ملکیت

دنیا کے تمام جھگڑوں کی اگر کوئی ایک وجہ تلاش کی جائے تو میرے خیال میں وہ ملکیت ہے۔ملکوں کی سیاست سے لے کر محبت کے حلاوت تک،مذاہب کے تفرقات سے لے کرکھیل کے واقعا ت تک ،ادب کی دل آویزی سے لے کر جنگ کی دل خراشی تک،بچپن کی معصومیت سے لے کر بڑھاپے کی مظلو میت تک،بازارِ حسن کی رعنائی سے لے کر تقویٰ کی تنہائی تک،مال و دولت کی تقسیم سے لے کر علم کی تفہیم تک۔الغرض ہر معاملے کی تہ میں ملکیت کا احساس کارفرما ہے۔

سکندرِ یونان سے چلا،مشرق ومغرب پے یلغار کی،ہوسِ ملکیت کی کسی حد تک تسکین ہوئی،کتنی جانیں ایک شخص کی خواہش کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ اکیلا سکندر ہی کیا، چنگیز،ہلاکو،تیمور،ہٹلر،لینن وغیرہ وغیرہ کتنے ہی نام اسی ملکیت کے فریب کا شکار ہوے ہیں۔کتنے نظریہ گروں نے اپنے اپنے نظریے کی مقبولیت کے لئے دوسروں کے نظریات کو باطل قرار دیا تا کہ ان کے نظریے کی بالادستی قائم ہو جائے،یا دل و دماغ پر ان کا تسلط قائم ہو جائے،یا دوسروں کے دل و دماغ ان کی ملکیت ہو جائیں۔لڑائی ملکیت ہی کی تھی۔

سقراط نے مروجہ نظریات کو اپنے شعور کی ملکیت دینے سے انکار کر دیا،نتیجہ دنیا کے سامنے ہے۔ گلیلیو کا بھی چرچ سے جھڑا ملکیت کا ہی تھا۔ہیلن کی ملکیت ٹروائے کے پاس جانے سے دس سال پر محیط جنگ کامیدان سج گیا۔انقلابِ فرانس بھی ملکیت کی بنیاد پے تھا کیونکہ جب ملکیت غریبوں کے پاس آئی تو حالات پہلے سے بھی زیادہ ابتر ہو گئے۔بابراور ابراہیم کا مسئلہ بھی ملکیت ہی تھا۔تحریکاتِ سیاست یا تحریکاتِ ادب بھی اسی ملکیت کی متلاشی رہی ہیں۔ایک لکھنے والا بھی اسی چاہ میں لکھتا ہے کہ اسے دلوں اور دماغوں پر ملکیت کا حق مل جائے۔

اہلِ عشق یا رقیب بھی محبوب یا معشوق پر ملکیت حاصل کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں۔اس ملکیت کے نا ملنے کی صورت میں کیا کچھ نہیں ہوتا:دیوانگی،حیرانگی،پشیمانگی،اذیت پرستی،فنائے ہستی،بے قرار مستی، وغیرہ۔

سندیں اور خطابات بھی اسی ملکیت کی تسکین کرتے ہیں۔ملک الشعرا،پی ایچ۔ڈی،ایم۔فل،
ماسٹر، درسِ نظامی،وغیرہ دراصل علم کی سر زمین پر قبضے کی نشان دہی کرتی ہیں۔کیونکہ ان ڈگریوں کے بغیر کوئی بھی اپنے آپ کو پڑھا لکھا قرار دینے کے لئے بے قرار ہی رہے گا۔ان ڈگریوں کے ساتھ ملکیت کا حق مل جاتا ہے۔پھر وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ـــــــــــــــــ ـــــ مستند ہے میرا فرمایا ہواـ۔

سپر پاور کا مسئلہ بھی ملکیت ہے۔جب چاہے،جہاں چاہے اور جیسے چاہے کر سکتی ہے ،کیونکہ وہ سپر پاور ہے۔ورنہ سپر پاور بننے کا کیا فائدہ۔

اذواجی مسائل بھی اسی نقطے پے مرقوز ہوتے ہیں:بیوی شوہر کو اپنی ملکیت سمجھتی ہے،اس لئے وہ اسے کسی دوسری سے آنکھیں چار کرنے کی بالکل اجازت نہیں دیتی۔یہی نظریہ شوہر کا ہوتا ہے۔یعنی ملکیت کا جو تمام گھریلو مسائل کی جڑ ہے۔

حسد بھی اسی احساس سے پیدا ہوتا ہے،یعنی ملکیت نا ہونے سے حسد جنم لیتا ہے۔

ملکیت کے بے شمار دعویدار آئے اور چلے گئے،مال و متاع یہیں کا یہیں ہے،دعویدار نہیں رہے۔اگر وہ سچے تھے تو اپنا مال یا ملکیت ساتھ لے کے جاتے۔ان کا ایسا نا کرنا ان کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتا ہے۔مالک تو وہ ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔باقی سب کے ملکیت کے دعوے خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ــــــــــــــــــ
 
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313130 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More