نفسا نفسی کے اس دور میں انسان کو چاروں طرف سے کل
کی فکر،فکر روزگار،مہنگائی،بدامنی،بچوں کی تعلیم و تربیت اور صحت کی فکر کے
ساتھ ساتھ کئی طرح کی پریشانیوں نے بُری طرح گھیررکھاہے ۔پریشانیوں میں
گھرا انسان تنہائی اورخاموشی کی تلاش میں رہتا ہے ۔آپ نے اکثر دیکھا
ہوگا،بھری محفل میں بھی کچھ لوگ اور کبھی کبھی ہم خود بھی محفل کی سرگرمیوں
سے بے خبر دوسروں کی بجائے اپنے آپ سے گفتگوکررہے ہوتے ہیں ۔ فکر روزگار نے
آج کے انسان کو اس قدر مصروف کردیا ہے کہ اُسے اپنی بھی ہوش نہیں نہ بہن ،بھائیوں
کیلئے وقت ہے نہ بچوں کیلئے اور نہ اپنے صحت اور ورزش کیلئے وقت ملتا ہے ۔فارغ
وقت اس سوچ میں گزر جاتا ہے کہ کل کیا کرنا ہے یا کل کیا ہوگا؟اسی نفسا
نفسی میں زندگی تیزی سے گزرتی جارہی ہے۔لیکن اگر کچھ وقت نکال کر بہن ،بھائیوں
اور دوستوں سے میل ملاپ قائم رکھا جائے تو انسانی صحت کیلئے کافی حد تک
مفید ثابت ہوتا ہے۔میں بھی کافی دنوں سے گھر ،کام اور انٹرنیٹ تک محدود تھا
جس کی وجہ سے طبیعت میں کچھ اُداسی سی محسوس ہورہی تھی ۔ جب کالمسٹ کونسل
آف پاکستان پنجاب کے صدر حافظ جاویدالرحمٰن نے مجھے 23مارچ کے پروگرام میں
شرکت کی دعوت دی تو میں چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کرسکا ۔23مارچ کی صبح سے
ہی موسم کافی سہانہ ہوگیا تھا۔صبح سے شام تک ہونے والی ہلکی بارش نے موسم
انتہائی خوشگوار بنائے رکھا۔دن کے ایک بجنے میں ابھی چند منٹ باقی تھے کہ
میں اور میرے اُستاد ایم ۔اے تبسم مون مارکیٹ ہوٹل(بلیو فلیم) میں پہنچے ۔جہاں
پر ہمارا استقبال چیئرمین ایکشن کمیٹی سی سی پی وسیم نذرنے کیا۔کچھ ہی دیر
میں باقی تمام دوست بھی تشریف لے آئے جن میں شیخوپورہ سے ساحر قریشی،حافظ
جاوید الرحمٰن قصوری،عقیل خان آف جمبرجناب مرزا عارف رشید جو خصوصی طور
پراس پروگرام میں بہاولپور سے تشریف لائے ان کے ساتھ ساتھ حکیم کرامت علی
اوربہت ہی شوخ وچنچل ملک ساجد اعوان بھی فیصل آباد سے تشریف لائے ۔سی سی پی
کے جنرل سیکرٹری فیصل اظفر علوی اسلام آباد میں مصروف تھے اس لئے اُن کے
ساتھ ٹیلی فون پر بات ہوئی اور کچھ دوست اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے نہ
تشریف لا سکے ۔تین گھنٹوں سے زائد جاری رہنے والی اس ملاقات میں دوستوں نے
گلے شکوے بھی کئے اور بہت سی محبتیں بھی بانٹی ۔دوستوں کے درمیان خوشیاں
بانٹتے وقت کیسے گزر گیا پتا ہی نہیں ۔ملاقات کا وقت ختم ہواتو سب دوست ایک
دوسرے سے گلے ملتے ملاتے رخصت ہوگئے ۔ہوٹل سے باہر نکلا توبہت دنوں بعد
مجھے لاہور کی فضا صاف اور نکھری نکھری محسوس ہوئی۔ میری طبیعت پر اُداسی
بھی کے سائے بھی مدھم مدھم محسوس ہوئے ۔جس طرح بارش میں نہا کر پھول ،پودے
اور فضا تازہ دم ہوچکی تھی اُسی طرح دوستوں سے ملاقات کے بعد میری طبیعت
اُداسی سے خوشی تک کا سفر طے کرچکی ۔گھر پہنچ کر رات بھر یہی سوچتا رہا کہ
آخر اتنے مختصر وقت میں مہینوں کی اُداسی کس طرح دور ہوگئی؟سوچوں کی کھڑکی
سے نرم سی آواز میں شاعر نے پکارا
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
بات سمجھ میں آگئی کہ طبیعت پہ چھائی اُداس تاریخی کودوستوں کی محبتوں کی
روشنی نے چاٹ لیا تھا اور اب موسم بالکل صاف تھا ۔اﷲ تعالیٰ میرے تمام
دوستوں کو ہمیشہ خوش رکھے (آمین) |