کسی کویا کسی کام کو نا کہنا ایک بہت مشکل کام
ہے۔۔۔معاشرتی معاملات میں شائد اسکی مشکل اور آسانی کو ناپا نہ جا سکتا
ہو۔۔۔ پیشہ ورانہ معاملات میں اس کی بہت اہمیت ہے۔۔۔پیشہ ور انہ معاملات
میں اس نا کہنے کو فن سی اہمیت دی جاتی ہے۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔۔۔ ایسا
کیوں ہے۔۔۔بہت سارے لوگ اس لئے نا کہنے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں انکی یہ نا
پیشہ ورانہ زندگی پراثر انداز نہ ہوجائے۔۔۔کچھ لوگ اپنی نجی زندگی میں
معاشرتی میل ملاپ کو برقرار یا قائم و دائم رکھنے کیلئے نہ نہیں کہہ
پاتے۔۔۔تو کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اگر میں نے نا کی تو یہ بیچارہ یا
بیچاری کہاں جائے گایا گی۔۔۔یقیناان وجوہات کہ علاوہ بھی کچھ اور جوازبھی
ہونگے۔۔۔ مضمون کہ عنوان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔۔۔
مجرم جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم ہوتا ہے۔۔۔ہمارے یہاں یہ تاثر عام ہے کہ
جوبطور ملزم گرفتار ہوگیا ہے دراصل وہ مجرم ہی ہے۔۔۔یقینا یہ لاعلمی کا منہ
بولتا ثبوت ہے۔۔۔ہمارا معاشرہ ایسے بے تحاشا لاعلموں سے بھرا پڑا ہے جو علم
کی بہتات رکھتے ہیں۔۔۔یوں تو ہم اپنے قیمتی بیانات اور اقدامات سے اپنی
جہالت کا لوہا منوا چکے ہیں۔۔۔ الزام تراشی یار الزام لگاناآجکل شہرت حاصل
کرنے کا بھی ایک ذریعہ بن چکا ہے ۔۔۔ہمارے گلی محلوں میں بہت گند جمع ہے
کوئی صفائی کرنے نہیں آتااور نہ ہی کوئی باقاعدہ کچرہ اٹھائے جانے کا
بندوبست ہے۔۔۔ہم اپنے گھروں کا کچرا اپنی گلی یا بہت تیر مارہ تو گلی کہ
کونے تک کی زینت بناتے نہیں چوکتے۔۔۔اخر ہم کب تک ہر کام کہ لئے کسی نہ کسی
کہ محتاج رہینگے ۔۔۔
ہمیں اپنے مزاج میں، اپنے برتاؤ میں، اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں، اپنے
بولنے میں مثبت تبدیلی لانا ہوگی۔۔۔ہمیں اس بے وجہ و منزل کی تھکن زدہ دوڑ
کو ختم کرنا ہوگا۔۔۔ایک دوسرے کیلئے راستہ چھوڑنا ہوگا ۔۔۔ایک دوسرے کی
مجبوریوں کو سمجھنا ہوگا۔۔۔ہمیں برداشت اور تحمل کو فروغ دینا ہوگا۔۔۔ ہمیں
جو منفی تاثرات یا چیزیں ورثے میں ملی ہیں۔۔۔ہمیں انہیں دفن کرنا ہوگا
اورانکے مدفن بھی گم نام بنانے ہونگے۔۔۔ہمیں اپنے اندر تبدیلی کیلئے بر سر
پیکار ہونا پڑے گا۔۔۔تبدیلی ہمیشہ اپنے اندر سے آتی ہے۔۔۔من کا موسم اچھا
ہوتا ہے تو باہر کتنی ہی چلچلاتی دھوپ ہو بری نہیں لگتی۔۔۔ سب یہ چاہتے ہیں
کہ سب ایسے ہو جائیں جیساکہ ہم چاہتے ہیں۔۔۔ہم اپنے عمل سے اپنے کردارسے
اپنی اہمیت واضح کرسکتے ہیں۔۔۔اپنے اندازِ تکلم سے اپنے اندازِ گفتگو سے
منفی تاثرات نکال دیں۔۔۔تبدیلی نظر آنا شروع ہوجائیگی۔۔۔یہ ضروری نہیں کہ
آپ کسی کو پریشان کر کہ ۔۔۔کسی کا کام روک کہ اپنی اہمیت منوائیں۔۔۔اسطرح
کہ اقدامات اپنی اہمیت بڑھا نہیں رہے ۔۔۔یہ کردار پر بد نما داغ بن کر
نمایاں ہونگے۔۔۔
معاشرے افراد سے مرتب پاتے ہیں۔۔۔افراد معاشرے کو اچھا یا برا بناتے
ہیں۔۔۔مغرب کی ترقی پر سب کی آنکھیں خیرہ ہیں۔۔۔انہوں نے سب سے پہلے ادابِ
زندگی سیکھے۔۔۔انہوں نے بھرپور طریقے سے اسلامی اقدار کو اپنے معاشرتی
معاملات میں اپنایا اور نافذ کیا۔۔۔ ہم سب جانتے ہیں ان کی اڑان ہماری
انکھوں سے اوجھل ہوگئی ۔۔۔میں اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو میں یہ کیوں
چاہتا ہوں کہ میرے آس پاس سب لوگ اس مصیبت کو مچھ سے بانٹیں یا خود بھی
مصیبت ذدہ نظر آئیں۔۔۔جو چیز آپ کی نجی ملکیت ہے اسے آپ کیوں اجتماعی سطح
پر دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔نسلی فاصلے کی وجہ سے ہمارے اندرہمارے معاشرے کہ
اندر برائیاں جنم لے رہی ہیں۔۔۔۔۔۔بڑے اپنی صحبت سے چھوٹوں کو دور رکھتے
ہیں یا چھوٹوں کی صحبت انہیں ناگوار گزرتی ہے۔۔۔پھر جب تجربہ خود کرینگے تو
نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔۔۔سمندر کی گہرائی جب خود ناپنے اترینگے تو
ڈوبنے کا زیادہ اندیشہ رہے گا۔۔۔اس پر طعنہ زنی سے پرہیز کریں۔۔۔تخلیق و
تحقیق سے واضح کیجئے۔۔۔ادب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔۔۔
پلک جھپکتے تبدیلی نہیں آسکتی۔۔۔کم سے کم قبلہ کا صحیح تعین کیجئے ۔۔۔اپنی
سمت درست کیجئے۔۔۔اپنے آپ سے عہد کیجئے۔۔۔ہم اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں
پہنچائنگۓ ۔۔۔ہم اگر کسی کیلئے کچھ اچھا نہیں کر پا رہے تو برا بھی نہیں
کرینگے۔۔۔اپنے اندر تبدیلی لانے کیلئے ہر ممکن کوشش کیجئے۔۔۔انسان کو اﷲ نے
اشرف المخلوقات بنایا۔۔۔اپنا نائب بنایا ہے۔۔۔اور اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ
کر سکتے ہیں۔۔۔آپ اپنے معاملات کا جائزہ لیں۔۔۔جس کام کو کرنے کی آپ ٹھان
لیتے ہیں اسے آپ کر کہ ہی چھوڑتے ہیں۔۔۔تو پھر اپنے اندر تبدیلی کیو ں
نہیں۔۔۔ہماری تبدیلی ہمارے خاندان کی تبدیلی کا سبب بنے گی۔۔۔ایک خاندان کی
تبدیلی کئی خاندانوں کی تبدیلی کا سبب بنے گی ۔۔۔ہمارے رویوں کی تبدیلی بڑی
تبدیلی لائے گی۔۔۔ایک دن ہم تہذیب یافتہ مملکت کہلانے لگینگے۔۔۔بقول مرحوم
اشفاق احمد! اے ربِ ذولجلال آسانیاں عطا فرما اور آسانیاں تقسیم کرنے کی
توفیق عطاء فرما(آمین)۔۔۔اس دعا کو زندگی کا فلسفہ بنا لیں۔۔۔یہ ایک سطری
نظریہ ساری زندگیاں آسان کردے گا۔۔۔۔۔۔(انشاء اﷲ) |