بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج انیسویں پارے کے سترہویں رکوع سے بیسویں پارے کے اختتام تک تلاوت کی
جائے گی۔ سورہ نمل میں یہ واضح فرمایا ہے کہ اس کتاب کو اللہ نے ہدایت اور
بشارت بنا کر نازل کیا ہے لیکن اس پر ایمان وہی لائیں گے جن کے دلوں کے
اندر آخرت کا خوف ہے جو لوگ اس دنیا کے عیش و آرام میں مگن ہیں وہ اپنے
مشغلوں کو نہیں چھوڑ سکتے- انکے اعمال ان کی نگاہوں میں اس طرح خوش نما بنا
دیئے گئے ہیں کہ اب کوئی یاد دہانی اور ڈراوا ان پر کارگر نہیں ہوسکتا اس
سلسلہ میں ان کے سامنے تین قسم کی سیرتوں کے نمونے رکھے گئے ہیں، ایک نمونہ
فرعون، قوم ثمود کے سرداروں اور قوم لوط کے سرکشوں کا جن کی سیرت آخرت کی
جواب دہی کے تصور سے خالی تھی اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے نفس کی بندگی
اختیار کی، کسی بھی نشانی کو دیکھ کر ایمان لانے پر تیار نہ ہوئے بلکہ الٹے
ان لوگوں کے دشمن بن گئے جنہوں نے انہیں نیکی کی طرف بلایا۔ انہوں نے اپنی
بدکاریوں پر اصرار کیا آخر عذاب اللہ نے انہیں آپکڑا اور ایک لمحہ پہلے تک
بھی انہیں ہوش نہ آیا-
دوسرا نمونہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہے جن کو دولت، حکومت اور شوکت و
حشمت سے نوازا تھا کہ کفار مکہ اس کا خواب بھی نہ دیکھ سکتے تھے لیکن اس کے
باوجود وہ اپنے آپ کو اللہ کے حضور جواب دہ سمجھتے تھے اور انہیں احساس تھا
کہ انہیں جو کچھ بھی حاصل ہے اللہ کی عطا سے حاصل ہے اس ان کا سر ہمیشہ اس
حقیقی انعام دینے والے کے آگے جھکا رہتا ہے اور نفس کے گھمنڈ کا زراسا
شائبہ بھی انکی سیرت میں نہیں پایا جاتا تھا-
تیسرا نمونہ ملک سبا کا ہے جو تاریخ عرب کی نہایت دولت مند قوم کی حکمران
تھی اس کے پاس وہ تمام مال و اسباب جمع تھے جو کسی انسان کو غرور اور سرکشی
میں مبتلا کرسکتے تھے اور سرداران قریش کے مقابلہ میں لاکھوں درجہ زیادہ
حاصل تھے پھر وہ ایک مشرک قوم سے تعلق رکھتی تھی باپ داد کی تقلید کی بناء
پر بھی اپنی قوم میں اپنی سرداری برقرار رکھنے کی خاطر بھی اس کے لئے شرک
کے دین کو چھوڑ کر توحید کے دین کو اختیار کرنا اس سے نہایت زیادہ مشکل کام
تھا جتنا کسی عام مشرک کے لئے ہوسکتا ہے۔ لیکن جب اس پر حق واضح ہوگیا تو
کوئی چیز اسے حق قبول کرنے سے نہیں روک سکی کیونکہ گمراہی صرف اس وجہ سے
تھی کہ اس نے آنکھ ہی مشرکانہ ماحول میں کھولی تھی لیکن نفس کی بندگی اور
خواہشات کی غلامی کا مرض اس پر مسلط نہیں تھا۔ چنانچہ اللہ کے حضور جواب
دہی کا احساس اس کے ضمیر میں موجود تھا اور اسی وجہ سے اس حق قبول کی سعادت
حاصل ہوئی۔
اس کے بعد کائنات کے چند نمایاں مشہور ترین حقائق کی طرف اشارے کئے ہیں اور
پوچھا ہےکہ “ اللہ زیادہ معتبر ہے یا وہ معبود جنہیں لوگ اللہ کا شریک
بنائے بیٹھے ہیں؟ پھر بناوٹی خداؤں کے متعلق جو لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ
انہیں غیب کا علم حاصل ہوتا ہے اس کی تردید فرمائی اور فرمایا اللہ کے سوا
آسمان اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور جن دوسروں کے بارے میں
یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ بھی غیب کا علم رکھتے ہیں اور اسی بناء پر انہیں
خدائی میں شریک ٹہرا لیا گیا ہے ان بےچاروں کو تو خود اپنے مستقبل کی خبر
نہیں وہ نہیں جانتے کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی؟ اور کب اللہ تعالیٰ انکو
دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا اور کیا گزرے گی اس روز جب صور پھونکا جائے گا اور
وہ ہول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں سوائے انکے جنہیں
اللہ اس ہول سے بچانا چاہے گا اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہوجائیں گے-
آج تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ وہ خوب گڑے ہوئے ہیں مگر اس
وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہونگے- یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہوگا جس نے
ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کر
رہے ہو، جو شخص بھلائی لیکر آئے گا اسے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے ہی
لوگ اس دن ہول سے محفوظ ہونگے اور جو برائی لیکر آئے گا ایسے سب لوگ اوندھے
منہ آگ میں پھینک دیئے جائیں گے۔ کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور بدلہ
پاسکتے ہو جیسا کرو ویسا بھرو-
ان سے فرما دیجئے کہ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر کے رب کی بندگی
کروں جس نے اسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے- مجھے حکم دیا گیا
ہے کہ مسلم یعنی فرمانبردار بن کر رہونگا اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤنگا اب جو
ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہوگا ان سے کہہ دیجئے میں تو بس خبردار
کرنے والا ہوں۔
سورہ القصص میں ان شبہات اور اعتراضات کو دور کیا گیا ہے جو اہل مکہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر کر رہے تھے اور ان کے ان بہانوں کو رد کیا
ہے جو وہ ایمان نہ لانے کے لیے پیش کررہے تھے، اس غرض کے لئے حضرت موسیٰ
علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا اور چند حقائق ذہن نشین کرائے گئے، مثلاً
جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس کے لئے غیر محسوس طریقہ پر اسباب و ذرائع
فراہم کردیتا ہے- جس بچہ کے ہاتھوں فرعون کا تختہ الٹنا تھا اسے اللہ نے
خود فرعون کے گھر میں پرورش کرادیا اور فرعون یہ جان ہی نہ سکا کہ کس کی
پرورش کررہا ہے! ایسے خدا سے کون لڑ کر کامیاب ہوسکتا ہے۔
اسی طرح بتایا گیا کہ نبوت کی ذمہ داری کسی کو بھی بڑے جشن منا کر اور
آسمان و زمین میں زبردست اعلان کر کے نہیں دی گئی تم حیرت کرتے ہو کہ محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چپکے سے نبوت کیسے مل گئی مگر موسٰی علیہ
السلام کو بھی اس طرح راستہ چلتے ہم نے نبوت دیدی تھی کہ کسی کو کانوں کان
بھی خبر نہ ہوئی کہ آج طور سینا کی وادی ایمن میں کیا واقعہ پیش آگیا- خود
حضرت موسٰی علیہ السلام بھی ایک لمحہ پہلے بھی نہیں جانتے تھے کہ انہیں کیا
چیز ملنے والی ہے وہ آگ لینے کےلئے گئے اور پیغمبری مل گئی ۔ پھر یہ کہ جس
بندے سے اللہ کا کوئی کام لینا چاہتا ہے وہ بغیر کسی لاؤ لشکر اور سروسامان
کے اٹھتا ہے بظاہر کوئی طاقت اس کی مددگار نہیں ہوتی مگر بڑے لاؤ لشکر والے
آخرکار اس کے مقابلہ میں بے بس ہوجاتے ہیں۔ آج جو نسبت تم اپنے اور محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان پارہے ہو اسے بھی کہیں زیادہ فرق حضرت
موسٰی علیہ السلام اور فرعون کی طاقت کے درمیان تھا مگر دیکھ لو کہ کون
جیتا اور کون ہارا؟
سورت کے اختتام پر اعلان ہوتا ہے کہ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس ذات
کے۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور تم سب سی کی طرف پلٹائےجانے والے ہو۔
سورہ عنکبوت مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی ہے کہ جب مسلمانوں پر
مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جارہے تھے کفار کی طرف سےاسلام کی مخالفت پورے زورو
شور سےہورہی تھی ان حالات میں اللہ تعالٰی نےیہ سورت سچے مومنوں میں عزم و
ہمت اور استقامت پیدا کرنے اور دوسرے کمزور ایمان والوں کو شرم دلانے کےلئے
نازل فرمائی ،اس کے ساتھ کفار مکہ کو بھی اس میں سخت تنبیہہ کی گئی کہ اپنے
انجام کو دعوت نہ دیں جو ہر زمانہ میں حق سے دشمنی کرنے والوں کا ہوتا آیا
ہے۔
اس سلسلہ میں ان سوالات کا بھی جواب دیا گیا ہے جو بعض نوجوانوں کو اس وقت
پیش آرہے تھے مثلاً والدین ان پر زور دیتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا ساتھ چھوڑ دو اور ہمارے دین پر قائم رہو جس قرآن پر تم ایمان لائے
ہو اس میں تو یہ لکھا ہے کہ ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے ان کا کہا مانو،
اس کا جواب دیا گیا کہ “ ہم ہی انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے
ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر واقعی وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی
ایسے معبود کو شریک ٹہرائے جسے تو ( میرے شریک کی حیثیت سے ) نہیں جانتا تو
ان کی اطاعت نہ کر “
اسی طرح اسلام قبول کرنے والوں سے ان کے قبیلہ کے لوگ کہتے تھے کہ عذاب
ثواب ہماری گردن پر تم تو ہمارا کہنا مانوں ۔۔۔۔۔۔اس کا جواب دیا گیا
۔۔۔۔۔۔ یہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقہ کی
پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے- حالانکہ انکے خطاؤں
میں سے کچھ بھی وہ اپنے اوپر لینے والے نہیں وہ قطعاً جھوٹ کہتے ہیں- ہاں
ضرور وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے
بوجھ بھی یعنی ایک بوجھ اپنی گمراہی کا اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ
کرنے کا اور قیامت کے روز یقیناً ان سے جھوٹ گھڑنے کی باز پرس ہوگی جسے
انہوں نےاپنی عادت بنا لیا ہے۔
اہل ایمان کےسامنے حضرت نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، مدین، عاد،
ثمود، قارون، فرعون، اور ہامان کے واقعات بیان کر کے یہ پہلو نمایاں کیا
گیا کہ پچھلے انبیاء پر کیسی کیسی سختیاں گزریں اور کتنی کتنی مدت تک وہ
ستائے گئے پھر اس کی طرف سے ان کی مدد ہوئی اس لئے گھبراؤ نہیں اللہ کی مدد
ضرور آئے گی مگرآزمائش آئے گی، مگر اس آزمائش کا ایک دور گزرنا ضروری ہے
ساتھ ہی کفار مکہ کو بھی ان قصوں کے ذریعے تنبیہہ کی گئی اگر اللہ کی طرف
سے پکڑ ہونے میں دیر لگ رہی ہے تو یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ کبھی پکڑ ہوگی ہی
نہیں پچھلی تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات تمہارے سامنے ہیں دیکھ لو کہ آخر کار
انکی شامت آکر رہی۔
مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ اگر ظلم و ستم ناقابل برداشت ہوجائیں تو ایمان
چھوڑنے کی بجائے گھر بار چھوڑ نکل جائیں اللہ کی زمین وسیع ہے جہاں اللہ کی
بندگی کرسکو وہاں چلے جاؤ اور کتنے پیارے انداز میں کہا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اپنی پیٹھوں پر اٹھائے نہیں پھرتے اللہ انکو
رزق دیتا ہے وہی تمہیں بھی دے گا وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا- اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن پڑھنے،
اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ اللہ اس قرآن
کی برکت سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات بہتر بنائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی |