آئیے آج ایک ویڈیو فلم دکھاتا
ہوں جسے میں نے ایک خاص انداز سے فلمایا ہے تاکہ آج ڈر اور خوف میں مبتلا
امتِ مسلمہ کے دلوں سے دشمنوں کا خوف دور ہو ‘ تاریخ نے اس قصے کو پچھلے
قریب 1425 سالوں سے سنبھال رکھا ہے۔ تو اپنے آپ کو 1425 سال پیچھے لے جائیے
اور تصور میں کھو جائیے‘ میں ویڈیو آن کرتا ہوں:
یہ رومی سلطنت کا فرمانرواں ’’ قیصر ‘‘ دنیا کا سپر پاور کہلانے والے کا
دربار ہے۔ سونے ، ہیرے و جواہرات سے جڑے تخت شاہی آنکھوں کو خیرہ کیئے دے
رہی ہے۔ وزراء و شرفاء دیدہ زیب لباس زیب تن کئیے ہوئے ہیں۔ لنگی تلواریں
لئے سپاہی مستعد کھڑے ہیں۔
قیصر روم اپنے پورے جاہ و حشم کے ساتھ تخت شاہی پہ جلوہ افروز ہے۔ اور
اُسکے سامنے سادگی کا مظہر ایک جفاکش عرب مسلم سپاہی قیدی بنے کھڑا ہے جس
کا نام ہے حضرت عبداللہ بن حذافہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور کنیت ہے ابو
حذافہ ۔
شاہ روم قیصر حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ کو منظر غائر دیکھا اور کہنے لگا: ’’
میری ایک تجویز ہے۔‘‘
ابو حذافہ ؓ : ’’ وہ کیا ‘‘
قیصر روم : میری تجویز یہ ہے کہ آپ عیسائیت قبول کر لیں۔ آپ کو میری یہ
تجویز منظور ہے تو میں آپ کو آزاد کر دوں گا اور آپ کے ساتھ عزت و تکریم کا
معاملہ روا رکھوں گا۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ نے عزم و جراءت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ ممکن
نہیں ‘ جس شے کی طرف آپ مجھے دعوت دے رہے ہیں اس سے ہزار درجہ بہتر میں مر
جانا پسند کروں گا۔
قیصر نے کہا: آپ مجھے بہادر انسان معلوم ہوتے ہیں‘ آپ میری یہ تجویز قبول
کر لیں تو میں آپ کو اپنی آدھی سلطنت دینے پر بھی تیار ہوں۔
عزم و جرات کا مجسم بیڑیوں میں جکڑا ہوا یہ قیدی مسکرایا اور گویا ہوا :
اللہ کی قسم ! آپ مجھے اپنی ساری سلطنت اور پورے عرب کی حکمرانی دے کر بھی
یہ اُمید نہ رکھیں کہ میں دین محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک لمحہ کے لئے
بھی منحرف ہو جاوٴں۔
قیصر غضبناک ہو کر کہا : میں تمہیں قتل کر دوں گا۔
ابو حذافہ ؓ نے فرمایا : آپ جو چاہیں کر دیکھیں۔
تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو صلیب پر باندھ دیا جائے اور تیر
اندازوں کو حکم دیا کہ اس كے ہاتھوں اور پیروں کے قریب قریب تیر چلاؤ ۔
شاید کہ ڈر کر ہی یہ عیسائیت قبول کرلے۔
اس نازک اور تکلیف دہ موقعہ پر قیصر نے ابو حذافہ ؓ کو تیسری دفعہ عیسائیت
قبول کرنے کی دعوت دی لیکن آپؓ نے صاف انکار کر دیا۔
جب قیصر نے دیکھا کہ یہ کسی طرح بھی ماننے والا نہیں ہے اس نے حکم دیا کہ
ایک بڑی دیگ لا کر اس میں تیل ڈال کر گرم کیا جائے جب تیل ابلنے لگا تو
قیصر نے مسلمانوں کے دو قیدیوں کو یکے بعد دیگرے اس میں پھینکوا دیا ، وہ
دونوں دیکھتے ہی دیکھتے جل کر کوئلہ بن گئے پھر ابو حذافہ ؓ کی طرف متوجہ
ہو کر کہا :
عیسائیت قبول کر لو ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہوگا۔
لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے تربیت یافتہ صحابی سیدنا عبد اللہ
بن حذافہ رضی اللہ عنہ جن کا یقین ہے کہ
لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ
عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (سورة الحديد: آیت ۲)
’’ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی ( اللہ) کی ہے، وہی زندگی دیتا ہے اور
موت بھی اور وه ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘
وہ اس دنیا کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے عارضی بادشاہ قیصر روم کے ایک دو آدمی
کو زندہ جلا کر مار دینے سے کیا ڈر تے ۔
انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ اُسکی عیسائیت کی دعوت کو ٹھکرا
دیا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان:
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ
وَاخْشَوْنِ ۚ (سورة المائدة: آیت ۳)
" آج کفار تمہارے دین سے نا امید ہو گئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ
سے ڈرتے رہنا "
ثابت کر دکھایا ۔ کفار کو مایوس کیا اور یہ ثابت کیا کہ اللہ کے سوا وہ کسی
سے ڈرنے والے نہیں۔
اور جب قیصر روم حد درجہ مایوس ہوگیا تو چار و ناچار انہیں بھی کھولتے ہوئے
تیل میں پھینکنے کا حکم دیا۔
رومی سپاہی جب ابو حذافہ ؓ کو تیل کے پاس لے گئے تو آپؓ کے آنکھوں سے بے
اختیار آنسو ٹپک پڑے‘ قیصر کے حواریوں نے جب یہ دیکھا تو عرض کی ’’ یہ تو
سچ مچ رو رہا ہے‘‘ انہوں نے گمان کیا کہ شاید اس تکلیف سے گھبرا گیا ہے ۔
قیصر نے کہا : اسے میرے قریب لاؤ اور اس موقعے پہ پھر آپؓ رضی اللہ عنہ کو
عیسائیت کے سامنے سر جھکانے کی دعوت دی‘ آپؓ نے اس بار بھی انکار کر دیا۔
اس نے تعجب سے پوجھا ! ’’ ارے پھر کیوں رو رہے ہو ! ‘‘
تو انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ کر رو رہا ہوں کہ ” کاش میرے پاس ایک
جان کی بجائے میرے جسم کے بالوں کے برابر جانیں ہوتیں اور میں سب کو اس
کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر اللہ کی راہ میں قربان کر دیتا ۔ “
یہ سن کر قیصرِ روم ان کی بہادری اور جرأت مندی پر بہت حیران ہوا اور کہنے
لگا اگر تم میرے سر کا بوسہ لے لو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔
ابو حذافہ ؓ نے پوچھا : کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو بھی رہا کر
دوگے؟
اسنے کہا : ’’ ہاں! میں تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر دوں گا۔
تو آپ رضی اللہ عنہ اس کے قریب آئے اور اس کے سر کا بوسہ لیا۔
قیصر روم نے حسب وعدہ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو تمام مسلمان
قیدیوں کے ساتھ رہا کر دیا۔
جب یہ لشکر واپس مدینہ پہنچا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کے
بارے میں بتایا گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے
لگے :
حق علی کل مسلم ان یقبل رأس عبد اللہ بن حذافہ و أنا أبدأ بہ
’’ ہر مسلمان پر یہ ضروری ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ كے سر
کا بوسہ لے اور میں اس کی ابتداء کرتا ہوں۔‘‘
پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ان کے سر کا بوسہ لیا۔
**** ** ****** ******
اب اس تصور کے دنیا سے باہر آئیے ۔ آج کے مسلمانوں کے حالات پہ نظر
دوڈائیے۔
مسلمان کیا حکمراں ہو کیا رعایا ۔۔۔ آج ہر میں کفار کا خوف ہی خوف ہے ۔ آج
مسلمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ ہر کسی سے ڈرتا ہے۔
حالانکہ آج کے سپر پاور کہلانے ملک کے سربراہ (بش‘ اوباما وغیرہ ) قیصر روم
کے مقابلے میں کویٴ طاقت ہی نہیں رکھتے، وہ کسی شخص کو منٹوں میں کھولتے
ہوےٴ تیل میں ڈال کر کوئیلہ نہیں بنا سکتے۔ لیکن اس کے با وجود اُن (بش‘
اوباما وغیرہ ) کا ایک فون کال آتے ہی مسلمان ملکوں کے سربراہ اپنے آپ کو
موت کی وادی میں گم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔
دنیا کی بہترین قدرتی وسائل سے مالا مال‘ اہم زمینی‘ فضائی اور بحری دفائی
نقطۂ نظر سے مزین‘ دولت و ثروت میں ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے ہونے کے
باوجود پچاس سے زیادہ مسلم اکثریتی (اسلامی ) ممالک کے خوف کا یہ عالم ہے
کہ امریکہ کے مظالم پر زبان کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔
دنیا کی محبت اور موت کے خوف میں ہمارا یہ حال ہوگیا ہے کہ کافر کی موت سے
بھی ہمارے دل لرز جاتے ہیں لیکن ہمارے اپنے چاہے کتنے ہی مار دیئے جائیں
ہمارے کان پہ جوں تک نہیں رینگتے۔
اُمت مسلمہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کو بھلا کر دنیا کی چکاچوند میں کھو گئی
ہے ۔ اپنے نصب العین سے ہٹ کر یہ اُمت مردہ ہو چکی ہے اور جس طرح گدھ مردار
پر ٹوٹتے ہیں‘ آج سارے کفار اس پر اسی طرح ٹوٹ پڑیں ہیں۔ اور کیوں نا ٹوٹ
پڑیں کہ ان کے دلوں میں ’’ وھن ‘‘ ہو گیا ہے۔
اور ’’ وھن ‘‘ کیا ہے ۔ آئیے اس حدیث میں دیکھتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں
تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کھانے پہ ٹوٹ
پڑتے ہیں ۔‘‘
کسی نے عرض کیا: ’’ اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے،
لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری
ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔‘‘
کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول: ’’ وہن کیا ہے؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔‘‘ .
(رواه أبو داود ۴۲۹۷)
کیا ہم اس حدیث کو سن کر بس خاموش ہو جائیں ‘ چپ سادھ لیں یا اس ’’ وھن ‘‘
کی بیماری سے امت مسلمہ کو نجات دلانے کی فکر کریں۔ ہمارے نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم نے تو ہمیں ہمارے رب کا پیغام بھی دیا ہے:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُ وا مَا
بِأَنفُسِهِمْ (سورة الرعد: آیت ۱۱)
’’ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔
“
تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق اس ’’ وھن ‘‘ کے مرض میں
مبتلا اُمت مسلمہ کی نجات کے لئے کیا ہم کچھ کر رہے ہیں اور اگر نہیں کر
رہے ہیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وعید بھی سن لیں:
وَ إِذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا
لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ (سورة الرعد: آیت ۱۱)
’’ اور جب اللہ کسی قوم کی سزا کا اراده کر لیتا ہے تو وه بدﻻ نہیں کرتا ‘
نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدد گار ہو سکتا ہے ۔ ‘‘
تو آئیے بہت دیر ہونے سے پہلے ، قرآن و احادیث کی تعلیمات پہ عمل کرکے قرآن
کا کردار بنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم چلتے پھرتے قرآن تھے اور آپ صلی
اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو قرآن کا کردار بنا
دیا تھا ۔ جب مومن قرآن کا کردار بن جاتا ہے تو اس میں اتنی قوت پیدا ہو
جاتی ہے کہ وہ پاوٴں میں جوتے اور تن پہ پورے کپڑے کے بغیر بھی دنیا میں
سپر پاور کہلانے والے ملک کے سربراہ / حکمراں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
بات کر سکتا ہے‘ اسے اللہ کے سوا کویٴ ڈرا نہیں سکتا جیسا کہ ہم اوپر دیکھ
چکے ہیں۔
تو آئیے ہم بھی قرآن کا کردار بنیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں
کو اپنائیں اور صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پہ چلیں ۔۔۔ تاکہ ہمارے دلوں سے ’’
وھن ‘‘ (حُبُّ الدُنيا وكراهيةُ الموت) دور ہو۔
ہم توحید باری تعالیٰ کو سمجھیں‘ سیکھیں اور اپنائیں تاکہ ہمارے قلوب صرف
اللہ کی وحدانیت سے معمور ہو‘ اس میں شرک نہ ہو۔
ہم صرف اپنے رب واحد کے احکام کی فرمابرداری کریں تاکہ ہمارے دلوں سے کفار
کا خوف نکلے اور ہمارے اسلاف کی طرح کفار کے دلوں میں بھی ہماری ہیبت طاری
ہو ۔۔۔ ہم بھی اپنے دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں گے ۔۔
پھر اللہ رب العزت بھی اپنے وعدے کے مطابق ہماری حالت بدل دے گا‘ ہماری خوف
وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا
۔۔۔ اور اللہ احکم الحاکمین خود ہی اپنے وعدے کے مطابق ہمیں دنیا کا حاکم و
وارث بنا دے گا۔
جیسا کہ اللہ نے خود ہی وعدہ کیا ہے:
سورة النور ۔ آیت نمبر 55
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن
قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ
وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا
يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ
الْفَاسِقُونَ ﴿٥٥﴾
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ
وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ / حاکم / جانشین بنائے گا
جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ / حاکم / جانشین بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے
اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا
جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وه امن وامان
سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ
ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں
۔ |