موجودہ معاشرے میں عورت چاند یا سورج؟

عورت چاند کی طرح نہیں ہونی چاہیے ۔ جسے ہر کوئی بے نقاب دیکھے ۔

بلکہ عورت کو سورج جیسی ہونی چاہیے۔جسے دیکھنے سے پہلے آنکھیں جھک جائیں ۔

آج کل عورت چاند کی طرح ہے جو بہت ہی خوبصورت دکھائی دیتا ہے ۔ بہت سیدھا اور سادہ بھی ہے ۔ جسے ہر کوئی بڑی حسرت اور غور و فکر سے دیکھنا چاہتا ہے اور جب اس کی تعریف کی جاتی ہے مرد اپنے ساروں کاموں کو چھوڑ کر اس خوبصورت چاند نما عورت کو دیکھنا چاہتا ہے اس کی سب سے بڑی خواہش پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ چاند نما عورت صرف اور صرف میرے لیے ہی ہو۔ جبکہ درحقیقت اسلامی معاشرے میں عورت کو انتہائی فضیلت بخشی ہے اسے چاند نما خوبصورت ہونے بجائے سورج قرار دیا ہے ۔ تاکہ اسے دکھنے والے آنکھیں جل جائیں ، گردن خود بخود جھک جائے اور نظر ختم ہوجائیں ۔ اسے کوئی نہ دیکھے یہ بہت قیمتی ، عزت دار اور بڑی آبرو والی ہوتی ہے۔

عورت کو میڈیا نے پیسہ کمانے اور اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے ۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ بغیر دو پٹہ کے نیوز اینکر ز، پروگرام اینکرز، کمرشل بریک اور بریکنگ نیوز میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ دکھا کر اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ عورت کو دیکھنے کے لیے مرد حضرات فوراََ راغب ہوجاتے ہیں۔ جس سے ان کی پیغام جلدی پہنچ جاتاہے ۔ حقیقت میں یہ یہودیوں کی سازش کا حصہ ہے کہ خواتین کو بے پردہ کر کے اسلامی ریاستوں میں اور مسلم معاشرے میں عورت کی پردہ دہی کا خاتمہ کر کے ملک و معاشرے میں جنسی مطالبات میں اضافہ کر کے گمراہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خواتین با پردہ سے بے پردہ بنا نے کے لیے میڈیا کو تیزترین ہتھیا ر سمجھ کر استعمال کیا جا رہا ہے ۔جس عورت سورج نہیں بلکہ چاند کی طرح رات کو ہر نظر کی زینت بن چکی ہے۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ عورت کے بغیر معاشرہ بھی نہیں قائم رہ سکتا ہے ، عورت گھر کی زینت ہے عورت ماں بھی ہے بہن و بہو بھی ہے اور بیوی بھی ہوتی ہے ۔

عورتوں کے حقوق کے دعویٰ دار بین الاقوامی تنظیمیں ہی عورت کی عزت کم کرنے کے اصل زمہ دار ہیں۔ اس کی عزت و آبر و کی دلائل تو دیتے ہیں مگر اس کی بے عزت بھی ان کے ہاتھوں سے ہو رہی ہے ۔ مثال کے طور پر ہم بازار میں کوئی قیمتی چیز خریدتے ہیں جتنی زیادہ قیمتی ہوتا ہے اُس کا اتنا ہی خیال رکھا جاتا ہے ، اسے کسی مضبوط اور محفوظ جگہ رکھتے ہیں الماری یا کسی دوسری محفوط جگہ رکھتے ہیں کہ کہیں گم نہ ہو جائے ۔ مثلاََ ہیرا یا سونا بہت قیمتی چیز ہیں ان کو خرید کر محفوط پیکنگ کرواتے ہیں اور محفوظ طریقے سے گھر لے جاتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ مالک کے علاوہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے کہیں وہ اسے چوری کر کے لے نہ جائے ۔ تو گھر لے جا کر اسے محفوظ جگہ رکھتے ہیں۔ یا پیسہ کی بات کریں تو پیسہ بھی بہت قیمتی ہے ،اسے ہمیشہ بینک میں یا جیب میں یا تو الماری میں پیک کر محفوظ کرتے ہیں ۔

اسی طرح بہت سی کم قیمت چیزیں بھی خریدتے ہیں ،مثلاََ سبزی وغیرہ بھی تو کم قیمت کے ہوتے ہیں ان کو خریدتے ہیں ، ایک تھیلی میں لے جاتے ہیں ، بازار میں سب کے سامنے لے جاتے ہیں بے خوف لے جاتے ہیں کیونکہ اس کی چوری ہونے کی کوئی خدشات بھی نہیں ہوتی ہے اگر ہوتی تو بہت کم ہوتی ہے ۔ گھر لے جا کر کچھ کھاتے ہیں تو کچھ گلی میں باہر پھینک دیتے ہیں ۔

عورت کو قیمتی کہنے والے تنظیمیں اسے سونا ، ہیرا کی طرح قیمتی مان کر اسے با پردہ اور گھر میں ہی محفوظ رکھنے کے لیے کیوں زور نہیں دیتے ؟ عورت کو سبزی دال کی طرح بے پردہ معمولی رقم کے عیوض سمجھ کر اسے بے خوف دنیا کے سامنے دکھانے کی حامی ہیں ۔

قیمتی چیز سب کو پسند ہوتا ہے ، قیمتی چیز کو ہر کوئی چا ہتا ہے ، ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ قیمتی چیز اس کا ہو جائے جیسے ہر کوئی ہیرا ، موتی ، سونا کے لیے کوشش کرتا ہے تو عور ت بھی اسی طرح ہے اسے سونا ہیرا کی طرح کی ہر جگہ محفوظ اور پردہ میں رکھیں تاکہ کوئی نہ دیکھے اگر کوئی دیکھے گا تو اسے لے جائیگا ، لو میرج یا کورٹ میرج کر کے ، یا اغواہ کر کے اپنی ہوس کا نشان نبائے گا اس کی بے حرمتی بھی کریگا اور اس کی قیمت کو گرا دیگا ۔

لہذا یہ تنظیمیں اسلام کی بات کو غور سے سمجھیں کہ اسلام نے عورت کو بہت قیمتی قرار دیا ہے ہیرا سونا سے بھی ہزار گنا ہ زیادہ تو اسی لیے اسے پردہ میں اور گھر میں ہی محفوظ تصور کیا ہے ۔ جو عورت گھر میں اور بازار میں با پردہ ہوتی ہے وہ چوری ہونے سے بچ جاتی ہے ۔ وہ لو جدید میرج بھی نہیں نہ ہی کورٹ میرج کر کے اپنے والدین و خاندان کی عزت کم کرتی ہے ۔ جو بے پردہ ہوتی ہے ہیں وہ لو میرج ، کورٹ میرج بھی کرتے ہیں بعد میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی سمجھ کر خود کشی بھی کرتی ہیں ۔ جس سے عورت کی قیمت میں کمی پیش آتی ہے ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو قوانین نے عورت کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت کوشش کی ہے مگر قوانین پر کوئی عمل نہیں ہوتا لیکن سب سے بڑی بات اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی ، جنسی تشد ، جدید ٹیکنالوجی کے زریعے دوستی و محبت کے ڈرامے رچھا کر شادی کرنے اور کورٹ میرج کر کے اسلامی تہذیب کی دھجیاں اڑھائی جا ر ہی ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میڈیا میں عورت کے بے پردہ رکھنے اور معاشرے میں بھی بے پردہ رکھنے کی سخت قوانین بنائی جائے تاکہ خواتین با پردہ رہنے کی وجہ سے محفوظ رہیں ۔

عورت کی عزت و آبرو کو بچانے کے لئے اسلامی نے بہت آسانیاں پیدا کیے ہیں ۔ یہ اسلامی ریاست ہے تو یہاں عورت کی عزت آبرو کے لیے خواتین کے لیے الگ اسکول ، الگ کالج، الگ فٹ پاتھ، الگ سرکاری دفاتر ،الگ صحت کے مراکز، الگ پولس نظام ، الگ نادرا نظام ، الگ عدالتیں جہاں خواتین کے لیے صرف اور صرف خواتین ہیں کام کریں۔ پاکستانی میڈیا میں تمام ں نیوز چینل ، تمام ٹی وی شو ڈرامائی چینل اور تھیٹر ، فلم انڈسٹری ، کلب ، ہوٹل، یونیورسٹیوں میں عورت کے بے پردہ بنا یا گیا ہے جس سے عورت زات کی انتہائی بے حرمتی ہوتی ہے۔ آیا روز معصوم بچیوں کے ساتھ ، لڑکیوں کے ساتھ زبردستی شادی، زبرداستی نکاح ، زبر دستی سے جنسی تشدد کے واقعات مین بہت تیزی آئی ہے جس سے عورت زات کی بے حرمتی ہوتی،عورت کی بے حرمتی ماں کی بے حرمتی ہے، عورت کی بے حرمتی بہن کی بے حرمتی ہے ۔ معاشرے میں عورت کے لیے سرکاری سطح پر با پردہ رہنے کی سخت قوانین کی اشد ضرورت ہے اس سے خواتین با پردہ اور محفوظ ہوگی۔ نہ کوئی اسے دیکھے گا نہ ہی کوئی اس کی عزت و آبرہ پر میلی آنکھ سے نظریں پھیر یگا ۔تو انشاء اﷲ بہت بہتری آئے گا ۔

بحرحال ! یہ بات حقیقت ہے کہ عورت چاند کی طرح نہیں ہونی چاہیے ،جسے ہر کوئی بے نقاب دیکھے ۔بلکہ عورت کو سورج جیسی ہونی چاہیے، جسے دیکھنے سے پہلے آنکھیں جھک جائیں ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کو چاند کی طرح پیش کرنے کی میڈیا کی کرداد اہم ہے ۔ خوبصورت سے خوبصورت خواتین کو اینکرز، اداکار اور ماڈل کی شکل میں پیش کرتی ہے جس کی طرف ہر پاکستانی مرد سمیت دنیا بھر کی مردوں بُری نظریں ہوتی ہے۔ کاش اسے با پردہ بنا یا جائے تو اس کی اصل مقام اور قیمت بحال ہو سکتی ہے۔ اسلام میں عورت کو بہت قدر اور قیمت ہے اس لیے اسے دنیا کی نظروں سے ہمیشہ دور رکھ کر ہی اس کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھتی ہے۔
Asif Yaseen
About the Author: Asif Yaseen Read More Articles by Asif Yaseen: 49 Articles with 45609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.