سترہویں تراویح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج اکسیویں پارے اتل ما اوحی کی تلاوت کی جائے گی: سورہ عنکبوت کی آیات میں اہل ایمان میں عزم و ہمت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کفار کو سمجھانے کا پہلو بھی چھوٹنے نہیں پایا، توحید اور آخرت دونوں حقیقتوں کو دلائل کے ساتھ ان کے سامنے بیان کیا گیا۔ فرمایا “ اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے تمہاری خدمت پر لگایا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے! پھر یہ کیسے دھوکہ کھا رہےہیں؟ اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اس کے بعد مردہ زمین کو جلا اٹھایا؟ تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ! کہو الحمد اللہ یعنی جب یہ سارے کام اللہ کررہا ہے تو پھر حمد و تعریف اور عبادت کا مستحق بھی وہی ہے یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل بہلاوا ہے، یعنی اس کی حقیقت بس اتنی ہے جیسے تھوڑی دیر کے لئے کھیل کود لیں اور پھر اپنے گھر کو سدھار جائیں- یہاں جو بادشاہ بن گیا وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں بن گیا ہے بلکہ صرف بادشاہی کا ڈرامہ کررہا ہے ایک وقت آتا ہے کہ جب اس کا یہ کھیل ختم ہوجاتا ہے اور اسی طرح خالی ہاتھ تخت سے رخصت ہوجاتا ہے جس طرح دنیا میں آیا تھا، اصل زندگی کا گھر تو آخرت کا گھر ہے کاش یہ لوگ جانتے!

کیا لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے چاروں طرف لوٹ مار کرنے والوں کے درمیان مکہ کو ایک پر امن حرم بنا دیا ہے پھر بھی یہ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا کفران کرتے ہیں کیا ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہے جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے کی ہدایت دیں گے اور یقیناً اللہ دین کا کام کرنے والوں کے ساتھ ہے-

اب سورہ روم شروع ہوتی ہے جو ٦١٥ عیسوی میں ایرانیوں نے روم پر غلبہ حاصل کرلیا، اسی سال مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی- روم پر آتش پرستوں کے قبضے کی وجہ سے لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں کہ آسمانی مذاہب کے ماننے والے آگ کی پوجا کرنے والوں سے کیسے شکست کھا گئے اس بات کو مشرکوں نے اپنے مذہب کے حق ہونے کی دلیل سمجھا، چنانچہ ایران کے بادشاہ خسرو نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے ہر قل کو خط لکھا “ تو کہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے کیوں نہ تیرے رب نے یروشل کو میرے ہاتھ سے بچایا “ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور آج بھی یہ ہورہا ہے کہ جب کم ظرفوں کو دنیا میں ذرا سی کامیابی ہوتی ہے تو فوراً اللہ اور اس سے منسوب مذہب کا مذاق ارانے لگتے ہیں۔ اسی طرح مشرکین عرب بھی کہنے لگے کہ مسلمانوں کا دین بھی اسی طرح مٹایا جائے گا۔

اللہ نے اس بات کا نوٹس لیا اور یہ سورت نازل فرمائی “ ہاں قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں مگر چند سال کے اندر اندر وہ غالب آجائیں گے اور وہ دن وہ ہوگا جب اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان خوش ہورہے ہونگے “ اس میں دو باتوں کی پیشن گوئی کی گئی تھی ایک یہ کہ رومی غالب آجائیں گے دوسری یہ کہ مسلمانوں کو بھی فتح نصیب ہوگی، کسی کو یقین نہ آتا تھا کہ یہ پیشن گوئیاں پوری ہونگی چنانچہ کفار مکہ نے خوب مذاق اڑایا اور آٹھ سال تک رومی کو شکست پر شکست کھاتے رہے یہاں تک کہ قیصر قسطنطنیہ چھوڑ کر تیونس میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا اور مسلمانوں پر اہل مکہ کے مظالم انتہا کو پہنچ گئے اور مسلمانوں پو اہل مکہ کےمظالم انتہا کو پہنچ گئے٦٢٢ عیسوی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے-٦٦٤ عیسوی میں ہرقل نے آذر بائی جان میں گھس کر ایرانیوں پر پشت سے حملہ کیا اور ایران کے آتشکدہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی-ادھر مسلمانوں پر کفار مکہ نے بدر کےمقام پر حملہ کیا مگر اللہ نے ان کا زور توڑ کر رکھ دیا اور مسلمانوں کو تاریخ کی عظیم الشان فتح نصیب ہوئی اور اس طرح دونوں پیش گوئیاں سچی ثابت ہوئیں۔

سورہ روم سے یہ بات سامنے آگئی کہ انسان بظاہر وہی کچھ دیکھتا ہے جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے مگر اس ظاہر کے پردے کے پیچھے جو کچھ ہے اس کی اسے خبر نہیں ہوتی،جب یہ ظاہر بینی دنیا کےذرا ذرا سے معاملات میں غلط اندازوں کا سبب بن کر بعض اوقات انسان کو بڑے نقصانات میں مبتلا کردیتی ہے تو پھر پوری زندگی کے پورے سرمایہ ،مال،اولاد،جائیداد سب کو دائو پر لگا دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ خدا پرستی کے بجائے دنیا پرستی پر چلانے لگ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی بڑی غلطی ہے-روم اور ایران کےمعاملہ کا رخ آخرت کے مضمون کی طرف پھیرتے ہوئے اسے طریقہ سے سمجھایا کہ آخرت ممکن بھی ہے اور معقول بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے-انسان کی زندگی کےنظام کو درست رکھنے کے لئے بھی یہ ضرورت ہے کہ آدمی آخرت کا یقین رکھ کر موجودہ زندگی کا پروگرام بنائے ورنہ وہی غلطی ہوگی جو ظاہر پر اعتماد کے بڑے بڑے فیصلے کرنے سےاکثر ہوتی ہے۔ کائنات کی نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ شرک کائنات اور انسان دونوں کی فطرت کے خلاف ہے۔ اسلئے جہاں بھی انسان نے اس گمراہی کو اختیار کیا وہاں فساد رونما ہوا۔ ان دونوں قوموں ( ایران و روم ) کی لڑائی کے سبب جو فساد عظیم رونما ہوا وہ بھی شرک کے نتائج میں سے ہے

سورہ لقمان میں اللہ نے حضرت لقمان کی وہ نصیحتیں بیان کی ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں-اہل عرب حضرت لقمان کی حکمت و دانش پر فخر کرتے تھے اور ان کے قصے ان کے ہاں مشہور تھے، اللہ نے اسی سے استدلال کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت لقمان نے بھی اپنے بیٹے کو وہی نصیحتیں کیں جن کی دعوت یہ حکیمانہ کتاب دے رہی ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عقل سلیم اس دعوت کے حق میں ہے اور جو لوگ مخالفت کررہے ہیں وہ دراصل عقل سلیم اور فطرت سے جنگ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ لقمان اپنے بیٹے کو جن باتوں پر عمل کرنے کے لئے اس دلسوزی سے نصیحت کرتے تھے آج انہی باتوں سے روکنے کے لئے باپوں کی جانب سے بیٹوں پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انہیں بتایا گیا کہ ان کے اندر بھی جو لوگ صحیح فکر و دانش رکھنے والے گزرے ہیں انہیں بھی انہی باتوں کی تعلیم دی ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دے رہے ہیں یعنی یہی باتیں انسانی فطرت کے مطابق ہیں- آج بھی یہ بات ملحوظ رہے کہ مغربی فلاسفر جب اخلاقیات پر بحث کرتے ہیں تو وہ بھی اس کی بنیاد عقل عام کے معروف اور مسلمہ اخلاقی اصولوں پر ہی رکھتے ہیں مگر آخرت اور اللہ کا انکار کرنے کی وجہ سے وہ یہ نہیں بتا پاتے کہ انسان کو آخر نیکی کیوں کرنی چاہیے اور بدی سے کیوں بچنا چاہیئے؟ اصل بنیاد یعنی اپنے پیدا کرنے والے کو راضی کرنا اور اس کی ناراضی سے بچنا ۔۔ بس اس سے بھاگتے ہیں اس کی سزا یہ ملی کہ ان کی تمام اخلاقیات بے بنیاد اور بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں۔ ان فلاسفرز نے بنیاد یہ بتائی کہ فائدہ پہنچے، لذت ملے، خوشی حاصل ہو اور زیادہ سے زیادہ یہ کہ فرض برائے فرض یعنی ڈیوٹی ہے اسے ڈیوٹی سمجھ کر ادا کرو اور نتیجہ یہ نکلا کہ نفس پرستی اور ہوسناکی کو خوشی کہا جاتا ہے اور اس کو زندگی کا مقصد بنالیا گیا ہے۔ محبت کے رشتے بھی معصومیت اور انسانیت سے خالی ہوگئے ہیں اور صرف نفسانی خواہش پوری کرنے کا نام محبت رکھ لیا ہے۔

اس فلسفہ نے ان کی سب سے اچھی تعلیمات کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور خاندانی نظام کے بخیئے ادھڑ گئے ہیں اور مفاد پرستی کے سوا کوئی رشتہ قابل احترام باقی نہیں رہا ہے۔ اس کے برخلاف قرآن نہ صرف اخلاقیات بلکہ سارے دین کی بنیاد فطرت پر رکھتا ہے مگر جانوروں کی فطرت نہیں بلکہ انسانی فطرت پر جس کی گتھیاں سلجھانے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے اس نے کتابیں اور رسول بھیجے ہیں اور صحیح انسانی فطرت کو ان کے ذریعہ واضح کیا ہے اور بتایا کہ اصل چیز اپنے رب کو راضی کرنا ہے اور اس کی ناراضی سے بچنا ہے۔

اس پر مشرکین اعتراض کرتے تھے کہ اس حقیقت کو جھٹلانے کا انجام قیامت کو آنا ہے تو وہ آ کیوں نہیں جاتیِ؟ اس کا جواب سورت کے آخر میں دیا گیا ہے کہ قیامت کے آنے کا وقت اللہ کو معلوم ہے اگر عام انسانوں کو معلوم نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حقیقت نہیں ہے- بارش ایک حقیقت ہے مگر کیا تم بتا سکتے ہو کہ جو بادل آتے ہیں وہ ضرور برسیں گے یا ایسے ہی آگے بڑھ جائیں گے، اسی طرح عورت کو حمل سے اولاد ہوگی مگر کیا ہوگی( لڑکا یا لڑکی ) ؟؟یہی حال موت کا ہے جو زبردست حقیقت ہے مگر کس کو کب موت آئے گی کون جانتا ہے۔ جب ان چیزوں کا علم انسان کو نہیں مگر یہ حقیقت ہیں تو پھر قیامت کا اگر علم نہ ہو تو وہ کیسے مشکوک ہوگئی؟ اس گھڑی کا صحیح علم اللہ ہی کے پاس ہے جیسے بارش، ہونے والی اولاد، کل کیا ہوگا؟ اور کس سرزمین میں انسان کو موت آئے گی یہ سب اللہ ہی جانے والا ہے۔

سورہ السجدہ میں بتایا گیا کہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ وہ انسان کے قصوروں پر یکایک ایک آخری اور فیصلہ کن عذاب میں اسے نہیں پکڑ لیتا بلکہ اس سے چھوٹی چھوٹی تکلیفیں، مصیبتیں اور نقصانات بھیجتا رہتا ہے اور اس طرح ہلکی ہلکی چوٹیں لگاتا رہتا ہے تاکہ اسے تنبیہہ ہو اور اس کی آنکھیں کھل جائیں آدمی اگر ابتدائی چوٹوں سے ہوش میں آجائے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔

کفار مکہ سے کہا گیا کہ ظاہر سے دھوکہ نہ کھاؤ آج تم دیکھ رہے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات چند لڑکوں اور چند غلاموں اور غریب لوگوں کے سوا کوئی نہیں سن رہا ہے اور ہر طرف سے ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو سمجھتے ہو کہ یہ زیادہ چلنے والی نہیں ہے مگر یہ محض تمہاری نظر کا دھوکہ ہے کہ تم دن رات یہ نہیں دیکھتے کہ آج زمین بالکل بنجر پڑی ہے جسے دیکھ کر یہ خیال بھی کسی کو نہیں ہوتا کہ اس کے پیٹ میں ہریالی کے خزانے چھپے ہوئے ہیں مگر کل ایک ہی بارش میں اس کے چپے چپے سے سبزہ پھوٹ پڑتا ہے-

آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن پڑھنے، اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللہ اس قرآن کی برکت سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات بہت بنائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520486 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More