دل کی بات یوں زبان پر چلی آئے
گی سوچا نہ تھا۔ آج نئی بات کہوں تو زمانہ پرانی روش پر چل نکلے۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈ بویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
حالت پرواز میں نفس نگری کی رفتار ایک بار بلندیوں کو چھونا چاہتی ہے۔ مگر
دھیرے دھیرے ہولے ہولے جھولتے جھولتے اٹکتی اٹکتی بے بسی سے خاک چاٹنے تک
جا پہنچتی ہے۔ سر تکیے سے اوپر رہے تو نیند میں مددگار ہے۔خیال سر تک نہ
پہنچے تو زندگی پر نہیں کوئی بار ہے۔ جھٹک جھٹک ایک لمحے کے توقف سے پھر سر
چڑھ دوڑتا ہے۔ اُٹھا اُٹھا پٹخنےسے بھی زندہ جاوید رہتا ہے۔ کم از کم دیار
غیر میں یار کا تو یہی حال ہے۔ یار وہی جس کے ہم خیال ہیں۔کبھی بھاری تو
کبھی طاری ہے۔کبھی خوشی میں آنسو ٹپکا دیتا ہے تو کبھی درد میں مسکرا دیتا
ہے۔ یہی تو ہےجو ماہر تیراک دبو دیتا ہے۔ اناڑی کنارے پہنچا دیتا ہے۔قدم جس
کے بتائے راستے پر چلتے ہیں ۔آنکھیں ہزاروں مناظر میں سے ایک منظر تلاش
کرتی ہیں۔ جو قلب کو سکون ،عقل سرور میں مبتلا کر دے۔ مگر یہ آنکھیں بھی
ظلم ڈھاتی ہیں پلکیں جھپک جھپک پسند کو پردے کے پیچھے اور جو نا پسند ہوں
باہر گراتی جاتی ہیں۔ جنھیں دماغ یاداشت سے اور قلب احساس سے مٹاتے جاتے
ہیں۔ نہ جانے کیوں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ تصور خیال بن جانے والے اور نظروں
سے گرائے جانے والے بیٹوں اور بیٹیوں جیسی پیدائش اظہار کی مماثلت رکھتے
ہیں۔خیال تو خیال ہوتا ہے جہاں سے چنا جاتا ہےوہاں ڈھیروں اپنی اپنی باری
کے انتظار میں پلکوں میں سمونے کو بیتاب رہتے ہیں۔ ہیروں کی تلاش میں آنے
والے جوہریوں کی نظر التفات سے ہار میں پرو دیئے جاتے ہیں۔
جن کے محبوب اچانک خیال سے حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ وہ آنکھیں جھپکانا
اور گردن جھکانا بھول جاتے ہیں۔ منزل تک پہنچنے کے مراحل طے کرنا شروع کر
دیتے ہیں۔ راستہ ہموار نہ ہو تو ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔مگر جن کی منزل
حقیقت کا روپ پہلے سے اختیار کر لے ، ان کے غیر ہموار راستے بھی ارادوں کو
متزلزل نہیں کر پاتے۔
مگر یہ منظر کشی نظر اختتام کے بس سے باہر ہے۔نظر ابتدائ ہی سے یہ کینوس پر
روشنی ڈال کر ایک شاہکار ابھار دیتی ہے۔ روشنی اپنے ہر رنگ سمیت اپنا انگ
انگ منتقل کر دیتی ہے۔ پھر چاہے پلکیں نظر پر پردے گرا دیں ۔ایک دنیا اس کے
پیچھے بسیرا کر لیتی ہے۔ ہونے کا علم کرنے کے حکم سے بھاری پڑ جاتا ہے۔ راز
و نیاز میں میں نہیں ہوتا ۔ بس تو ہی تو سے ہوتا ہے۔ پلک اُٹھنے سے تو ہے
تو پلک گرنے سے صرف میں ہے۔ مقام ایسا جہاں نہ عقل ہے نہ شعور ۔ جو رات سفر
میں ہے وہ بستر میں نہیں۔
جو رزق دیار میں ہے وہ وطن میں نہیں۔ مصالحت کوشش سے ہے ،مصلحت رضا سے
ہے۔الفاظ چناؤ کے محتاج ہیں، مفہوم چنے جانے کا۔ پانی کا بہاؤ اخراج سے طے
کر لیتا ہے کہاں اور کیسے راستے بنانے ہیں۔چاہے بند کتنے ہی کیوں نہ بنا
لئے جائیں مگر بہاؤ کے راستے پلوں کے محتاج رہتے ہیں۔
آج کی بات اگر آسان نہیں تو اتنی پریشان بھی نہیں۔ پڑھنا اگر کہیں بھی مشکل
ہو تو پلکیں گرا کر سننے میں آسان بیان رہتا ہے۔ کیونکہ نظریں زیر زبر کے
زیر بار رہتی ہیں۔سننا پابندی سے مستثنی ہوتا ہے۔ |