جب پاکستان14اگست 1947ء کو اپنے
پورے آب و تاب کے ساتھ اس دنیا کے نقشے پرابھرا تھا ،یقینا اسوقت ان عظیم
لوگوں نے یہ سوچا ہو گا کہ ہم اس وطن عزیز کو ایک مثالی مملکت بنائیں گے
جہاں لوگ ہر قسم کی فکر سے آزاد ہو کر ایک خدا ئے واحدانیت کی عبادت کریں
گے اور آپس میں بھائی چارے کی فضاء کو قائم رکھیں گے،ملک کے ہر کونے میں
عدل،روزگار کے مواقعے، امن ،اور انصاف کا بول بالا ہو گاپاکستان کو ایک نئی
منزل کی طرف گامزن کریں گے۔
عوام کو ضروریات زندگی کی تمام سہولیات دیناوقت حکمران کی ذمہ داری ہوتی
ہے۔لیکن آج کل اس تیزی سے ترقی کرتے دور میں ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے کہ
میرا گھر خوشحال رہے،میرے بچے اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کریں،میرے بچے اچھا
کھائیں،اچھا پہنیں اور لگژری گاڑیوں میں سفر کریں۔لیکن افسوس کبھی بھی ہم
نے اپنے پڑوس میں جھانک کر نہیں دیکھا کہ آج ہمارے ہمسائے نے بھی کچھ کھایا
ہے یا وہ بھوکے سو گئے ہیں۔ یہاں میں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا بہت
مشہور فقرہ کوڈ کرنا چاہوں گا کہ دریا فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوک
سے مر گیا تو مجھے ڈر ہے کہ اﷲ تعالٰی کل قیامت کے دن مجھ سے اس بارے میں
پوچھ گچھ کرے گا(کہ اے عمرؓمیں نے تجھے لوگوں پر حکمرانی عطا ء کی تھی اور
تیرے دور حکومت میں ایک کتا بھوک سے نڈہال ہو کر مر گیا ) مگر آج نہایت ہی
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ہم ایک مضبوط ایٹمی پاور اور ملک میں
آزادجمہوریت کے علمدار ہونے کے باوجودہمارا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔
وہ ممالک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے تھے آج وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں
شامل ہیں اور ہم دن بدن معاشرتی،سماجی مسائل کی دلدل میں گم ہوتے جا رہے
ہیں۔اﷲ بھلا کرے ایسے ہمارے حکمرانوں کو بیرون ممالک کے دوروں سے فرصت ملے
تووہ اس غربت کی ماری کو عوام دہثت گردی، مہنگائی،لوڈشیڈنگ،بے
روزگاری،بدامنی،لاقانونیت اور اقربا پروری اور رشوت ستانی جیسے ما حول سے
نجات دلانے کے لیے کچھ اقدامات کرے۔آئے روز غربت سے تنگ آ کر لوگ اپنے جگر
کے ٹکروں کو لے کر پبلک پلیس پر برائے فروخت کے بینر لگا کر کھڑے ہو جاتے
ہیں یا لڑکیاں اپنے گھر کاسرکل چلانے کے لیے اپنی عزت تک کا سودا کر دیتی
ہیں مگر آج کل بات بہت آگے تک جا چکی ہے غربت کی وجہ سے اپنے معصوم لخت جگر
کو بھوک کہ وجہ سے قتل کر رہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے
کے لیے کچھ نہیں ہے اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز
کے حکمران ہر ایسے مواقعہ پر اپنی سیاست چمکاتے ہوئے میڈیا پر نظر آتے ہیں
کہ حکومت نے ان کی05لاکھ کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ارے تم سب اس وقت کہاں
تھے جب لوگ ایسا کرنے پر مجبور ہو گئے،تم لوگوں نے ایسے حالات ہی کیوں آنے
دیے کہ لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ارے میرے وطن عزیز کے بے حس حکمرانوں،بیرون ممالک میں پاکستان کے پیسے سے
اپنی جائیداد بنانے والو،اس ملک کے لوگوں کا خون چوس کر اس پیسے پر محلات
تعمیر کرنیوالو،پاکستان کے پیسے سے بیرون ممالک کے دورں پر جانے والوں کم
از کم اتنا تو سوچ لو جو غریب لوگ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے سارا دن نا
جانے کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں اسے کھانے سے زیادہ بجلی و گیس کے بلوں کی
ٹینشن ہوتی ہے کہ اگر بل پیڈ نہ کیے توبجلی و گیس کے کنکشن کاٹ دیے جائیں
گے۔
قرآن پاک کی سورۃ رحمن میں اﷲ عزوجل نے جتنی بھی نعمتوں و اقسام و معدنیات
کا ذکر کیا ہے وہ سب کی سب وطن عزیز پاکستان کی سر زمین میں موجود ہیں
مگرہم نے آج تک ان کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہے کہ اگر ان
تمام وسائل کو بروئے کار لاکر روز گارکے مواقعے پیدا کیے جا سکتے ہیں
پاکستان کے ہر گھر کا چولہا آسانی کے ساتھ جل سکتا ہے اور ملک میں خوشحالی
آ سکتی ہے۔دعا ہے کہ ہم سب کر اندر احساس ذمہ داری اور دوسروں کے کام آنے
کا جذبہ ا ٓجائے انشاء اﷲ وہ دن دور نہیں جب ہم ایک نئی حیثت سے ایک قوم بن
کر ابھریں گے اور جلدہی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو کر غریب
ممالک کی امداد کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔آمین انشاء اﷲ
عزوجل |