یہ ٹاک شوز

یہ ٹاک شوز بھی عجیب ہوتے ہیں ۔جذباتی تقریریں ، تلخ لہجے ، جارح بیان بازی ، سب کچھ آپ کو یہاں دیکھنے اور سننے کو مل جائے گا ۔صورت حال وہاں بچگانہ ہو جاتی ہے ، جب دو مہمانان ایک ساتھ بولنا شروع ہوجاتے ہیں ۔پھر کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کہا جا رہا ہے ۔مناظرے یا مباحثے کا اصول ہے کہ ایک وقت میں ایک بولے ، تاکہ سننے والے کو سمجھ آسکے اور موقف بھی واضح ہو سکے ۔کیا ہی اچھا ہو کہ ٹاک شوز کے مہمانان مناظرے کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے ایک ایک کر کے بولیں ۔اکثر ٹاک شوز میں مباحثے کی تمہید شخصیت سے کی جاتی ہے ۔ مخالفین ایک دوسرے کی شخصیت کو خوب نشانہ بناتے ہیں ۔ مقصد اس کا مخالف کو ذک پہنچانا ہوتا ہے ۔یاد رکھیے کہ جو دلائل سے ہٹ کر شخصیت پر آجائے ، سمجھ لیجیے کہ اس کے پاس دلائل نہیں ہیں ۔ احسن طریقہ یہ ہے کہ مخالف کی شخصیت کا احترام کرتے ہوئے اس کی باتوں کا دلائل کے ذریعے توڑ پیش کیا جائے ۔ایک ٹاک شومیں میں نے مہمانان کو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔مہمانان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیےکہ ان کے اس طرح کھلم کھلا گالیں دینے سے ان کے چاہنے والوں پر برے اثرات مرتب ہوں گے ۔اگر وہ گالیاں دیں گے تو ان کی اپنی شخصیت ہی داغ دار ہوگی اور ایک ہی لمحے میں وہ ہیرو سے زیرو بن سکتے ہیں۔ پڑھا لکھا آدمی اپنی باتوں ، اخلاق اور رویے سے پہچانا جاتا ہے ۔

شاید یہی وجوہات ہیں کہ حد سے زیادہ سنجیدہ شخصیات ٹاک شوز میں آنے سے کتراتی ہیں ۔ پاکستان میں بہت سے ایسے قابل لوگ موجود ہیں ، جو ٹاک شوز میں شرکت نہیں کرتے ، کیوں کہ اپنی شرافت کی وجہ سے وہ ان ٹاک شوز کی "بے باکیوں " کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔

آج سے دس پندرہ سال قبل ، جب اتنے سارے چینلز نہیں تھے ، پروگرام دیکھنے کے قابل ہوا کرتے تھے ۔ آنے والے مہمانان نظریاتی اختلاف کو شخصی اختلاف ہر گز نہیں بناتے تھے ۔آج مگر اس کے بر عکس ہو رہا ہے ۔اس وقت میڈیا اتنا جارح نہیں تھا ، جتنا آج ہے ۔ آزادی ِ صحافت کا فائدہ بہت ہوا ، نقصان مگر یہ ہوا کہ میڈیا تلخ ہو گیا۔ ایسے ایسے ٹاک شوز معرض ِ وجود میں آئے ، جن میں ایشو سے زیادہ شخصیات موضوع ِ بحث بنتی ہیں ۔ کچھ تدارک اس کا بھی ہو نا چاہیے ۔

دوسری طرف اینکر حضرات پر بھی بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ وہ ایسے سوالات نہ کریں ، جس سے تلخیاں بڑھیں ۔میں نے بار ہا دو مخالفین کے درمیان ہونے والی گر ما گرم اور الزامات سے بھر پور "تقریر " پر اینکر پرسن کو لطف اندوز ہوتے دیکھا ہے ۔آزادی ِ صحافت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپس کی رنجشوں کو سر ِ عام مشتہر کیا جائے ۔ میڈیا کا کردار تعمیری ہونا چاہیے ۔اگر مہمانان شخصیات پر اتر آئیں تو میزبان کا فرض بنتا ہے کہ انھیں روکے ۔ اسی طرح درمیان میں بولنے والے کو بھی روکنا میزبان کے لیے ضروری ہے ۔

Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159147 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More