تنخواہیں نہ بڑھانے کی تجویز

بدھ کے روز قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہو ئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے انکشاف کیا ہے کہ آیئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور پنشن بڑھانے کی کو ئی تجویز زیرِ غور نہیں۔وزیر،خزانہ کا یہ بیان یقینا سرکاری ملازمین کے لئے کسی بڑے صدمہ سے کم نہیں ،کیونکہ سرکاری ملازمین ہی وہ طبقہ ہے جو مہنگا ئی سے سب سے زیا دہ متا ثر ہو تا ہے، جس کی آمد نی لگی بندھی اور محدود ہو تی ہے۔تاجر پیشہ اور اس طرح کے دوسرے حضرات مہنگائی کے تناسب سے اپنے منافع کی شرح میں بھی اضافہ کر دیتے ہیں مگر ملازمین ایسا نہیں کر سکتے۔سرکاری ملازمین ہی وہ طبقہ ہے جو حکومت کو با قا عدگی کے ساتھ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ ان کے تنخواہوں سے ہی ٹیکس منہا کر دیا جا تا ہے ا ور سرکاری ملازمین ہی وہ طبقہ ہے جو حکومت کے مشینری کو چلاتا ہے، سرکاری ملازمین ہی وہ کل پرزے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کی مشینری رواں دواں ہو تی ہے۔اسی طرح پنشنرز حضرات نے اپنی عمر کا قیمتی حصہ وطنِ عزیز کے لئے اپنی خدمات سر انجام دیتے ہو ئے گزری ہو تی ہے اور ساٹھ سال کے بعد ان کے ضروریاتِ زندگی پو را کرنے کے لئے صرف پنشن ہی ان کا واحد سہارا ہو تا ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ ارکانِ پا رلیمنٹ اپنے تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا قانون راتوں رات منظور کر دیتے ہیں لیکن جب سرکا ری ملازمین اور پنشنرز حضرات کے تنخواہوں میں اضافے کا وقت ہے تو ان کو خزانہ خالی نظر آتا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک کا برسرِ اقتدار طبقہ ملکی وسائل میں سے غریب طبقہ کو کچھ دینے کو تیار نہیں۔جب وہ خود بیرونِ ملک دوروں پر جاتے ہیں ، اپنے اہل و عیال کے علاج معالجے کے لئے بیرونِ ملک جا تے ہیں تو ملکی خزانہ ان کو بھرا ہوا نظر آ تاہے۔اسی ملکی خزانہ سے وہ بیرونِ ملک بھی عیا شیاں کرتے ہیں اور اندرونِ ملک بھی ان کے لا جز سے شراب کی بو تلیں اور رنگ برنگی تتلیاں نظر آتی ہیں۔

لیکن افسوس صد افسوس کہ پاکستان میں ہر آنے والا دن غریب طبقہ کے لئے با لعموم اور سرکاری ملازمین کے لئے با لخصوص ایک نئی مشکل کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔آ ئے روز حکومت عوام کے مشکلات میں اضافے کے لئے کو ئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھاتی ہے ۔اگر آج بجلی کے نرخوں میں اضافے کا اعلان کرتی ہے، تو کل آٹے کی قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے اور پرسوں گیس یا تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تمام اشیا ئے ضروریات ِ زندگی کے قیمتوں خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے۔

ایک طرف تو وہ طبقہ ہے جس کو زندگی کی تمام آ سا ئشیں میسّر ہیں جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو مہنگائی کی چکّی میں پِس رہا ہے جسے مناسب غذائی سہولیات بھی میسّر نہیں، وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینے سے قا صر ہیں ، علاج معالجے کی سہولت میسّر نہیں، سفید پو شی کا بھرم رکھنا ممکن نہیں رہا۔

وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ اگر ہماری پارٹی بر سر اقتدار آ ئی تو ہم کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے کر دیں گے، بے روزگاروں کو روزگار دیں گے۔ مگر افسوس کہ اب وہ بے روزگاروں کو روزگار دینا تو درکنار، وہ با روزگاروں کو بھی بے روزگار بنا رہے ہیں۔

اگر حکومت مہنگائی میں اضافے کے تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حکومت جان بو جھ کر سرکاری ملازمین کو رشوت، کرپشن اور بد عنوانی پر مجبور کر رہی ہے، کیونکہ جس شخص کے بچوں کو روٹی، کپڑا، تعلیم اور علاج معالجے کی سہو لت میسّر نہ ہو ، وہ اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے ناجائز ذرائع ہی استعمال کرے گا ، کو ئی شخص اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا نہیں دیکھ سکتا۔ جس طرح بجلی کے نرخ بڑھانے سے ’با وجود سخت قوانین کے،بجلی چوری میں اضافہ ہو ا ہے اسی طرح تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے سے رشوت خوری میں اضافہ ہو گا۔

عین ممکن ہے کہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا تنخواہیں نہ بڑھانے کا اعلان سرکاری ملازمین کو آئندہ بجٹ میں نہایت معمولی اضافہ پر صابر و شاکر رکھنے کا ایک نفسیاتی چال ہو ، مگر انہیں یہ بات نہیں بھو لنی چا ہئیے کہ اگر سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں مناسب اضافہ نہ کیا گیا اور ضعیف ا لعمر پنشنرز کی بھی بد دعا ئیں سمیٹ لی گئیں تو حکومت کے لئے بہت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا، لہذا ہم حکومت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ مہنگائی میں اضافے کو مدِ نظر رکھ کر تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا بر وقت اعلان کردے اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے اعلان سے سرکاری ملازمین میں پھیلتی ہو ئی بے چینی کو ختم کیا جائے۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315852 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More