اسلحے کی دوڑ کہاں تک

دنیا کے کئی ممالک اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ خریدتے ہیں ان ممالک میں اکثریت ایشیائی ممالک کی ہے اورجنوبی ایشیاء کی اگر بات کی جائے تو یہاں بھارت وہ واحد ملک ہے جو اسلحے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے یہاں یہ امر بھی واضح کرتا چلوں کہ اسلحے کی دوڑ سے مراد اسلحے کی پیدوار نہیں بلکہ اسلحے کی خرید ہے اس کے لئے بھارت کئی ملین ڈالر ہر سال خرچ کرتا ہے اس بات سے قطع نظر کے اس کے عوام کا کیا حال ہے جہاں تین چوتھائی لوگ غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں جہاں کئی ملین افراد کو بنیادی سہولیات زندگی میسر نہیں جہاں لوگوں کو دو وقت کا کھانا دستیاب نہیں اس کے باوجود بھارت کا کئی بلین کا اسلحہ خریدنا اس کے ان عزائم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ایشیاء کا چوہدری بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے اپنے لئے آگ و بارود کا ڈھیر لگا رہا ہے اس آگ و بارود کے ڈھیر میں وہ اپنے عوام کو مکمل طور پر نظر اندا ز کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے غریب طبقے میں یہ سوچ پروان چڑ ھ رہی ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں کہ اس کی پہلی ترجیح عوام نہیں بلکہ کچھ اور ہے ۔اس کو ایشیاء کا چوہدری بنانے میں وہ ممالک سرگرم ہیں جن کااسلحہ بھارت دھڑا دھڑ خرید رہا ہے ان ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے جو بھارت کو اسلحہ فروخت کر کے کھربوں ڈالر کما رہا ہے اور ساتھ میں بھارت کو تھپکی بھی لگا رہا ہے کہ وہ ایشیاء کی بڑی طاقت بن سکتا ہے اور اس کے مقابلے میں چین اور دیگر طاقت ور ملکوں کی کوئی بڑی احیثیت نہیں ہے اسی خوش فہمی میں مبتلا بھارت اپنے عوام کا استحصال کرتا نظر آتا ہے جس کا انکشاف سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ سے ہوتا ہے بھارت کاجنگی جنون کم نہ ہوسکا اور اسلحے کے خریداروں میں سب پر بازی لے گیاچین جو کہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے پر بھی بھارت نے اسلحہ اکٹھاکرنے میں سبقت حاصل کرلی، چین دوسرے اور پاکستان تیسرے نمبر پرہے جبکہ امریکہ اسلحے کاسب سے بڑا فروخت کنندہ ہے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کی درآمد میں بھارت پہلے نمبر پر آ گیا ہے جبکہ اس کی درآمدات دوسرے اور تیسرے نمبر کے ممالک یعنی چین اور پاکستان سے تین گنا زیادہ ہیں رپورٹ کے مطابق 08-2004 کے درمیان بھارت دوسرے نمبر پر تھا جبکہ پہلے نمبر پر چین تھاتاہم 13-2009 کے درمیان بھارت ہتھیاروں کی درآمد میں پہلے نمبر پرآ گیا ہے،اس عرصے میں خریدے گئے ہتھیاروں کی تعداد میں 14 فیصد حصہ بھارت کا ہے جبکہ دوسرے اور تیسرے کے ممالک چین اور پاکستان کا 5,5 فیصد حصہ ہے۔ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 13-2009 کے دوران بھارت نے 75 فیصد ہتھیار روس،7 فیصد امریکہ اور 6 فیصد ہتھیار اسرائیل سے خریدے ہیں دوسری جانب چین جو 08-2004 کے دوران ہتھیاروں کی درآمدات میں پہلے نمبر تھا 13-2009 ء کے دوران دوسرے نمبر رہا ہے۔ہتھیاروں کی خرید میں 08-2004 میں پاکستان کا حصہ محض 2 فیصد تھا جو 13-2009 میں بڑھ کر 5 فیصد ہو گیا ہے اور اسی کے ساتھ پاکستان سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 08-2004 اور 13-2009 کے درمیان بھارت کی جانب سے ہتھیاروں کی درآمد میں 111 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی عرصے کے دوران پاکستان کی جانب سے ہتھیاروں کی درآمد میں 119 فیصد اضافہ ہوا ہے۔پاکستان نے 54 فیصد ہتھیار چین سے، 27 فیصد ہتھیار امریکہ اور 6 فیصد ہتھیار سویڈن سے خریدے۔رپورٹ کے مطابق 13-2009 کے دوران پاکستان اور بھارت دونوں نے فضائی کارروائی کو بہتر بنانے پر سرمایہ لگایا۔بھارت نے روس سے 222 میں سے سخوئی لڑاکا طیارے ،ایئر کرافٹ کیریئر خریدے بھارت نے اس دوران 144 روسی T50 اور 126 فرانسیسی رافیل جنگی طیارے بھی منتخب کیے ۔دوسری جانب پاکستان نے چین سے 42 JF17 لڑاکا طیارے حاصل کیے اور 100 مزید کا آرڈر دیا ہے اور مذید طیارے پاکستان میں ہی تیار ہو رہے ہیں پاکستان کو 18 F16C طیارے ملے ہیں جبکہ اس نے اردن سے 13 استعمال شدہ F16C خریدنے کا آرڈر دیا ہے،ہتھیاروں کی فروحت میں29فیصدکے ساتھ امریکہ اس بار بھی پہلے نمبر پر جبکہ روس دوسرے نمبر پر رہا ہے۔ان تمام اعداد وشمار کا اگر جائزہ لیا جائے تو کئی ٹریلین ڈالرز اس آگ و بارود کی خرید وفروخت کے لئے استعمال ہو رہے ہیں اگر ان کا استعمال ایشیاء سے غربت بے روزگاری کے خاتمے اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خرچ کیا جائے تو یقینا ایشیائی ممالک کی عوام امریکہ اور یورپین عوام سے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں مگر ضرورت صرف وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنے سے ہی ممکن ہے لیکن وہ ممالک جو دنیا میں اسلحے کے بڑے بیو پاری ہیں وہ کھبی نہیں چاہیں گے کہ یہ ممالک اسلحے کی خریداری کے بجائے وسائل کو عوامی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کریں کیونکہ اس سے ان کو سالانہ کئی ٹریلین ڈالر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے ان کے ہاں روز گار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اسلحے کی صنعت کی وجہ سے کئی ممالک کے اندورنی معاملات براہ راست ان ممالک کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور ان ممالک کی نظر میں اپنے مفادات کے سامنے کوئی ملک کوئی خطہ کوئی قوم اہمیت نہیں رکھتی۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227046 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More