ہمارے معاشرے میں کسی بھی لڑکی کی شادی کا ذکر ہوتا ہے تو
سب سے پہلے زہنوں میں جو خیال آتا ہے وہ جہیز کا ہوتا ہے .دوسرے لفظوں میں
ہم کہہ سکتے ہیں کہ شادی اور جہیز کے بغیر والدین کا لڑکی کو رخصت کرنا نا
ممکن سا ہو جاتا ہے.اور ہمارے معشرے میں یہ بیماری بہت پھیل گئی ہے.اوراب
اس کا علاج اتنا آسان نہیں ہے کتنی لڑکیاں جہیز پورا کرنے کے چکر اور
انتظار میں بابل کے گھر بیٹھے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں. یہاں تک
کہ شادی کے بعد بھی جہیز کی آگ نہیں بھجتی ہے لڑکے والے شادی کے بعد بھی
طرح طرح کے مطالبات کرتے رہتے ہیں اگر مط لبات کو پورا نہ کیا جائے تو لڑکی
کو آزمائش کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے اور کبھی من مانا جہیز نہ دینے کی حوس
میں اس کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے جہیز کے لین دین کے حوالے سے اگر
جائزہ لیا جاہے تو ہر علاقے قصبے والو نے کوئی نہ کوئی رسم رکھی ہے جو جہیز
ہی کہلاتی ہے ..
اس ضمن میں قرآن و سنّت کی روشنی میں جہیز نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہ ایک
ہندوانہ رسم ہے اور اسلام میں اس طرح کی کوئی رسم بھی نہیں ہے یہ تو سرا سر
بیٹی کے باپ پر ظلم ہے یہاں تک کہ شادی پر تو بیٹی کے باپ کا ایک روپیہ بھی
نہیں لگتا اگر اسلام کے مطابق شادی کی جائے تو .اگر قرآن و سنّت کے مطابق
قانون ہوتا تو کسی لڑکی کو جہیز کے عوض نہ خریدا جاتا اور نہ اس کی زندگی
تباہ ہوتی.اور نہ کسی کے حصّے میں نہ انصافی آتی اور غیر اسلامی روایت اور
ظلم دیکھنے میں نہ آتا ..امیر اور غریب کے درمیان اتنا واضح فرق بھی نہ
ہوتا جتنا آج فرق ہے ہمارے دین کے مطابق قانون تو سب کے لیے ایک ہی ہے وہ
امیر المومنین ہو یا غریب آدمی ہو. شادی بیاہ کے معاملات سادگی کے ساتھ طے
ہونے چاھئیں لیکن جہیز کی لعنت نے غریب والدین کو شدید تناو کا شکار کر دیا
ہے .بیٹیوں کی پیدائش کو رحمت سمجھنے کی بجائے زحمت سمجھا جاتا ہے .ضرورت
اس امر کی ہے کہ جہیز کی لعنت کے خلاف لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہو گا اس کے
لیے سیاسی .سماجی ،مذہبی طور پر مہم شروع کی جائےاس کے لیے ایک قانون بھی
بنایا جاہے تو اس لعنت کو روک سکتے ہیں اور اس سلسلے میں لڑکے کا بھی اہم
کردار ہے اگر وہ یہ کہہ دے کہ مجھے جہیز نہیں چاھیے تو اس رسم کے خاتمے کی
امید کی جا سکتی ہے .
قرآن پاک میں الله پاک کا ارشاد ہے عورتوں کو تم مہر تحفے میں دو اگر ان
میں سے وہ تمہیں کچھ دے دیں تو مزے سے کھاؤ
لیکن اگر والدین اپنی بیٹی کو خوشی سے کچھ سامان دینا چاہیں تو اس میں کوئی
بری بات نہیں ہے الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا کو شادی کے وقت کچھ کپڑے اور تھوڑا سا سامان دیا تھا ...لیکن آج
کل جو جہیز کی پوری فہرست دی جاتی ہے اس کا اسلام میں کوئی ذکر نہیں ہے یہ
ایک ہندوانہ رسم ہے جو آج پاکستان جسے اسلامی ملک میں بھی پھیل گئی ہے
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
اس سلسلے میں سمجھی تنظیم مداوا جہیز کی لعنت پر کام کر رہی ان کی محنت سے
آج بہت سے گھر اس لعنت سے بچ گئے ہیں .آج ہم دین کے ناواقف ہیں اور ہماری
دین سے دوری کی وجہ سے آج ہم ایسی رسموں میں پھنس گئے ہیں جن کا اسلام سے
کوئی تعلق نہیں ہیں .الله پاک ہمیں دین کی سمجھ نصیب فارمائے . |