ایک بار پھر فصیح پر نشانہ

پولس حراست میں قانون شکنی کا کھیل جاری

ان دنوں مسلسل ہندوستانی جیلوں سے متعلق جو خبریں آر ہی ہیں ، وہ لااینڈ آرڈ قانون کی منافی ہے ۔کبھی پولس اہلکار تمام قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ملزموں کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں تو کبھی اقبال جرم کرواکے واہ واہی لوٹنے کے مدنظر ٹارچر کی تمام حدیں پھلانگ دیتے ہیں ، حد درجہ افسو س کی بات تو یہ بھی ہے کہ صرف پولس انتظامیہ ہی نہیں بلکہ ایک ملزم دوسرے ملزم کو نشانہ بنا کر جیل کے انتظامی امور پر سوالیہ نشانہ لگانے سے نہیں چوکتاہے اور اسے کوئی خوف بھی نہیں ہوتا ۔حالیہ دنوں جیل میں ہوئے ننگا ناچ نے ثابت کردیا ہے کہ قانون کی پاسداری کا فریضہ نہ پولس انتظامیہ ادا کررہی ہے اور نہ ہی وزارت داخلہ جیل میں ہونے والی بیہودہ حرکتوں پر سنجیدہ ہے ، اگر کسی بھی سطح پر سنجیدگی کا مظاہر کیا گیا ہوتا تو پے در پے اس یسے دل دہلانے والے واقعات رونمانہیں ہوتے ہیں، فصیح محمود پر ہوئے قاتلانہ حملے بھی یہ ثابت کردیا کہ پولس والوں کے ساتھ جیل میں بند قیدی بھی دوسرے قیدی کو بآسانی نشانہ بناکر فرقہ پرستی کو فروغ دے سکتا ہے ارو پولس حراست میں قانون شکنی کا کھیل جاری ہے ۔

فصیح محمود پر ہونے والاحملہ ہندوستانی تاریخ میں کوئی پہلا حملہ نہیں ہے ، بلکہ متعدد بار ایسے حملہ ہوئے اور پولس کسٹڈی میں نہ جانے کتنی دفعہ ننگاناچ ہو ا ، مگر جیل کے نظام کو مستحکم کرنے کے لئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھا گیا ۔ خود فصیح محمود کے گاؤں باڑھ سمیلا (دربھنگہ)کے مکیں قتیل صدیقی کو بھی 8جون کو پونے جیل میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ،اس دلدوز سانحہ کے مدنظر پولس ذرائع کا کہنا تھا کہ اسی جیل میں قید بدنام زمانہ دوغنڈوں نے گلا ریت کر ان کا قتل کیا ہے ، جن کا نام بھالے اور شرد موہول ہے ۔ انہوں نے قتل کرنے کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ محمد قتیل ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھے ۔ایسا ہی کچھ معاملہ فصیح محمود سے جڑا ہے کہ قیدیوں نے ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی،مگر خوش قسمتی سے وہ بچ گئے ۔

جیل کے باہر اور اندر پولیس جو ننگا ناچ کرنے لگی ہے ، وہ انتہائی قابل مذمت ہے ، ٹارچر کے نام پر کئے جانے والے سلوک کو کسی بھی نظریہ سے حق بہ جانب نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے ، فرقہ پرست عناصر کو شہہ دینے میں پولس تو پیش پیش رہتی ہی ہے ، مگر جیل کی قیدیوں کے ساتھ اس کاجو کردار سامنے آنے لگا ہے ، وہ بھی ملکی آئین کے لئے چیلنج ہے ، کبھی پولس اہلکار درندگی کا ثبوت دیتے ہوئے ننھی کلیوں کے ساتھ منہ کالا کرتے ہیں تو کبھی ٹارچرکے نام پر سبھی انسانی قدروں کو پامال کرکے درندگی کا ثبوت دیتے ہیں ، گذشتہ دنوں لکھیم پور کھیری کی سونم کے واقعہ کے میں انہوں نے جو کردار ادا کیا ، وہ ا ن کی ہوس ناکی کامبینہ ثبوت ہے ، اسی طرح ایٹہ ضلع جیل سے یہ خبر آئی تھی کہ ٹارچر کی تمام حدیں پارکرتے ہوئے انہوں نے ایک قتل کے ملزم کو پٹرول اور ایسیڈ کی سوئی لگائی ، جس کی وجہ سے اسپتا ل میں ملزم کی موت ہوگئی ، حالیہ دنوں پولس حراست میں ا پنی جان گنوانے والے خالد مجاہد کے ساتھ ٹارچر کے نام پر کیا کچھ نہیں روا رکھا گیا ۔

ملک کی دیگر جیلوں سے قطع نظر ایشیا کی سب سے محفوظ سمجھی جانے والی تہاڑ جیل کی جو صورتحال ہے ،و ہ بھی مضحکہ خیز ہے ۔ خالد مجاہد ، یونس ،شکیل اورقتیل صدیقی کی طرح بے شمار ملزمین و مجرمین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ، ایشین فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہندوستانی جیلوں میں ایک پچھلی دہائی میں کوئی 14000ہزار لوگوں کا کام تمام کردیا گیا، جس کا اوسط روزانہ چار موت ہے ۔ 2010کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملکی جیلوں میں 1400قیدی موت کے شکار ہوئے ، 2013جنوری کو کپورتھلا ماڈرن (پنجاب )جیل میں جالندھر کے باشندہ کرم چند کی موت ہوگئی ، پولس کا دعوی تھا کہ اس کو دل کا دوڑہ پڑ ا تھا ، مگرگھر والوں اور وکیل کے دلائل پولس انتظامیہ کے دعووں سے متصادم تھے ، اکتوبر 2012میں پنچاب کی گروداس پور جیل میں راج کمار کی مشتبہ حالت میں موت ہوگئی ، جولائی 2010کو حیدرآباد جیل میں ساتھیوں کی جھڑپ میں 60سالہ قیدی کی موت ہوگئی ، پولس کا ماننا ہے کہ ایک ساتھی نے اس پر قینچی سے حملہ کردیا ، اسی طرح جموں وکشمیر میں بند پاکستانی قیدی ثناء اﷲ کی جھڑپ میں موت ہوئی اور تہاڑ میں قید رام سنگھ اور ریشما نے خود کشی کرلی ، 08جون 2011کو پونے جیل میں قتیل صدیقی کی مشتبہ حالت میں موت ہوئی۔

یہ اموات کچھ ایسے ہیں، جو جیل کے نظم ونسق پرسوالیہ نشان لگاتے ہیں، سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ قیدی آپسی جھڑپ کے وقت دھار دار ہتھیار کہاں سے لے آتے ہیں ؟قینچی کہاں سے آگئی کہ ساتھیوں نے ایک قیدی پر اس سے حملہ کردیا ؟ثناء اﷲ پر جب قیدیوں نے حملہ کیاتھاتو نگرانی کرنے والے کہاں تھے ؟پولس کے مطابق قتیل کو دو’ وطن پرست‘ قیدیوں نے موت کے گھاٹ اتاردئے تھے ، سوال یہ ہوتا ہے کہ ان ’وطن پرستوں ‘کو قتیل سے الگ کیوں نہیں کیا گیا ؟رام سنگھ اور ریشمانے خود کشی کی ، آخر خود کشی کرنے کے سامان وہاں کیسے آئے ؟ خودکشی کرتے وقت پولس انتظامیہ نے انہیں کیوں نہیں بچایا ؟ کیا یہ واقعات جیل کے نظم ونسق کو سوالات کے گھیرے میں نہیں لاتے ہیں ؟۔

سال2011میں ہونے والے 1400اموات کے بارے میں ہندوستانی قومی انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ 70فیصد قیدیوں کی موت ٹی بی سے ہوئی ہے ، سوال یہ ہوتا ہے کہ جیل میں یہ مرض اس قدر کیوں فروغ پاتا ہے ؟ کیا صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے ؟اس مرض کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے ، جس کی طرف اسی کمیشن کی ایک رپورٹ اشارہ کرتی ہے ، اس کی جانب 2004-05 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق جن جیلوں میں2لاکھ 37ہزار 917قیدیوں کی گنجائش تھی ، وہاں3لاکھ 36ہزار 151قیدی بھرے تھے ، ظا ہر ہے اس صورتحال میں بے شمار مرض فروغ پائیں گے ، قیدی چاہے بیماری سے مرے ، یا اسے خود کشی کا موقع مل جائے ، جیل انتظامیہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو بچانہیں سکتی ۔

تہاڑ ، ایشیا کا سب سے محفوظ ترین جیل مانا جاتا ہے ، مگر وہاں کا نظم ونسق بھی اب سوالات کے گھیرے میں ہے ، اس کا سالانہ بجٹ تقریباً ڈیڑھ ارب ہے ،اس بجٹ کا 42فیصد حصہ قیدیوں کی حفاظت ، 22فیصد طب ، 12فیصد کھانے پر خرچ ہوتا ہے ، اس سخت نگرانی میں رام سنگھ ، ریشما اور دیگر قیدی کیسے خود کشی کرلیتے ہیں ؟آخر وہاں بھی طبی فقدان کی صورت میں قیدیوں کو پریشانیوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے ۔ایک سروے کے مطابق ہندوستان کی تقریبا ً1393جیلوں میں 3لاکھ 68ہزار قیدی جانوروں کی طرح بھرے ہوئے ہیں ، ہر قیدی پر حکومت اوسطاً سالانہ 19ہزار 446روپے خرچ کرتی ہے ، یعنی ملک بھر کی جیلوں میں بند قیدیوں پر 715کروڑ 61لاکھ 28ہزار روپے سالا نہ خرچ ہوتے ہیں ، اس کے باوجود بھی آئے دن نظم ونسق کا ننگا نا چ ہوتارہتا ہے ، ایک اور رپورٹ کے مطابق 2005-10کے درمیان ہندوستان میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے 29ہزار 166مقدمات درج ہو ئے ہیں ۔

سوال یہ ہوتاہے کہ آخر جس جیل میں جتنے قیدیوں کی گنجائش ہوتی ہے ، وہاں اتنے ہی قیدی کیوں نہیں رکھے جاتے ہیں ؟پولس حراست میں بے شمار موت پولس کی اذیت ناک سزا سے ہوتی ہے ، مگر بدبخت پولس اہلکاروں کے خلاف کارروائی تک نہیں ہوتی ، مثلاًکیرل پولس نے 25سالہ سمپت نامی ملزم کو 2010 میں حراست میں لیا ، جس کی موت کچھ گھنٹوں بعد ہوگئی ، پولس کا دعوی تھا کہ دل کا دوڑہ پڑنے سے اس کی موت ہوئی ، مگر پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ اس کے جسم پر 63زخم /چوٹ کے نشانات تھے ۔بھلااس کے باجود بھی ایسے پولس اہلکاروں کو اپنے عہدہ پر قائم رہنے کا حق ہے ؟۔ ایشین ہیومن رائٹر س ادارہ کے مطابق 99فیصد قیدیوں کی موت حراست میں لئے جانے کے 48گھنٹے کے بعد ہی ہوجاتی ہے ، کیوں کہ ٹارچر میں رونگٹے کھڑے دینے والے سلوک کئے جاتے ہیں ۔

یہ بات بھی اپنے آپ میں توجہ طلب ہے کہ عدالت اور جیل کا مقصد ا من کی فضا قائم کرنا ہے ، انصاف پسندی کو فروغ دینا ہے ،مگر جتنے واقعات سامنے آرہے ہیں ، ان سے تو انصاف پسندی کا قتل ہوتاجارہے ، قتیل صدیقی بھی پر جتنے الزامات لگائے گئے تھے ، ان میں سے بیشترالزاما ت میں وہ بری ثابت ہورہے تھے ، اس لئے شاید پولس والوں نے ان کو ٹھکانے لگا دیا ، نمیش کمیشن کی روشنی میں خالد مجاہد قاسمی کا چہرہ بھی صاف نظر آنے لگا تھا ، مگر پولس والوں نے ان کا بھی کام تما م کردیا ہے ، اسی طرح21مئی کو ان کے وکیل پر حملہ کردیا گیا ، ان تمام باتوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ جیل اور عدالت سے جو مقصود ہے ، وہ پورا نہیں ہورہا ہے ۔فصیح محمود پر ہوئے حملہ کو بھی منصوبہ بند کہا جاسکتا ہے ،کیوں کہ جب پولس والے کو کسی کا معاملہ صاف ہوتا نظر آتا ہے تو وہ ایسی حرکت کروانے کی ٹھان لیتے ہیں ۔ فصیح محمود کے معاملہ میں ان کے وکیل محمود پراچہ کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں ،جوکہ جمہوریت کے خلاف اور قانو ن شکنی کے مترادف ہے ۔

راہبر اگر رہزن یامحافظ بدکردار ، قانون شکن اوربدچلن ہوجائے تو ملک کی سالمیت کے لئے بد شگون ہے ۔ انصاف پسندی پر فرقہ پرستی کا قابو پانا ملک کے وجود کے لئے باعث ہلاکت ہے ۔ جیل کے اندر پولس اہلکارتو پولس اہلکار غنڈوں کا جری ہونا بھی امن وسلامتی کے لئے ایک چیلنج ہے ۔ ملکی قانون کو چیلنج ہے ۔ پولس انتظامیہ کی بدکرداری کی دلیل ہے ۔ پولس کا تو عوام سے گہرا رشتہ ہوتا ہے ۔ پولس کی ذمہ ہوتی ہے کہ وہ لااینڈ آرڈ کی بحالی اور حق وانصاف کے بول بالا کو یقینی بنائے ، اسی طرح آئین واصول کے تحت اپنی مفوضہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہوں ، تاہم جب ان کے دلوں سے آئینی رشتہ کی وقعت جاتی رہے تو وہ شتر بے مہار ہوجاتی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ان کے اندر عوامی ہمدردی اورقانون کی بالا دستی کی جگہ سنگدلی ، قساوت قلبی اوربے مروتی اپنے قدم جما لیتی ہے ، جس کے بے شمار منفی نتائج سامنے آتے ، ملک کی شرمساری ہوتی ہے ، قانون کی دھجیاں اڑتی ہیں ۔ ان دنوں فرقہ پرستی کے کھیل میں فرقہ پرست عناصر کے ساتھ ساتھ پولس اہلکار بھی گھناؤنا کردار ادا کررہے ہیں ۔ سماج دشمن افراد کو شہہ دینے میں پولس کا کردار معین ومددگار کا ہوتا ہے ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ قانونی دباؤنہ ہونے کی وجہ سے آئے دن پولس کی بدکرداری اورجانبداری میں اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔ پولس کی غیر قانونی اورجانبدارانہ رویے کے جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کو جتنا نقصان سماج دشمن عنا صرسے ہورہا ہے ، اس سے کہیں زیادہ پولس انتظامیہ کے اعما ل سے بھی ۔

پولس اہلکار جہاں حراست میں قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں وہیں حراست کے باہر بھی ان کا قدم غیر ذمہدارا نہ ہی نظر آتاہے ۔

ایک سروے کے مطابق 2005-10کے دوران تحقیقاتی کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی ہے ، اس کے مطابق درج 29ہزار 166مقدمات میں 18ہزار 990مقدمات صرف یوپی پولس کے خلاف درج ہیں ۔ 1841مقدمات کے ساتھ دوسرے نمبر پردہلی ہے ۔ تیسرے نمبر پر ہریانہ پولس ہے ، جس پر 1289کیس ہے ۔ چوتھے نمبر پر راجستھان کی پولس ہے ، جس کے خلاف 951، پانچویں نمبر پر بہارپولس ، جس کے خلاف 928، چھٹے نمبر پر مدھیہ پردیش پولس ہے ، جس کے خلاف 652اور ساتویں نمبر اتراکھنڈ پولس ، جس کے خلاف 590مقدما ت درج ہیں ۔ انڈومان نکوبار میں 2اور دادرنگر حویلی میں 3،دمن اینڈ دیومیں 5اورمیزروم میں 6معاملات پولس کے خلاف درج ہیں ، جبکہ سکم اور لکشدیپ ایسی دو ریاست ہیں ، جہاں کی پو لس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہے ۔

غورکرنے کی بات ہے کہ یہ سنگین رپورٹ اس صورت کی ہے ، جب پولس کے خلاف بیشتر معاملوں میں ایف آئی آر درج نہیں ہوپاتی ہے ، یہ واقعات تو ایسے ہیں جو منظر عام پر آگئے ، ورنہ جانے کتنے معاملات ایسے ہوتے ہیں جس کی پردہ پوشی ہوجاتی ہے ، کبھی سیاست داں کی بھی ملی بھگت ہوتی ہے ۔ ایسے حالا ت میں جب تک قانون کی بالادستی کی ڈور سخت نہیں ہوگی تو اس وقت تک افسران سے عام پولس اہلکار تک بے راہ ہوں گے اور جرائم کا ارتکاب روز بروز ہوتا ہی رہے گا ۔ جب تک پولس کے خلاف کارروائی میں یہ بات مانع رہے گی کہ ان پر کارروائی کرنے سے دل شکنی ہوگی ، اس وقت تک وہ ننگا ناچ کرتے رہیں گے۔ ایک یہ سوال بھی گہراتا جارہا ہے کہ قتیل صدیقی کے بعد خالد مجاہد قاسمی کو جیل میں ابدی نیندسلادیا گیا ، اس کے بعد فصیح محمود کو بھی نشانہ پر لے لیا گیا تو ا ن معموں کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جارہی ہے ؟ کیوں خاطیوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جارہا ہے ؟ ہمیشہ ایسا معاملہ معمہ بن جاتا ہے ، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ’ اگر ہوجائے کسی کے گھر میں کسی کا’ قتل‘․․․․․توکیا ہوگا؟یہی نا ․․․! جس طرح آروشی قتل معاملہ میں اس کے والدین کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے ، اسی طرح گھر والے کی زندگی اجڑ جائے گی ، مگرسوال یہ ہوتا کہ 10برسوں میں14000ہزار قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتاردینے والے پولس اہلکاروں کے ساتھ کیا ہوا ؟ ان کی بھی زندگی اجیرن ہوئی ؟ کیاانہیں بھی کبھی ناحق قتل کرنے کی سزا ملی یا ملے گی ؟ عام طور سے یہی دیکھا گیا ہے کہ ناحق قتل کرنے والے پولس کو انعام سے بھی نواز گیا ہے ، گویا ؂ وہی قتل کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100774 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More