دوسری شادی ( حصہ سوم )

دوسری شادی کے عنوان سے میں نے دو کالم لکھے جنکا بہت اچھا رسپانس ملا لیکن چند میرے دوستوں نے تعریف کے ساتھ تنقید بھی کی اور سوالات بھی اٹھائے۔ آج کے کالم میں الله کی دی ہوئی توفیق سے ان سب کی تسلی و تشفی کے لیئے سیر حاصل بحث کروں گا۔

اگر ہم گذشتہ سینکڑوں سال کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو تاریخ ہمیں یہ آئینہ دکھاتی ہے کہ ہم مسلمانوں نے کئی سو سالوں سے کوئی قابل ذکر سائنسدان پیدا نہیں کیا۔ سائنسی علوم تو شائد کچھ لوگوں کے نذدیک غیر شرعی ہوں۔ لیکن علوم اسلامیہ جو کہ عین شرعی و اسلامی ہیں کےبارے میں بھی ہمارا دامن بالکل خالی ہے ہم نے مرغوں کطرح چونچیں لڑانے والے ملاں تو پیدا کیئے مگر وہ علماء جو قرآن و حدیث کے بحر لا محیط میں غوطہ زنی کر کےعلم و حکمت کے گوہر نکال کر امت کو عطا کریں پیدا نہیں کیئے۔ میں شرق سے غرب ، شمال سے جنوب تک جب نظر دوڑاتا ہوں تو شیوخ الاسلام ، مفتیان کرام ، مفکرین اسلام ، مناظرین اسلام ، رہبران شریعت و طریقت تو نظر آتے ہیں مگر صد افسوس کوئی وقت کا ابو حنیفہ وشافع ، احمد بن حنبل و مالک نظر نہیں آتا نہ ہی وقت کا کوئی غزالی ورازی نظر آتا ہے۔ نہ ہی دینی ودنیوی علوم میں ہم نے کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ میں نے کثرت ازواج کے موضوع پر تمام مسالک کی کتب کا مطالعہ کیا اور سب کو اس ایک موضوع پر متفق پایا سب نے تعداد ازدواج کو چار لکھا اور پہلی بیوی سے اجازت لینا غیر ضروی لکھا اور دلیل کے طور پر سورہ انساء کی درج ذیل آیت کو نکل کیا۔

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا۔ ترجمہ ، اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے ۔

اس آیت مبارکہ کی مفصل تفسیر بمعہ حوالاجات گذشتہ کالم میں بیان کر چکا ہوں۔ گذشتہ سے پیوستہ آگے چند نکات پیش کرتا ہوں۔عربوں میں ایک سے زیادہ بلکہ بہت سی بیویاں رکھنے کا رواج پہلے سے موجود تھا اسلام نے یہ تعداد چار تک محدود کردی۔ بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنا ممنوع کر دیا گیا۔۔۔

یہ تو ان بیویوں کے سلسلہ میں ہوا جو پہلے سے موجود تھیں۔ آئندہ کے لئیے ایک وقت میں ایک بیوی کو اصول قرار دیا ۔ اسلئیے سوچ سمجھکر مرد اور عورت اپنے شریک حیات کا انتخاب کریں۔ لیکن اس کے باوجود مرد وزن انتخاب میں غلطی کر سکتے ہیں اس صورت میں قرآن یہ نہیں کہتا کہ مرد غلطی کرے تو کوئی بات نہیں پہلی بیوی کو بھی رہنے دے اور دوسری لے آئے بلکہ ایسی صورت میں پہلی کو طلاق دے اور دوسری لے آئے۔ وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ( سورہ النساء ) اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کا بنیادی اصول ایک وقت میں ایک بیوی ہے۔

قرآن کریم میں صرف ایک مقام پر ایک سے زائد بیویوں کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی غیر مشروط نہیں بلکہ دو شرائط رکھی گئی ہیں۔ پہلی شرط وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ ( اگر تمہیں خوف ہو کہ یتیموں کے درمیان قسط نہ کر سکو گے )۔ یہاں الْيَتَامَىٰ اور قسط دو الفاظ وضاحت طلب ہیں۔ الْيَتَامَىٰ یتیم کی جمع ہے ۔ ہمارے ہاں یتیم اس بچے کو کہتے ہیں جسکا باپ مر گیا ہو۔ جب وہ جوان ہو جاتا ہے یتیم نہیں رہتا۔ لیکن عربی زبان میں یہ لفظ وسیع معنوں میں استمعال ہوتا ہےاور اسکا لغوی مفہوم ہے بے کس، جسکا کوئی پرسان حال نہ ہو، جومعاشرہ میں تنہا ہو۔ وہ عورتیں جو معاشرے میں بالکل تنہا ہوں جن کے شوہر نہ ہوں انھیں بھی یتیم کہا جاتا ہے، خود کتاب المبین قرآن حکیم میں ارشاد ربانی موجود ہے۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا ( النساء آیت نمبر ١٢٧ ) (اے پیغمبر) لوگ تم سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا تم کو ان کے (ساتھ نکاح کرنے کے) معاملے میں اجازت دیتا ہے اور جو حکم اس کتاب میں پہلے دیا گیا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہے جن کو تم ان کا حق تو دیتے نہیں اور خواہش رکھتے ہو کہ ان کے ساتھ نکاح کرلو اور (نیز) بیچارے بیکس بچوں کے بارے میں۔ اور یہ (بھی حکم دیتا ہے) کہ یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو۔ اور جو بھلائی تم کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔ دوسرا لفظ القسط ہے۔ قسط اور عدل میں باریک سا فرق ہے کسی کو اسکا پورا پورا حق دینا قسط ہے۔ اسطرح وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ کے معنی ہوئے اگر تمھیں خوف ہو کہ تم معاشرے میں یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کےحقوق و واجبات پوری طرح ادا نہ کر سکو گے یعنی معاشرہ میں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہوں کہ انکے مسائل کا منصفانہ حل نہ کر سکو تو فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ کثرت ازدواج کی پہلی شرط یہ ہے کہ معاشرہ میں یتیم عورتوں اور بچوں کے مسائل پیدا ہو جائیں توانھیں اپنے اندر جذب کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ان تنہا عورتوں سے شادی کر لو ۔ ایک عورت اگر بیوہ ہو جاتی ہےاس کے بچے شفقت پدری سے محروم ہو جاتے ہیں ، اب ایک تو انکے مال کی حفاظت شریعت کی منشاء ہے دوسری انکی تعلیم و تربیت۔ تو اسکی بہتر صورت یہی ہے کہ اس عورت کو شادی کے ذریعے زیر کفالت لایا جائے۔ جن عورتوں میں سے چار چار نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہ انہی بے سہارا عورتوں کے متعلق ہے، اسطرح اس پہلی شرط کا تقاضہ یہ ہوا کہ جب معاشرہ میں مندرجہ بالا مسئلے جنم لے لیں تو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت ہے اور وہ بھی انہی بے سہارہ عورتوں کے ساتھ۔ جیسا کہ گذشتہ سطور میں پہلے درج کر چکا ہوں کہ قرآن اصولی طور پر ایک وقت میں ایک بیوی کا قائل ہے۔ مگر ایسے ہنگامی حالات پیش آجاتے ہیں جب ایک وقت میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی ضرورت لاحق ہو جاتی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اپنے ماننے والوں کی زندگی کے ہر ہر گوشئہ میں راہنمائی کرتا ہے۔ مندرجہ بالا قسم کے ہنگامی حالات اسلام کے ابتدائی دور میں مدینہ طیبہ میں پیدا ہو گئے تھے وہ حالات یہ تھے۔

١۔۔ مسلمانوں کی تعداد بہت محدود تھی جسکا اندازہ غزواہ بدر میں شریک مجاہدین کی تعداد سے لگا لیں۔
٢۔۔ اس ابتدائی دور میں جنگوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا جس میں مرد شہید ہو رہے تھے۔ اسطرح مردوں کی تعداد کم ہو گئی۔
٣۔۔ مردوں کی شہادتوں کی وجہ سے بیوہ عورتوں کی تعداد بڑھنے لگی۔
٤۔۔ مکہ مکرمہ سے بہت سی مسلمان عورتییں اپنے کافر شوہروں کو چھوڑ کر مدینہ منورہ آنے لگی تھیں، اس طرح بھی بے سہارہ عورتوں کی تعداد بڑھنے لگی۔
٥۔۔ مسلمان عورتیں صرف اور صرف مسلمان مردوں سے شادی کر سکتیں تھیں۔

اسطرح مسلم معاشرہ میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی اور ایک بیوی کے اصولی قانون میں نرمی کر کے چار کی رخصت دی گئی اور لاوارث و بے سہارہ رہ جانے والی خواتین کو حفاظت اور چھت فراہم کرنے کی ضرورت کے تقاضے پورے کیے گئے۔ ان ہنگامی حالات میں بھی تمام آئمہ حدیث وتفسیر اور فقہا و مجتہدین متفق ہیں کہ یہ حکم نہیں بلکہ اجازت ہے اور وہ بھی مشروط، امام رازی نے طویل بحث کے بعد لکھا کہ
آئمہ مجتھدین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ تعداد ازدواج فرض، واجب ، یا سنت نہیں بلکہ یہ صرف مباح ہے ( تفسیر کبیر جلد ٣ ص ٢٠٠ )۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ اس وقت ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ ایک بیوی کے قانون میں استسناء پیدا کر کے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی جائے۔ ظاہر ہے یہ کام حکومت وقت کا ہے۔ سربراہ مملکت اجازت دیں گئے۔ ہنگامی حالات میں عورت کے وسعت ظرف اور یتیموں اور بیواؤں کی حالت زار کا واسطہ دے کر پہلی بیوی کو دوسری کے لیئے آمادہ کیا جا سکتا ہے ۔ کالم طویل ہو گیا ہے اسلئیے زیر بحث آیت میں زیادہ شادیوں کے لئیے جو دوسری عدل کی شرط ہے اس پر مفصل و مدلل آئندہ کالم میں لکھوں گا انشاءالله۔ اور دوسرا پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں ، یہ اسلامی نظریاتی کونسل کا مئوقف صحیح نہیں ہے وہ جس سے استدلال کرتے ہیں اس آیت میں اجازت نہ لینے کا سرے سے ذکر ہی نہیں ، اس پر بھی آئندہ کالم میں تفصیل سے لکھوں گا انشاءالله۔ الله ہمیں دین کا صحیح فہم عطا کرے آمین۔۔۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172298 views System analyst, writer. .. View More