بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اگر برصغیر کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو یہاں کے دور اندیش،اہل بصیرت
اکابر کے بعض تجدیدی کارنامے ایسے نظر آتے ہیں جن پر انسان عش عش کر
اٹھتاہے ۔حضرت مجدد الف ثانی کی طرف سے دین مبین کے چشمہ صافی کو اکبری
آلائشوں سے پاک کرنے کی کوششیں ہو ں یا حضرت شاہ ولی ؒاﷲ کے خانوادے کی
علمی ودینی خدمات ،حضرت سید احمد شہید کی تحریک جہاد وحریت ہو یا دارالعلوم
دیوبند کا قیام ،مولانا الیاس ؒ کاد عوت دین کا درد ہو یا وفاق المدارس
العربیہ کا قیام ……یہ چند ایسے جگمگ جگمگ کرتے ستارے ہیں جنہیں اس خطے کی
کہکشاں قرار دیا جا سکتا ہے ۔ایسی کہکشان کہ آج صرف برصغیر میں ہی نہیں
دنیا کے جس کونے میں چلے جائیں اس کہکشاں کے تاروں کی چمک دمک نگاہوں کو
خیرہ کیے دیتی ہے ……بطور خاص وفا ق المدار س العربیہ پاکستان کا قیام ہمارے
اکابر کا ایک ایسا الہامی اور تجدیدی کارنامہ ہے جس کی پوری دنیا میں کوئی
مثال نہیں ملتی۔ اس ادارے کو بلاشبہ عالم اسلام کے ماتھے کا جھومر قرار دیا
جا سکتا ہے …… انسانوں کا اپنے رب سے ٹوٹا رشتہ جوڑنے کی محنت ہو یا اجڑے
سینوں میں عشق رسالت کی شمعیں روشن کر نے کی کوشش ، دینِ اسلام کی نشر
واشاعت ہو یاآسمانی علوم کی تعلیم وتدریس ،لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں
انقلاب برپا کر دینے والی محنت ہو یا اسلامی تہذیب وتمدن کی رکھوالی،دینی
اقدار کی پاسبانی ہو یا عوام الناس کو دینی خدمات کی بلاتعطل فراہمی ……ان
تمام مبارک سلسلوں کے پیچھے مدرسہ ہے اور مدرسہ کو منظم ،محفوظ ،مربوط
بنانے کے پیچھے وفاق المدارس العربیہ پاکستان ہی نظر آتا ہے ۔یوں تو ہمیشہ
ہی اﷲ رب العزت کی اس نعمت کی اہمیت وافادیت کا احساس وادراک رہتا ہے لیکن
گاہے یہ احساس دل کی دنیا کو باغ وبہا ر کر دیتا ہے ۔ ان دنوں جب موسم بہار
کی آمد آمد ہے عین اس موقع پر وفاق المدارس کے زیر اہتمام ملک گیر اجتماعات
کا سلسلہ بھی بہت سی ترسی ہو ئی نگاہوں کے لیے ،درد دل رکھنے والوں کے
لیے،سرد آہیں بھرنے ،اند ر ہی اندر کڑھنے والوں کے دلوں کی تسکین کا سامان
ثابت ہو رہا ہے ۔جس وقت یہ سطور قلمبند کی جارہی ہیں اس وقت ملتان ، کراچی
اور کوئٹہ کے تین اجتماعات انعقاد پذیر ہو چکے جبکہ مزید چار اجتماعات کے
انعقاد کا سلسلہ 21اپریل کے اسلام آباد اجتماع تک جاری رہے گا ۔انشا اﷲ
ان اجتماعات کے حوالے سے سب سے سے اہم بات یہ ہے کہ الحمد ﷲ یہ اجتماعات
صحیح معنوں میں اجتماعیت کا مظہر ہیں ۔مسلک ِحق اہلسنت والجماعت علماء
دیوبند سے وابستگی اور نسبت وتعلق رکھنے والی ہر اہم جماعت اور شخصیت ،تمام
ادارے اورا فراد اﷲ رب العزت کے فضل وکرم سے وفاق المدارس کی چھتری تلے جمع
ہوئے ،وفاق المدارس کے ان اجتماعات کے اسٹیج ہو ں یا پنڈال محبت واخوت اور
اتحاد ویکجہتی کے جو نظر نواز مناظر دیکھنے کو ملے ان پر ہر کوئی رشک کر
رہا ہے ۔ ان مناظر نے ہر آنکھ اور ہر دل کو ٹھنڈا کیا ۔ قوم ،کارکنا ن اور
جواں سال علماء وطلباء اہل حق کے جن جن گلوں کو ایک گلدستہ میں دیکھنے کے
لیے ترستے ہیں الحمد ﷲ وفاق المدارس نے ان اجتماعات کی شکل میں ان تمام
گلوں کی مالا پرو کر اہل حق کے گلے کا ہار بنا دی…… اﷲ رب العزت کے فضل
وکرم سے وفاق المدارس وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں سب ہی سستانے کو رکتے ہیں
،جہاں سب شیر وشکر ہو جاتے ہیں ،جہاں سب یک جان ہو جاتے ہیں…… نامی گرامی
شخصیات ،مختلف مزاج ،مختلف شعبوں کے وابستگان ،مختلف مزاجو ں کے حامل لوگ
وفا ق المدارس کے پلیٹ فارم پر ہی جمع ہو سکتے ہیں اﷲ رب العزت سے دعا کرنی
چاہیے کہ اﷲ رب العزت اس ادارے کو اپنی حفظ وامان میں رکھیں اور ہرفتنہ وشر
اور نظر بد سے محفوظ رکھیں ۔آمین
ان اجتماعات کی کامیابی کے لیے جس انداز سے محنت کی گئی وہ ہماری اجلی
تاریخ کا ایک تابناک باب ہے ۔اکابر اور مشائخ کی دعاؤں اور فکر مندی کے
نتیجے میں ہی اس قسم کے اجتماعات کے انعقاد کی کرامات کا ظہور ممکن ہو پاتا
ہے ……شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان جو اس وقت اہل حق کے جگمگ کرتے ستاروں
کے جھرمٹ میں چودھویں کے چاند کی مانند ہیں ……ان کی شخصیت اور وجود ہی اﷲ
کی رحمت اور خیر وبرکات کا باعث ہے ……حضر ت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر
اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی ایسے اکابر کے نورانی چہرے
دیکھ کر ایمان کو جلا ملتی ہے……شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی
عثمانی کی شخصیت اور خدمات کو دیکھ کر سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ……دارلعلوم
کراچی اور کراچی میں منعقدہ اجتماع مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع
عثمانی جیسی ہستی کے حسن ِانتظام اور حسنِ ذوق کا مظہر ہے ……ایسا نظم وضبط
،ایسی سلیقہ مندی ،ایسی نفاست اور اہتمام ایسا کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے ……اکابر
کے سائے میں وفاق المدارس کے باصلاحیت ،متحرک ،نگاہ بلند ،سخن دل نواز اور
جان پرسوز رہنما مولانا محمد حنیف جالندھری ان اجتماعات کے روح رواں ہیں ……مولانا
جالندھری کی محنت ،شبانہ روز جدوجہد ،ہمہ جہت شخصیت کو دیکھ کر انسا ن کا
مورال بلند ہو جاتا ہے …… مولانا جالندھری کے علاوہ اکوڑہ خٹک کے درویش منش
مولانا انوارالحق ہوں یا لاہور کے مولانا فضل الرحیم کی خوش اخلاق اور
ملنسار شخصیت ،دارالعلوم کبیروالا کے مولانا ارشاد ہوں یا بلوچستان کے
مولانا قاری مہر اﷲ ،پشاور کے مولاناحسین احمد ہوں یا مولانا مفی کفایت اﷲ
، سندھ کے ڈاکٹر سیف الرحمن ہوں یاجامعہ بنوریہ کے مفتی محمد نعیم ،کشمیر
کے مولاناسعید یوسف ہوں یامولانا محمود الحسن اشرف وفاق المدارس کے گلدستے
کے ہر پھول کا اپنا رنگ اور اپنی خوش بو ہے اور ان اجتماعات کے انعقاد کے
لیے ان میں سے ہر ایک نے دامے درمے سخنے قدمے محنت اور کوشش کی ۔
چونکہ راقم الحروف کراچی اور کوئٹہ کے اجتماعات میں شرکت سے محروم رہا اس
لیے کراچی اجتماع کے انعقاد ،اس کے لیے ہونے والی محنت اور اس کے پس منظر
اور اس کے لیے محنت کرنے والے کارکنان اور شخصیات کے تذکرے میں شاید انصاف
نہ ہوپائے البتہ ملتان اجتماع کی تیاریوں ،انتظامات ،فکرمندی ،بھاگ دوڑ اور
پھر اجتماع کے انعقاد کے جو مناظر دیکھے ان سے اندازہ ہوا کہ وں تووفاق
المدارس کے اس اجتماع کے لیے ہر ضلع کے مسؤو ل نے خوب محنت کی ،ہر مدرسہ کے
مہتمم نے اپنا حصہ ڈالا ،ہر طالبعلم نے فکر کی ،ہر درد دل رکھنے والا احساس
کی لو سے جلتا رہا لیکن بطور خاص وفاق المدارس کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا
قاضی عبدالرشید اور اجتماع کے کنوینئر مولانا زبیر احمد صدیقی نے جو محنت
کی ،جس طرح خود کو کھپایا ،جس طرح قریہ قریہ اور بستی بستی جا کر اکابر کا
پیغام پہنچایا ،اجتماعات کی کامیابی کی اس محنت کو دیکھ کرحیرت ہوتی ہے کہ
اخلاص وﷲیت کی نعمت کے بغیر یہ سب کسی انسان کے بس کا کام نہیں ……
’’تحفظ مدارس دینیہ اور اسلام کا پیغام امن ‘‘کے عنوان سے منعقد ہونے والے
اس اجتماع میں نامی گرامی خطباء ،ارباب علم ودانش ،مشائخ عظام اور
نامورشخصیات نے کمال خلوص وایثار سے کام لیا یوں تو اجتماع کے منتظمین نے
ہر اہم شخصیات کو وقت دیالیکن اس کے باوجود بے شمار ایسی ہستیاں تھیں جو
صرف شرکت اور اکابر کے ارشادات سننے کے لیے تشریف لائی تھیں …… اجتماع کے
دوران نوجوانوں اور کارکنان نے جس نظم وضبط اور صبر وتحمل کا مظاہر ہ کیا
وہ بھی آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔اجتماع کے بارے میں یہ طے پایا تھا کہ
اسٹیج کے علاوہ پنڈال سے کسی قسم کا نعرہ نہیں لگایا جائے گا ،کسی جماعت کا
پرچم بلند نہیں کیا جائے گا چنانچہ کسی جگہ بھی کو ئی بدنظمی دکھائی نہیں
دی ،نوجوانوں نے اپنے مزاج کے برعکس اپنے اکابر کی ہدایات پر عمل کر کے
دکھا دیا کہ وہ ہر وقت اور ہر معاملے میں اپنے اکابر کے ہر حکم پر سرتسلیم
خم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
ملتان اجتماع کے لیے تیاریوں کا آغاز بہت پہلے سے ہو چکا تھا لیکن اس کے
باوجود اس درجے کے اجتماعات کے لیے تیاری کا جتنا وقت اور وسائل درکار ہوتے
ہیں وہ میسر نہیں تھے …… مولانا محمد حنیف جالندھری نے اپنے مخصوص انداز سے
ایمر جنسی نافذ کررکھی تھی ، ملتان انتظامیہ سے رابطے اور معاملات ، خواص
سے ملاقاتیں ، مہمانوں کی شرکت یقینی بنانے کی کوششیں …… مولانا جالندھری
نے ایک ایک دن میں کئی کئی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، اس سلسلے
میں وہ اسلام آباد تشریف لائے ،کئی روز قیام کیا، لاہور گئے وہاں ڈیرے ڈالے
رکھے ، ملتان اور جنوبی پنجابی کی کسی شخصیت کو نہیں چھوڑا جس کو دعوت نہ
دی ہو ۔ اسی طرح دوسری طرف مولانا قاضی عبدالرشید اپنے دیرینہ رفقاء مولانا
ظہور احمد علوی ، مولانا نذیر فاروقی اور دیگر کے ہمراہ شمالی پنجاب اور
مولانا زبیر احمد صدیقی اپنے رفقاء کے ہمراہ جنوبی پنجاب کے ایک ایک ضلع
میں گئے ، ایک ایک مدرسہ کے مہتمم سے ملاقاتیں کیں اور پھر اجتماع کی شکل
میں ایک جہان رنگ وبو آباد ہوگیا ……دفتر کا مورچہ مولانا عبدالمجید جیسے
منتظم مزاج شخص نے سنبھال رکھا تھا ،جامعہ خیر المدارس میں مولانا نجم الحق
اور ان کے رفقاء نے دن رات ایک کر رکھا تھا …… ان حضرات کو بیک وقت اجتماع
کے لے جگہ اور وسائل کا بندوبست بھی کرنا تھا ، خواص سے رابطوں کا اہتمام
بھی کرناتھا ، عوام کی شرکت بھی یقینی بنانی تھی ، میڈیا میں جگہ بھی پانی
تھی ،آنے والے مہمانوں کے قیام وطعام کی فکر بھی تھی سو سب اپنے اپنے کاموں
میں جتے رہے اور یوں اجتماع کا کامیابی سے انعقاد ممکن ہو پایا……
وفاق المدارس کے دفتر کے جملہ رفقاء جن میں بطور خاص ناظم وفاق المدارس
مولاناعبد المجید ، چوہدری ریاض اور جملہ کارکنان شامل ہیں ان حضرات کی
خندہ پیشانی ، اطمینان اور ذہنی وقلبی سکون کو دیکھ کر رشک آتا تھا اور
انسان تصور بھی نہیں کر سکتاتھا کہ یہ اتنے پر سکون لوگ اتنی بھاری ذ مہ
داریوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں ۔ مجلس عاملہ کے حضرات بھی تشریف لا کر اپنے
اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے تھے ۔ مولانا سعید یوسف عرب مہمانوں سے کو
آرڈینینشن، مولانا محمود الحسن اشرف تحریری کاموں ، مولانا مفتی کفایت اﷲ
سیاسی شخصیات ، مولانا عبید اﷲ خالد حضرت صدر وفاق کی نمائندگی کا حق ادا
رکر رہے تھے ۔
ہم اجتما ع پر جاتے ہوئے شیخ الحدیث مولانا محمد نواز کے جامعہ قادریہ
حنفیہ میں ر کے، مولانا کی فکر مندی دیدنی تھی …… وہ اور ان کے ادارے کے
اساتذہ اور ان کے دیگر رفقاء جس انداز سے اجتماع کی کامیابی کی محنت کررہے
تھے اسے دیکھ کر حیرت ہوئی ……مولانا نے اپنے متعلقین سے گاڑیاں حاصل کرکے
اجتماع کے لیے وقف کیں …… اپنی جان پہچان والوں کو تشہیر ی مہم میں حصہ
لینے پر آمادہ کیا …… مالی تعاون اور مدرسہ میں دعاؤں کا اہتمام کیا ……
اساتذہ کرام کو اجتماع کی تیاریوں کے لیے وقف کیا …… طلباء کرام کی مختلف
جماعتیں بنا کر انہیں مختلف امور پر مامور فرمایا…… یہ صرف ایک مدرسہ کا
معاملہ نہیں بلکہ ہر مدرسہ گویا وفاق کا دفتر بن گیا تھا ، وفاق سے وابستہ
ہر مدرسہ کے اساتذہ وطلبہ وفاق کے کارکن ہوگئے تھے اور یوں یہ کرامت ظہور
پذیر ہوئی ۔
اجتماع گاہ کے معاملے میں دو تین دفعہ حالات وواقعات کی وجہ سے رائے بدلی
…… پہلے جامعہ خیر المدارس میں مختصر سی تقریب کا پروگرام تھا پھر قومی
سلامتی پالیسی کامسودی سامنے آنے پر اسے وسعت دینے کا فیصلہ ہوا اور یہ
تقریب کلمہ چوک پر واقع ا سٹیڈیم شفٹ کردی گئی پھروہاں سے قلعہ کہنہ قاسم
باغ کے اسٹیڈیم میں منتقل کرنا پڑی…… قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم ایک ایسا
گراؤنڈ ہے جہاں پر کوئی کانفرنس کروانے کی ہمت نہیں کرپاتا اتنا بڑا گراؤنڈ
بھرنا اور اس کا اہتمام کرنا کہ ’’شو آ ف پاور ‘‘ کے بجائے کہیں ’’ اوقات
اور تعداد‘‘ کا بھرم ہی نہ کھل جائے ایک تشویشناک معاملہ ہوتاہے لیکن وفاق
المدارس کے قائدین نے اس چیلنج کو قبول کیا اور پھر جلسے والے دن و ہ
اسٹیڈیم بلا مبالغہ کھچا کچ بھر ا ہوا تھا۔ اسٹیڈیم میں جا کر حسن انتظام
اور حسن ترتیب کو داد دئیے بغیر نہیں رہا جا سکتا تھا ……اسٹیج اتنا وسیع کہ
کسی کو اسٹیج پر جگہ نہ ملنے کا گلہ نہیں رہا…… پنڈال کو ایسے انداز سے
تقسیم کیا گیا تھا کہ انزلوا الناس منازلھم کی تصویر دکھائی دے رہا تھا۔
مدارس کے مہتممین ، شیوخ الحدیث اور دور سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں کے
اکرام کا بھی پورا پورا سامان تھا اور حسن انتظام میں کوئی کسر بھی نہیں
رہنے دی گئی تھی …… پنڈال کو حفظِ مراتب کے لحاظ سے مختلف حصوں میں تقسیم
کیا گیا تھا ، کہیں کرسیوں کے رنگوں کے ذریعے ، کہیں راستوں اور قناتوں کے
ذریعے حسن انتظام کا جلوہ دکھائی دیتا تھا ۔ میڈیا کے لیے پریس گیلری بنائی
گئی تھی ، میڈیا کوریج اور فوٹو گرافرز کے لیے خصوصی اسٹیج بنایا گیا تھا ،
انسانی طبعی ضروریات کی فکر کی گئی تھی …… جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگا کر
آنے والے مہمانوں کی رہنمائی کا اہتمام کیا گیا تھا ، پوزیشن ہو لڈرز طلباء
کے لیے گیٹ اور احاطے مخصوص تھے ، انعامات کی تقسیم کے لیے الگ اسٹیج بنائے
گئے تھے اور ان اسٹیجوں کو انعامی کتب اور شیلڈ زسے سجایا گیا تھا ،
مہمانوں کو مختلف کارڈ اور دعوت نامے جاری کیے گئے تھے ،ان کارڈزاور دعوت
ناموں کی مناسبت سے مہمانوں کی آمد و رفت ، پارکنگ اور نشستوں کا اہتمام
تھا ،کارڈز پر جاری ہونے والے سیریل نمبر کے اعتبار سے کرسیوں پربھی نمبر
لگائے گئے تھے ۔
مختلف مدارس کے بچوں نے جس اعتماد اور مہارت سے اردو ، عربی اور انگریزی
میں تقاریر کیں ، نظمیں اور ترا نے پڑھے انہیں سن کر اندازہ ہو ا کہ مدارس
میں کس قدر با صلاحیت لو گ پا ئے جا تے ہیں ۔ معروف ثنا خوان مصطفیؐ حافظ
ابوبکر ، شاہد عمران عارفی اور دیگر کے ترانوں اور نظموں نے سماں باندھے
رکھا ۔مائیک پر تشریف لا نے والے خطباء میں سے ہر ایک کا اپنا رنگ اور اپنی
بات تھی …… اجتماع کے آغاز میں دور دراز سے تشریف لانے وا لی شخصیات کو
دعوت سخن دی گئی ، کسی نے تقریر کا وقت نہ ملنے پر نہ شکوہ کیا نہ تیوری
چڑھائی ، ہر ایک مہمان تھا ، ہر ایک میزبان تھا ، ہر ایک ایثار و اکرام کی
تصویر تھا…… نقابت کے فرائض سر انجام دینے والی جوڑی مولانا قاضی عبد
الرشید اور مولانا زبیر صدیقی نے خطباء و مقررین کی حسن ترتیب کی ایسی لڑی
پروئی ، اتنا خوبصورت اور با وقار انداز اختیار کیا کہ تقریب کو چار چاند
لگ گئے …… نعروں کے لیے اسٹیج پر مستقل مائک کا انتظام تھا ، بڑے توانا اور
با معنی نعرے لگائے گئے۔ میڈیاسیکشن نے رپورٹنگ ، بڑا راست کا سٹنگ، سو شل
میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس دینے ، صحافتی برادری سے کو آر ڈینیشن اور
ان کی ضروریات و سہولیات کا پورا پورا بندو بست کر رکھا تھا ، وفاق المدارس
کے مرکزی میڈیا سنٹر ، اجتماع کے لیے قائم خصوصی میڈیا کمیٹی اور وفاق کے
احبا ب نے جن میں برادر م عرفان احمد عمرانی ، برادر م راشد مختار جنہوں نے
کمپیوٹر کا شعبہ سنبھال رکھا تھا ، احناف میڈیا کے عابد جمشید رانا سمیت
کئی دوست اپنے اپنے کاموں میں جتے ہوئے تھے ……سورۂ یٰسین اور ذکر میں مشغول
طلباء کی مستقل جماعتیں مامور تھیں ، ہر روز ہر مسجد و مدرسہ میں دعائیں ہو
تی رہیں لیکن اجتماع کے دوران بھی اذکار و اوراداور دعاؤں کا پو را پورا
اہتمام کیا گیا جس کے نتیجے میں اس اجتماع کا بخیر وخوبی انعقاد ممکن ہوا ۔
جامعہ خیرا لمدارس میں باہر سے آنے والے طلباء کے قیام و طعام اور اکرام کا
بندو بست تھا ، وفاق المدارس کے ذمہ داران اور عہدیداران کے لیے دفتر وفاق
المدارس کے احباب دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے ۔ الحمد ﷲ خیر المدارس کے
جملہ اساتذہ کرام اور دفتر وفاق کے کا ر کنان نے کسی معاملے میں کوئی کسر
نہیں اٹھا رکھی ۔ اﷲ سب کو اپنی شان کے مطابق جزائے خیر سے نوازے ۔(آمین )
وفاق المدارس کا اجتماع حقیقی معنوں میں ایک یاد گار ،پروقار، فقید المثال
، عظیم الشان ، ایمان افروز اور حیرت انگیز اجتماع تھا ……اﷲ تعالیٰ اس کے
اثرات ، برکات ، ثمرات اور نتائج سے اہل حق کو مالا مال فرمائیں ۔( آمین )
|