حق سبحانہ و تقدس نے اپنے کلامِ
مبارک میں کئی جگہ مخالفین ومبطلین کو چیلنج وتحدّی کی ہے کہ وہ اگر اپنے
دعوے میں سچے ہیں یعنی قرآن کلام الہی نہیں ہے بلکہ (نعوذ باﷲ) ایک بشری
مصنوعی کلام ہے، تو وہ اس فصیح و بلیغ کلام کی طرح اس کے مقابل کا ایسا ہی
کوئی کلام پیش کریں۔ لیکن جب وہ لوگ حتی الآن پیش نہ کرسکے اور نہ ہی پیش
کرسکیں گے ، تو انہیں پھر ایک ایسی خطرناک آگ سے بچنے بچانے کا سامان کرنا
چاہیے جس کا ایندھن لکڑیوں کے بجائے بنی نوع انسان اور پتھر ہوں گے ۔ جو
منکرین و مخالفین کے لیے پہلے سے بالکل تیار کی گئی ہے۔ یہ سورۂ بقرہ کی
آیت نمبر ۲۳۔ ۲۴ کا مفہوم ہے۔ اس کی تفسیر تحریر فرماتے ہوئے حضرت مولانا
مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے دس وجوہِ اعجاز قرآن کریم کے ذکر
فرمائے ہیں۔ ان سب میں جس وجہ کو زور دے کر اور مفصّل انداز میں تحریر
فرمایا ہے وہ اس کلام کی عربیت ہے اور وہ بھی ایسی کہ خود جس پر یہ کلام
نازل ہوا ہے وہ بھی اس کی نظیر یا اس میں کمی بیشی پر کسی طرح قادر نہیں
ہیں۔ ﴿قُل مایکون لی أن أبدلہ من تلقاء نفسی……﴾ اس پر شاہد عدل ہے۔ یہاں ہم
حضرت مفتی صاحب کے کلام کو کچھ اختصار کے ساتھ نقل کریں گے تاکہ عربیّتِ
قرآن اور اس کی اہمیت پر کچھ روشنی ڈالی جاسکے۔
’’اب اعجاز قرآن کی دوسری وجہ دیکھیے، یہ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن اور اس کے
احکام ساری دنیا کے لیے آئے، لیکن اس کے بلاواسطہ اور پہلے مخاطب عرب تھے،
جن کو اور کوئی علم و فن آتا تھا یا نہیں مگر فصاحت و بلاغت ان کا فطری ہنر
اور پیدائشی وصف تھا، جس میں وہ اقوام دنیا سے ممتاز سمجھے جاتے تھے، قرآن
ان کو مخاطب کرکے چیلنج کرتا ہے کہ اگر تمھیں میرے کلام الہٰی ہونے میں
کوئی شبہ ہے ، تو تم میری ایک سورت کی مثال بناکر دکھلادو، اگر قرآن کی یہ
تحدّی (چیلنج) صرف اپنے حسن معنوی یعنی حکیمانہ اصول اور علمی معارف و
اسرار ہی کی حد تک ہوتی، تو اُمیّین کے لیے اس کی نظیر پیش کرنے سے عذر
معقول ہوتا، لیکن قرآن نے صرف حسن معنوی ہی کے متعلق تحدّی نہیں کی، بلکہ
لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی پوری دنیا کو چیلنج دیا ہے۔ اس چیلنج
کو قبول کرنے کے لیے اقوام عالم میں سب سے زیادہ مستحق عرب ہی تھے، اگر فی
الواقع یہ کلام قدرتِ بشر سے باہر کسی مافوق قدرت کا کلام نہیں تھا، تو
بلغاء عرب کے لیے کیا مشکل تھا کہ ایک امّی شخص کے کلام کی مثال، بلکہ اس
سے بہتر کلام فوراً پیش کردیتے اور ایک دو آدمی یہ کام نہ کرسکتے تو قرآن
نے ان کو یہ سہولت بھی دی تھی کہ ساری قوم مل کر بنا لائے، مگر قرآن کے اس
بلند بانگ دعوے اور پھر طرح طرح سے غیرت دلانے پر بھی عرب کی غیّور قوم
پوری کی پوری خاموش ہے، چند سطریں بھی مقابلہ پر نہیں پیش کرسکتی۔
جنگ و مقابلہ کے لیے تیار ہوکر قبل از ہجرت اور بعد ازہجرت جو قریش عرب نے
آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے مقابلہ میں سر دھڑ کی بازی
لگائی، جان، مال، اولاد، آبرو سب کچھ اس مقابلہ میں خرچ کرنے کے لیے تیار
ہوئے، مگر یہ کسی سے نہ ہوسکا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کرتا اور چند سطریں
مقابلہ پر پیش کردیتا، کیا ان حالات میں سارے عرب کا اس کے مقابلہ سے سکوت
اور عجز اس کی کھلی ہوئی شہادت نہیں کہ یہ انسان کا کلام نہیں بلکہ اﷲ
تعالیٰ کا کلام ہے، جس کے کام یا کلام کی نظیر انسان کیا ساری مخلوق کی
قدرت سے باہر ہے۔
پھرصرف اتنا ہی نہیں کہ عرب نے اس کے مقابلہ سے سکوت کیا، بلکہ اپنی خاص
مجلسوں میں سب نے اس کے بے مثل ہونے کا اعتراف کیا اور ان میں جومنصفِ مزاج
تھے، انھوں نے اس اعتراف کا اظہار بھی کیا، پھر ان میں سے کچھ لوگ مسلمان
ہوگئے اور کچھ اپنی آبائی رسوم کی پابندی یا بنی عبدمناف کی ضد کی وجہ سے
اسلام قبول کرنے سے باوجود اعتراف کے محروم رہے، قریش عرب کی تاریخ ان
واقعات پر شاہد ہے۔
قبیلہ بنی سلیم کا ایک شخص مسمّی قیس بن نسیبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوا، آپ سے قرآن سنا اور چند سوالات کیے، جن کا جواب آنحضرت
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عطا فرمایا، یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے، اپنی قوم
میں واپس گئے تو لوگوں سے کہا:
’’میں نے روم و فارس کے فصحاء وبلغاء کے کلام سنے ہیں۔ بہت سے کاہنوں کے
کلمات سننے کا تجربہ ہوا ہے، حمیر کے مقالات سنتا رہا ہوں، مگر محمد صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کے کلام کی مثل میں نے آج تک کہیں نہیں سنا، تم سب میری
بات مانوں اور ان کا اتباع کرو، انہی کی تحریک و تلقین پر ان کی قوم کے ایک
ہزار آدمی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوگئے (خصائص کبری للسیوطی: ۱؍۱۱۶)۔ یہ ہے قرآن کا
وہ کھلا ہوا معجزہ جس کا دشمنوں کو بھی اعتراف کرنا پڑا ہے۔‘‘ (معارف
القرآن: ۱؍۱۴۰۔۱۶۴)۔
حضرت مجاہد رحمۃ اﷲ علیہ نے تو عربی زبان و ادب سے ناآشنا وناواقف شخص کے
لیے قرآن کے متعلق تفسیر و تشریح، استدلال و استشہاد تو کجا اس سے بھی کم
ہر قسم کی لب کشائی حرام قرار دی ہے۔ ’’لایحلّ لأحد یومن باﷲ والیوم الآخر
أن یتکلم فی کتاب اﷲ إذا لم یکن عالماً بلغات العرب‘‘ نیز علامہ مناّع قطان
نے نحو و صرف کے علاوہ معانی، بیان اور بدیع کو بھی مفسّر کے لیے لابدی
قرار دیا ہے جس سے ان علوم کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ (دیکھیے
مباحث فی علوم القرآن : ۳۴۲)
عصرحاضر کے امام اہل لغت حضرت شیخ احمد حسن زیات اپنی شہرۂ آفاق کتاب
’’تاریخ الأدب العربي‘‘ کے مقدمہ میں عربی زبان و ادب کی مرحلہ وار ترقی پر
یوں رقمطراز ہیں:
’’والآداب العربیۃ أغنی الآداب جمعاء، لأنھا آداب الخلیقۃ منذطفولۃ الإنسان
إلی اضمحلال الحضارۃ العربیۃ…… فکانت لغات الأمم علی اختلافھا کالجد اول
والأنھار، تتألف، ثم تتشعب، ثم تتجمع، ثم تصّب في محیط واحد، ھو اللغۃ
العربیۃ‘‘ یعنی عربی زبان کا ادب تمام زبانوں کے آداب سے زیادہ کامل و مکمل
ہے، اس لیے کہ یہ ساری انسانیت کا ادب و کلچر ہے ابتدائے آفرینش سے لے کر
عربی تہذیب و تمدن کے پھیل جانے تک، پس اسلام کی آمد کے بعد مضر کی زبان اب
صرف ایک قوم کی زبان نہیں رہی تھی، بلکہ یہ ان تمام قوموں کی زبان تھی جو
اﷲ کے دین میں داخل ہوئی تھیں یا پھر اسلامی دنیا کی آغوش میں آباد تھیں،
اس میں ان کے خیالات، تصورات، معانی اور افکار رچ بس گئے تھے، ان کے مختلف
لہجوں کے رموز وا سرار اس کی زینت بن چکے تھے، پھر یہ عربی زبان اس مرحلے
کے بعد دین، مذہب، ادب، علم اور ایک مستقل تہذیب و تمدن کو لے کر دنیا کے
کونے کونے تک پہنچ گئی، جو زبان بھی اس کے راستے میں رکاوٹ بنی اسے پچھاڑ
کر رکھ دیا، یوں اس میں اوائل اور متقدمین کے علوم و آداب سمو گئے، جیسا کہ
یونانی، رومی، فارسی ، یہودی، ہندی اور حبشی یعنی زمانہائے دراز تک حوادث
زمانہ کے لگام کو اپنے ہاتھ میں رکھا، جہاں اس نے کئی زبانوں کے اکھاڑ
پچھاڑ کا مشاہدہ کیا وہاں اس کا جھنڈا دھوم دھام سے لہراتا رہا ہر قوم
وجماعت کے آداب و معارف کے ثمرات ادبی شہ پاروں کو اس نے سینے سے لگایا،
لہٰذا یوں کہا جاسکتا ہے کہ ساری زبانیں چھوٹی نالیوں اور نہروں کی طرح
ہیں۔ جو آپس میں مل کر دریاؤں کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور پھر سب مل کر
ایک سمندر میں ان سب کا پانی گرتا ہے اور وہ سمندر’’ عربی زبان‘‘ ہے۔‘‘
تھوڑاسا آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:
’’تہذیبی غلامی سیاسی غلامی سے بدتر ہے، کیوں کہ سیاسی غلامی میں جسمانی
غلامی ہوتی ہے جس کا علاج ممکن ہے اور شفاء کی امید کی جاسکتی ہے، جب کہ
تہذیب و تمدن اور زبان و ادب کی غلامی روحانی غلامی ہے جس میں قوم و ملت کی
موت پنہاں ہوتی ہے، جس کے علاج پر کسی ڈاکٹر وطبیب کو قدرت حاصل نہیں ہے۔‘‘
(تاریخ الأدب العربی۔ احمد حسن زیات)
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:
’’لایخفی علیک أن علم الأدب عبارۃ عن مجموع علوم، وھي: اللغۃ، والصرف،
والاشتقاق، والنحو ، والمعانی، والبیان، والعروض، والقافیۃ، وھذہ الثمانیۃ
أصول الأدب، ورسم الخط، وقرض الشعر، وإنشاء النثر (من الخطب والرسائل
والمقالات)، والمحاضرات، وھذہ الأربعۃ فروعہ……
وإیاک ثم إیاک أن تظن کما ظنّ في ھذا الزمان الذی سُمّي فیہ الجھل علماً
والعلم جھلاً، أن شیئاً من ھذہ العلوم لایحتاج إلیہ من أراد معرفۃ القرآن
أوالحدیث أوکلام العلماء من المتکلمین والمحدثین والفقہاء، وأقول (ولاأخاف
لومۃ لائم): یمکن أن یعبّر إنسان عماّ في ضمیرہ، ویعرف مایقولہ البادي
والحاضر (أي البدوي والمدني) من غیرمعرفۃ علمَي الصرف والنحو وغیرھما من
العلوم، لکن فہم القرآن والحدیث وغیرھما کما ھو حقہ ممن جہل ھذہ العلوم
متعسّرجداً في ھذا الزمان……
والعجب کل العجب مما تحدّث بہ علماء ھذا الزمان أن البلوغ إلی ما أرید من
آیات اﷲأوالأحادیث غیرمتوقّف علی الصرف والنحو وغیرھما من (العلوم)
الواجبات، بل یکفي لہ معرفۃ مفردات اللغۃ فقط، ولعمري، إن ھذا لخطأ علی خطأ
وضلال فوق ضلال، فإنہم لوخلعوا ھذہ الربقۃ صاروا کالبعیر النافر الشارد
یذھب حیث شاء لامُمسک لہ ولا ھادي، ومن ھھنا ماسمعنا من أمثال ھؤلا ء
المتخرجین الذین اتخذوا ھذین العلمین وراء ھم ظہریا، أن قولہ صلی اﷲ علیہ
وسلم روحي وروح أبي وأمي فداہ: ’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ‘‘
معناہ أن المسلم ھو الذي سلّم علی المسلمین بیدہ ولسانہ۔ (یعنی مسلمان وہ
ہے جو مسلمانوں کو اپنے ہاتھ و زبان دونوں سے سلام کرے، یعنی بوقت سلام،
السلام علیکم کہنا اور ہاتھ کو سر تک لے جانا چاہیئے)۔ أفیدونی (ھدا کم اﷲ)
أیھا العلماء: بأیّ دلیل یُخطّأُ ھذا المترجم لولا النحو(مقدمۃ دیوان متنبی
/۲۶)
حضرت شیخ کی عربی چونکہ آسان اور عام فہم ہے اس لیے مستقل ترجمے کی ضرورت
نہیں معمولی غوروفکر سے بات سمجھ میں آسکتی ہے۔ البتہ جس انداز سوز وافسوس
سے انھوں نے عربی کی اہمیت اُجاگر کرنے کی سعی فرمائی ہے، وہ اس لائق ہے کہ
اُسے باربار پڑھا جائے اور اس سے نصیحت حاصل کی جائے۔
- أستاذالکل حضرت علامہ سید محمد انور شاہ الکشمیری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے
ہیں:
’’ثم إن من أخص مایحتاج إلیہ الإنسان في فہم الحدیث والتنزیل، وأکثر مامسّت
الحاجۃُ إلیہ في التفسیر والتأویل، ھو: فن اللغۃ والأدب، إذبہ یعرف مزیۃ
حوار العرب، وخصائص تراکیبھم، وخواص أسالیبھم، وأن المرأ إذا دخل علیھم کیف
یرِد ویصدر، ویقدّم ویؤخّر، ویعرّف وینکّر ، ویحذُف ویذکر، ویُظہرویُضمر․
(حوالہ سابقہ)
یعنی قرآن وسنت کے سمجھنے کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت کسی شخص کو
ہوتی ہے وہ فن لغت وادب ہے، اس واسطے کہ اس کے ذریعے عربوں کی گفتگو کا
اسلوب و امتیاز اور ان کے کلام کی خصوصیات اور ان کے محاورات کا اختصاص
پہچانا جاسکتا ہے اور یہ کہ انسان جب ان سے محو گفتگو ہو تو اسے کلام میں
دخول و خروج ، تقدیم و تاخیر، تعریف و تنکیر حذف و تعبیر اور اظہار واضمار
کا طریقہ اس فن سے ہی آئے گا ۔
مولانا ابن الحسن عباسی رقمطراز ہیں:
’’ادب اخلاق کے چہرہ کے حسن اور انسان کی زبان کی زینت کا نا م ہے، کسی
زبان کا ادب اس کی ثقافت کا بہترین عکس ہوتا ہے اور ادب ہی ایک ایسا آئینہ
ہے ، جس میں کسی قوم کی تہذیب و تمدن اس کے اخلاقی ماحول کا معیار اور اس
کے معاشرہ کی سطح کی بلندی یا پستی دیکھی جاسکتی ہے۔ قدیم ادب عربی سے
واقفیت، اس کے ساتھ ذوق اور اس کی تعلیم و تعلم سے ایک مسلمان کا تعلق محض
زبان برائے زبان نہیں، بلکہ عربی دین اسلام کی سرکاری زبان ہے، اسی زبان
میں قرآن کریم اُتارا گیا ، یہی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث
مبارکہ کی زبان ہے، اسی زبان کو لغۃ الجنۃ کی خلعت سے نوازا گیا اور یہی وہ
زبان ہے جسے تمام اسلامی علوم کی ’’ام اللغات‘‘ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ صدر اسلام سے لے کر اب تک مذہبی فریضہ سمجھ کر مسلمان عربی زبان
کے ادبی سرمایہ کی حفاظت کرتے رہے ہیں‘‘۔
خود جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کبھی کبھار شعر پڑھتے اور اکثر
وبیشتر اپنے شاعر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم أجمعین سے سماعت فرماتے اور اچھے
اشعار و قصائد پر داد بھی دیتے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے
کہ گاہے گاہے آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم گھر میں مندرجہ ذیل مشہور شعر
گنگناتے ہوئے داخل ہوتے :
ستُبدي لک الأیام ماکنت جاھلاً
ویأتیک بالأخبار من لم تُزوّدٖ
(الأدب المفرد للبخاري باب الشعر کحسن الکلام)
اسی طرح حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ ادب عربی کا اور اس کے اشعار کا بڑا لطیف
ذوق رکھتے تھے، آپؓ ہی نے فرمایا: علیکم بدیوانکم لاتضلّوا قالوا: وما
دیواننا؟ قال: شعر الجاھلیۃ، فإن فیہ تفسیر کتابکم ومعاني کلامکم
(مقدمۃ شرح الحماسۃ للتبریزی)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی عربی زبان و ادب سے مناسبت کا
یہ عالم تھا کہ صرف حضرت لبیدابن ربیعۃ رضی اﷲ عنہ کے ایک ہزار اشعار ان کو
زبانی یاد تھے اور فرمایا کرتی تھیں:
روّوا أولادکم الشعر تعذب ألسنتہم
(العقد الفرید: ج/۱۲۴/۶)
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتبہ زیاد بن ابی سفیان کے صاحبزادے کا
امتحان لیا، تمام علوم و فنون میں اسے ماہر پایا، مگر شعروشاعری میں کمزور
نکلا، اس پر حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ نے زیاد کو خط لکھا، جس میں یہ
الفاظ تھے:
’’مامنعک أن تروّیہ الشعر؟ فواﷲ، إن کان العاق لیرویہ فیبرّ، وإن کان
البخیل لیرویہ فیسخو، وإن کان الجبان لیرویہ فیقاتل‘‘( المُزھِر:۳۱۰/۲۔۳۱۱)
حضرت شعبی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ: میں بسا اوقات عبدالملک بن مروان کو
کوئی ادبی واقعہ یا شعر سناتا، ان کے ہاتھ میں لقمہ ہوتا، لقمہ ہاتھ میں
لیے رکھتے اور اس پر ادیبانہ گفتگو کرتے رہتے، میں کہتا: امیرالمؤمنین،
لقمہ تناول فرمائیں ، بات ہوتی رہے گی، تو کہتے:
’’ماتُحدّثني بہ أوقع بقلبي من کل لذّۃ، وأحلی من کل فائدۃ‘‘ (إرشاد
الأریب: ۹۶/۱۔۹۷)
اور اپنے بچوں کے معلّم و اتالیق سے کہتے:
’’روّھم الشعر روّھم الشعر، یمجدوا وینجدوا‘‘ (العقد الفرید: ۱۲۴/۶)
عربی ادب کا ذوق،اس کی طرف اس قدر توجہ اور اس کی ہر قسم کی خدمتیں جو
ہورہی ہیں، نحوی قواعد پر ، صرفی تعلیلات پر ، معانی و بلاغت کے ادبی نکات
پر، الفاظ کی لغوی تحقیقات پر، غرضیکہ ایک زبان کے جتنے گوشوں کی لغت کے
زاویہ نگاہ سے خدمت ممکن ہوتی ہے۔ عربی میں ان تمام پر ایک دو کتاب نہیں
پورے مکتبے تیار ہوچکے ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، صرف اس ایک
واقعہ سے آپ اس ادبی ذخیرے کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ صاحب بن عباد کو کسی
بادشاہ نے اپنے یہاں طلب کیا، تو انھوں نے یہ معذرت پیش کی کہ میں یہاں سے
منتقل ہوں تو مجھے ساٹھ اونٹ فن لغت کی کتابیں منتقل کرنے کے لیے چاہئیں
(مقدمہ المنجد: ص۱۴)۔
یہ سب سرور دو عالم جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اسلام
کی حفاظت اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت کی خاطر ہورہا ہے کہ :
محمدعربی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے ہے عالمِ عربی‘‘
(مقدمہ توضیح الدراسۃ شرح دیوان الحماسۃ باختصار و تغییر)
|