میاں شہباز شریف سال ہا سال سے
محنت کر رہے ہیں اور لاہور کو پیرس بنانے کے لئے انتہائی سر گرم رہے ہیں۔
لوگوں نے پیرس تو نہیں دیکھا البتہ اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ اگر یہ
پیرس ہے تو ہم پیرس کے بغیر ہی بھلے۔ کچھ لوگ ایسی باتوں سے بہل بھی جاتے
ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی پیرس دیکھا ہی نہیں بلکہ پیرس کیا دنیا کے اچھے
شہر ہی دیکھے نہیں؟ میں نے یورپ کے بہت سے ملکوں کے بہت سے شہر دیکھے ہیں
چائنہ، کوریا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ اور دیگر کئی ممالک میں گیا
ہوں۔ لاہور کو کسی بھی اچھے شہر سے مقابلہ کرتے ہوئے کچھ شرمساری بھی ہوتی
ہے اور کچھ سیاستدانوں کی نا اہلیوں کی تکلیف بھی۔ ایک دو سڑکیں یا ایک دو
چوک بہتر کرنے سے لاہور پیرس نہیں بن سکتا۔ لاہور بس لاہور ہے اور جیسا بھی
ہے عزیز تر ہے۔
کچھ دن پہلے لاہور کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر نے اعلان کیا ہے کہ لاہور کو
استنبول بنایا جائے گا۔ لگتا ہے پیرس کا ٹارگٹ مشکل لگا ہے اس لئے استنبول
پر ہی قناعت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لاہور کے ڈی سی او صاحب کہتے ہیں
لاہور سے تجاوزات ختم کر کے اسے استنبول کی طرح خوبصورت بنایا جائے گا اور
ضلعی انتظامیہ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی۔ شہر کے تمام افسران اور نو
ٹاؤنز تجاوزات کے خاتمے کاعزم لے کر کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ آپریشن کو شفاف
بنانے کے لئے اس میں البتہ کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اب ملازمین کے کپڑے
ایک رنگ کے ہوں گے۔ مشینری بھی ایک رنگ میں بہت رنگین ہو گی۔ پہلے بے رنگ
بندوں اور بے رنگ مشینری نے کوئی خاص نتائج نہیں دئیے۔ اس لئے اس بار اس
مہم میں چوکھا رنگ بھرا جا رہا ہے۔ ایک کنٹرول روم بھی بنایا جا رہا ہے۔
شاید اس سے پہلے کسی کو کسی پر کنٹرول تھا ہی نہیں اسی لئے عوام کو بہتری
نظر نہیں آئی۔ اب تو رنگا رنگ کنٹرولڈ بہتری ہو گی۔ مزید یہ کہ لوگوں کی
شکایات اور میڈیا رپورٹس پر فوری ایکشن لیا جائے گا۔ کچھ ہو نہ ہو لوگوں کو
لاہور میں ایک عرصے کے بعد بسنت کی طرح کے رنگ تو دیکھنے کو ملیں گے۔
لاہور کو خوبصورت بنانے کے لئے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں
لاہور کے پرانے تھکے ہوئے روایتی معززین کو شامل کیا گیا ہے جو پہلے بھی
ہمیشہ ایسی کمیٹیوں کے رکن رہے ہیں اور جن کی کارکردگی کا نتیجہ دہی دھاک
کے تین پات ہی ہوتا ہے۔ مگر اس دفعہ شاید لوگ اک نئے ولولے سے آئے ہیں۔
انہوں نے امیر تیمور کا مشہور واقعہ سن رکھا ہے کہ امیر ایک جنگ میں بارہا
شکست کھانے کے بعد ایک غار میں بیٹھا تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک چیونٹی
دیوار پر چڑھنے کی کوشش میں ہے مگر ہر بار راستے سے نیچے گر جاتی ہے۔ امیر
تیمور دیکھتا رہا حتیٰ کہ دس بار کی ناکام کوشش کے بعد گیارہویں بار وہ
چیونٹی دیوا رپر چڑھنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ دیکھ کر امیر تیمور ایک نئے
ولولے کے ساتھ باہر نکلا اور اس دفعہ کامیاب رہا۔ اس شہر کے خوبصورتی کے
لئے جن معززین کا انتخاب کیا گیا ہے ابھی ان کا انتخاب دس دفعہ نہیں ہوا۔
یہ مشق جاری رہی اور یہ معززین ماضی کی طرح ہر حکومت کے دور میں بار بار
منتخب ہوتے رہے اور عوام کی آس کو اگر ان سے ہی پیوستہ کر دیا گیا تو یقینا
بہار کی امید کی جا سکتی ہے۔ ہماری نام کی جمہوری حکومتیں جو عملی طور پر
آمرانہ یا بادشاہی طرز کی حکومتیں ہیں ان کے پاس ایسے معززین کے علاوہ کوئی
معقول اور فہم رکھنے والا شخص ہوتا ہی نہیں اس لئے کہ اس سسٹم میں معقول
شخص کی گنجائش ہی نہیں۔
لگتا ہے لاہور کو خوبصورت بنانے کا عمل زور و شور سے شروع ہو چکا ہے اور اس
کا آغاز نشتر ٹاؤن والوں نے رائے ونڈ روڈ سے کیا ہے۔ کیونکہ یہ میاں
برادران کا محبوب ایریا اور جائے رہائش ہے۔ میں رائے ونڈ پر چمروپور کے
بالکل ساتھ رہتا ہوں اس لئے اس سے مستفید ہو رہا ہوں۔ خصوصاً میری سکیم کے
گیٹ سے گوجر چوک رائے ونڈ روڈ تک تو استنبول ہی استنبول نظر آتا ہے اور
پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ہر روز ایک نئی تبدیلی آ رہی ہے۔ پچھلے مہینے ایک حجام
سکیم کے گیٹ کے ساتھ بیٹھ گیا ہے۔ ایک بڑا سا آئینہ پلر کے ساتھ لگا کر ایک
انتہائی قیمتی قدیم کرسی اس کے سامنے رکھے وہ علاقے کے لوگوں کی حجامتیں
خوب بنا رہا ہے۔ ویسے تو حکومت بھی پوری قوم کی حجامت بخوبی کر رہی ہے مگر
رہی سہی کسر یہ پوری کر رہا ہے۔ گیٹ کے پاس ہلکا سا موڑ ہے۔ وہاں حال ہی
میں ایک سلنڈروں میں ایل پی جی بیچنے والے نے دکان لی ہے۔ لوگوں کو موڑ پر
آہستہ چلنے کی تلقین وہ بڑے اچھے انداز میں کر رہا ہے۔ دو بڑے بڑے سرخ
سلنڈر اس نے سڑک کے درمیان میں رکھ دئیے ہیں۔ کس کی ہمت ہے جو تیز چلے۔ تیز
ٹریفک کو روکنے کا یہ خالصاً استنبولی طریقہ لگتا ہے۔ قریب ہی ایک مسجد کی
دکانوں میں ایک سموسے والا سموسے بیچتا تھا۔ اس نے بھی لاہور کی خوبصورتی
میں اضافے کی خاطر دکان چھوڑ کر مسجد کے سامنے سڑک کی زمین پر کھوکھا بنا
لیا ہے۔ پہلے پندرہ دن صرف کھوکھا تھا۔ اب مزید خوبصورتی کے لئے وہ کچھ
کرسیاں اور بنچ بھی لے آیا ہے جو کھوکھے کے ساتھ سڑک پر بچھا دی گئی ہیں۔
شاید خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لئے۔ تھوڑے سے فاصلے پر رائے ونڈ روڈ
ہے جہاں سے اندر داخل ہوں تو پانی کا ایک سمندر عبور کرنا پڑتا ہے جو ہمارے
جذبہ ایمانی کو یہ سوچ کر تازہ کرتا ہے کہ ’’دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ
چھوڑے ہم نے‘‘۔
کسی نیک آدمی نے یہ سوچ کر کہ ہر پیدل چلنے والا بغیر نہائے وہاں سے گزر
نہیں سکتا وہاں ٹوٹی ہوئی اینٹوں کا ایک ٹرک پھینک دیا۔ چنانچہ گاڑی وہاں
سے گزرتے اتنا شدید رقص کرتی ہے کہ پسلیاں چور چور ہو جاتی ہیں۔ اب زیادہ
تر اینٹیں چور چور ہو گئی ہیں تو رقص کی شدت میں کچھ کمی آ گئی ہے۔ انہی
اینٹوں کے ساتھ ساتھ گوشت والے کا کھوکھا ہے۔ موچی کا کھوکھا ہے۔ برگر والے
کا کھوکھا ہے۔ پھل کی کئی ریڑھیاں ہیں۔ ایک ریت سیمنٹ بیچنے والے نے سڑک کے
ایک طرف بجری اور دوسری طرف ریت رکھی ہے جن کے درمیان ہر وقت کوئی نہ کوئی
گدھا گاڑی سامان لادے کھڑی ہوتی ہے لیکن گدھا گاڑی والے اچھے ہیں۔ راستہ دے
دیتے ہیں۔ میری گھر کو رائے ونڈ روڈ سے آنے والی اس چھوٹی سی سڑک پر یہ
تبدیلی لاہور کو استنبول بنانے کا اعلان ہونے کے فوراً بعد آئی ہے۔ میں نے
استنبول دیکھا تو نہیں مگر اس کی خوبصورتی کا کا راز جان گیا ہوں۔ |