرابہ، دائیں اور بائیں بازو والوں نے ایک دوسرے کے خوب پر خچے اڑائے، ٹاک شوز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا، ایسے ہی ایک ٹاک شو میں اوریا مقبول جان، انصار عباسی اور سید طلعت حسین جبکہ دوسری طرف اپنے آپ کو لبرل کہنے والے ایک تجزیہ نگار بیٹھے تھے جن کا نام بھول گیا ہوںْ۔بڑی گرما گرم بحث ہورہی تھی،اول الذکر تینوں حضرات کتاب کے قابل اعتراض مندرجات کو غلط ثابت کرنے اور کتاب کو کسی دوسرے فرد کا ذہنی اختراع قرار دینے کے حق میں دلائل دے رہے تھے، اپنی مدلل گفتگو کے ذریعے جب ان تینوں حضرات نے کتاب کے بخیے اڑانا شروع کردیے تودوسری طرف بیٹھے لبرل صاحب آگ بگولہ ہوکر بد تمیزی اور فتویٰ بازی پر اتر آئے، دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب پروگرام کے میزبان نے ان صاحب سے پوچھا کہ آپ نے کتاب پڑھی ہے تو ان کے ماتھے پہ بارہ بجنے لگے۔تب انصار عباسی نے کہا جناب جب آپ کسی کتاب پر بحث کرنے آئے ہیں کم از کم کتاب کا مطالعہ تو کر کے آتے۔ اتنے میں اوریا مقبول جان نے قائداعظم کے حوالے سے قابل اعتراض اقتباس پڑھ کر سنایاتو مذکورہ لبرل دانشور سر جھکا کر بیٹھ گئے۔کتاب پڑھے بغیر پورا ایک گھنٹہ وہ کتاب کے حق میں دلائل دیتے رہے تو اس دن احساس ہو ا کہ پڑھے لکھے جاہل اور جاہل دانشور کس کو کہتے ہیں۔یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ اندھی تقلید اور انتہا پسندی کس بلا کا نام ہے ۔ اندھی تقلید اس وجہ سے کہ انہوں نے خود کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا اپنی طرح کے کسی دوسرے تبصرہ نگارکی سنی سنائی باتیں آکر ٹاک شو میں کرنے بیٹھ گئے۔انتہا پسندی کی معراج دیکھے کہ مذکورہ تینوں تبصرہ نگاروں کی مدلل گفتگو کا دلیلوں کے ذریعے جواب دینے کے بجائے کتاب کی حمایت میں اخلاقیات کے تمام حدود پار کر کہ فتویٰ بازی اور الزام تراشیوں پر اتر آئے۔

لبرل طبقہ مذہبی رجحان رکھنے والے طبقے کو قدامت پسنداور انتہا پسند قرار دے رہے ہیں دوسری طرف یہ نہیں دیکھتے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جس ملالہ کے حق میں یہ انتہا پسندی کے عروج پر پہنچے اس کے والد نے خود میڈیا میں آکر کتاب میں درج غلط خیالات پر قوم سے ،معافی مانگی اور آج وہی ملالہ خود اقرار کر رہی ہے کہ یہ کتاب میری نہیں کسی اور کی لکھی ہوئی ہے۔دوسری طرف طالبان کی مخالفت میں جو انتہا پسندی اس لبرل طبقے کی دانشوروں نے اختیا ر کر رکھی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،چیخ چیخ کر فوج کو دعوت دینے والا لبرل طبقہ کراچی میں فوجی اپریشن کی مخالفت اور قبائلی علاقوں میں فوجی اپریشن کی حمایت کر کہ کون سی لبرل ازم کا ثبوت دے رہا ہے۔کراچی قبائلی علاقوں سے زیادہ شورش زدہ اور دہشت گردی کا شکار ہے روزانہ بیسیوں لوگ موت کے کے کنویں میں دھکیلے جاہے ہیں لیکن اس معاملے میں لب کھولنے کی جسارت نہیں کرتے۔دونوں طبقے دو انتہاؤں پر کھڑے ہوکر ایک دوسرے پر انتہا پسندی کے الزامات لگا رہے ہیں۔

بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی ایک وجہ پڑھے لکھے جاہلوں کی اندھی تقلیدکا رویہ ہے۔ہمارا پورا معاشرہ تیزی سے انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس میں نوے فیصد کردار پڑھے لکھے جاہلوں کا ہے، چاہے وہ مذہبی طبقہ ہو یا پھر لبرل۔ مذہبی طبقہ پھر خاص کربعض دینی مدارس سے فارغ التحصیل نیم مولویوں کو اگر آپ دیکھیں تو زندگی کے دس پندرہ قیمتی سال وہ مدارس میں گزار کر اپنے آپ کو اس قابل بھی نہیں بناپاتے کہ خود سے کسی مسلے کا حل نکالیں چنانچہ وہ سنی سنائی باتوں پر من وعن عمل کر کہ اندھی تقلید میں مبتلا ہوجاتے ہیں، پھر کسی فروعی مسلے پر مر مٹنے تک کوتیار ہوجاتے ہیں۔اپنے مکتبہ فکر کے علاوہ دوسرے مکتبہ ہائے فکر کو اسلام کے دائرے سے خارج قرار دینے لگ جاتے ہیں۔ یہی رویہ لبرل طبقے کا ہے۔ اپنے آپ کو ترقی پسند ، اعتدال پسنددوسروں کو قدامت پسند اور انتہا پسند ثابت کرنے میں اخلاقیات کے تمام حدود پر کر جاتے ہیں۔منافقت ایسی کہ اگر کوئی مذہبی طبقے کا فرد کسی حساس موضوع پر بات کرے تو یہ زمیں و اسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں،جیسے حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے پر ہنگامہ برپا کیاہوا ہے۔ اگر کوئی لبرل طبقے کا فرد ملالہ کی طرح پاکستان کی تاریخ اور بانی پاکستان کا کردار مسخ کر کے بھی پیش کرے تو یہ اس کے حق میں بے سر و پا دلیلوں کے انبار لگا دیتے ہیں۔ہمارے تعلیمی اداروں میں بیس بیس سال پڑھ کر نکلنے والے لوگ علم سے خالی ڈگریاں لے کہ گھومتے ہیں۔کسی موضوع پہ بات کرو تو کسی کی سنی سنائی بات کو حرف آخر سمجھ کر لڑنے پر اتر آتے ہیں۔گزشتہ دنوں میں نے کسی کو ایک کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا، تو ایک معروف تعلیمی ادارے کے گریجویٹ طالب علم نے فوراــ جملہ داغا کہ یہ کتاب نہیں پڑھنی چاہئے، میں نے پوچھا بھئی کیوں نہیں پڑھنی چاہئے، آپ نے پڑھی ہے کیا، تو اس نے جواب دیا میں نے آدھی پڑھی تھی ٹیچر نے منع کیاکہ نہیں پڑھو تو میں نے پڑھنی چھوڑ دی۔تو میں نے کہاآپ خود پڑھ کر فیصلہ کرتے تو بہتر ہوتااتنے میں اس کا انداز جارحانہ ہوگیامیں نے حالات سنبھالتے ہوئے اس سے کہا یہ لازمی نہیں کہ آپ اس کو پڑھ کر استفادہ کریں، جب ٹیچر نے آپ کو منع کیا تو آپ کو چاہئے تھا کہ آپ اس کا تنقیدی مطالعہ کرتے تو آپ کو کم از کم اتنا تو سمجھ میں آتا کہ آخر ٹیچر نے آپ کو منع کیوں کیا، اس میں کون کون سا مواد قابل اعتراض ہے۔ تب آپ کتاب کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار مدلل انداز میں کرسکتے، آپ کی بات میں وزن ہوتا۔ آپ کی رائے کو احترام دیا جاتا۔ اب آپ نے ایک استاد کی بات کو حرف آخر سمجھ کر علم کا ایک دروازہ اپنے آپ کیلئے بند کردیا۔

Noor Ul Huda Shaheen
About the Author: Noor Ul Huda Shaheen Read More Articles by Noor Ul Huda Shaheen: 6 Articles with 4363 views Meri Zindagi Ka Maqsad Tery Deen ki Sarfarazi
Mai Isi Leye Mujahid Mai Leye Namazi
.. View More