ہمارے پاس ایسا کونسا پیمانہ ھے
کہ جس سے ہم انسانی فکر اسکی سوچ کے معیار کا ٹھیک ٹھیک اور سو فیصد درست
اندازہ لگا سکیں چونکہ یہ کام سو فیصد ایمانداری اور غیر جانبداری کا تقاضہ
کرتا ہے اس لئے ایک ایسے فرد سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس سوال کا بالکل درست
جواب دے سکے ایک مرغے سے انڈے کے حصول کی توقع رکھنے کے مترادف ہے جو اپنی
سوچ اور اپنے تجزیوں میں کھلے عام اپنے معاشرتی اور سماجی تصورات اور اقدار
کو دنیا کا سب سے درست اور مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی کرے اور ان میں
موجود تضادات کو تسلیم ہی نہ کرے ، جبکہ آج کی دنیا میں صحیح اور غلط کا
تقابلی جائزہ لینے کے کتنے ہی سائیسی اور ٹھوس طریقے ایجاد ہو چکے ہیں جن
کی موجودگی میں وہ طریقہ ہائے استدلال آج کی دنیا میں قطعا قابل قبول نہیں
ہوسکتا جس میں معمولی سا بھی شک یا واہمے کا امکان محسوس ہو رہا ہو ، یا جس
کی بنیاد مفروضات پر قائم ہو ، لیہذا ایک ایسی تھیوری جس کی بنیاد تہذیبی
نرگسیت پر ہو آج کی دنیا میں قطعا قابل قبول نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج
معاشرتی ، معاشی ، سائیسی ، علمی ، ادبی ، ثقافتی، تحقیقی ، صنعتی ، تجارتی
، غرض کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں مسلمانوں کی کسی بھی بات ، کسی بھی
کارنامے ، کسی بھی تحقیق کو اہمیت نہیں دی جاتی ،اور اس کی وجہ صرف اور صرف
ان کاوشوں کی بنیاد ٹھوس اور سائینسی حقائق کی بجائے تہذیبی نرگسیت پر ہوتی
ہے- |