یہ عمومی معاملہ ہے جس کا ذکر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس
سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔سب لوگ اس ضمرے میں نہیں آتے۔ہم دنیا میں ترقی
کرنے کے لئے اپنی اولاد کو پڑھا لکھا کر اس قابل بنانا چاہتے ہیں کہ وہ دو
وقت کی روٹی عزت کے ساتھ کھاسکے۔اور دنیا میں ترقی کی منزل تہ کرتا جائے ۔اسی
لئے بچہ جب اس قابل ہوتا ہے کہ اب اس کو اسکول داخل کرایا جائے تو ہر
والدین اپنے بچے کو اچھے سے اچھے اسکول میں داخل کرانا چاہتے ہیں تاکہ وہ
پڑھ لکھ کر اس قابل ہو جائے کہ اس کو اچھی جاب مل سکے۔اپنے پیٹ پر پتھر
باندھ کر یا اپنا پیٹ کاٹ کر یعنی اگر غریب والدین ہیں تو اپنے کھانے پینے
میں کمی کر کے اپنی اولاد کی پڑھائی کا خرچہ پورا کرتے ہیں۔اگر بچہ اسکول
سے خوا مخواہ چھٹی کرے تو ہم اسے ڈانٹتے ہیں ،برا بھلا کہتے ہیں کہ تو نکما
رہ جائے گا دنیا تھوکے گی کہ کتنی نالائق اولاد ہے ۔کوئی اس کو رشتہ بھی
نہیں دے گا۔لڑکی کے بارے میں تو خاص طور پر یہ جملے ادا کئے جاتے ہیں۔ساری
تگ و دو ہم آپ دنیا کی زندگی بہتر بنانے میں لگا دیتے ہیں۔کبھی ہم نے یہ
بھی سوچا کہ بچہ وہ کام نہ کرے جس سے اس کی عاقبت خراب ہونے لگے۔ایک دن بچہ
بغیر وجہ کے اسکول ،کالج یا اپنی جاب سے چھٹی کر لے تو ہم اس پر کتنا ناراض
ہوتے ہیں لیکن وہ بلا وجہ نمازیں ترک کرتا رہے ہمارے کانوں پر جو ں تک نہیں
رینگتی۔بلکہ اگر کوئی بچہ کسی استاد یا کسی مولوی صاحب کے کہنے پر نمازیں
پڑھنے لگے تو عمو ماً ہم اسے کہتے ہیں کہ کیا تو ابھی سے مولوی بنتا جارہا
ہے ؟اگر بچے نے کہیں داڑھی رکھ لی تو وہ دنیا کا رہ ہی نہیں جاتا۔والدین
سخت پریشان ہو جاتے ہیں کہ اس کو کیا ہو گیا ہے۔اس طرح کی سوچ ہماری کیوں
بن گئی ہے ؟کیا ہمیں دنیا میں اسی لئے بھیجا گیا ہے کہ ہم اپنی دنیا بنانے
کی فکر میں لگے رہیں اور اپنی آخرت کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔اگر تھوڑا
وقت نکال کر ہم قرآن و حدیث کا مطالع کر لیا کریں تو ہم اپنے دین سے اتنے
لا پرواہ نہ ہو جائیں۔اﷲ تو اپنی پاک کتاب میں انسانوں کی تخلیق کا مقصد یہ
بتا تا ہے کہ تمہیں اس لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے کہ تم اچھائی کا حکم دو
اور برائی سے روکو۔یعنی اﷲ کے ہر بندے کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو
برائی سے روکے اور نیکی کی تلقین کرے۔انسان کا اس دنیا میں آنے کا اصل مقصد
یہی ہے اور اسی کام کو ہم بھول چکے ہیں۔ہمارے پاس وقت ہی نہیں کہ ہم قرآن
مجید کو سمجھنے کے لئے کسی کی رہنمائی حاصل کرسکیں یا خود ہی تھوڑا بہت
ٹائم نکال کر ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ قرآن پڑھ لیا کریں اور احا دیث کا
کچھ مطالعہ کر لیا کریں۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج کوئی اچھے نہ
نکلیں گے۔پھر ہماری معیشت سودی ہو ہمیں پرواہ نہیں ،ہماری معاشرت جتنی مرضی
بگاڑ کی طرف جائے ہمین فکر ہی نہیں ہوگی۔ہماری سیاست پر
چور،ڈاکو،لٹیرے،سرمایہ دار،جاگیر دار وڈیرے اور لادین عناصر قابض رہیں ہم
ٹس سے مس نہ ہونگے۔اور اس کا آخری انجام ملک پر کافروں کا قبضہ ہوتا ہے۔اﷲ
ایسا وقت نہ لائے(آمین)لیکن یہ کام جو ہر مسلمان کے لئے نہائت ضروری ہے اگر
ہم نے اس کی ذمہ داری نہ سنبھالی تو پھر ہم ایک اﷲ کی غلامی کو چھوڑ کر سب
کی غلامی اپنا لیں گے۔پھر ہم امریکہ کے ساتھ بھارت کے بھی غلام ہونگے اور
یہودیوں کے بھی اور عیسائیوں کے بھی۔قرآن میں اﷲ کا فرمان ہے کہ یہود و
نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ اور ہم انھیں کو اپنا دوست بنا رہے ہیں۔انھیں
سے قرض پر قرض لئے جارہے ہیں۔سود کھارہے ہیں اور پوری مسلم امت کو سود
کھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔جب ہمیں موقعہ دیا جاتا ہے کہ اپنے نمائندے چنو
جو اقتدار میں آکر اچھے کام کریں ۔تو ہم کیسے لوگوں کو اقتدار دلواتے
ہیں؟کیونکہ ہماری سوچ ہی یہ بن گئی ہےکہ ان لوگوں کو حکومت کرنے کا چانس دو
جو قرض پر ملک چلائیں اور قرض سے جان نہ چھڑائیں۔اس طرح کبھی کوئی مخلص لوگ
اقتدار میں آسکیں گے؟ہم ہی ان لوگون کو لیکر آئیں گے اور جب یہ ملک کی
معیشت،معاشرت اور زراعت وغیرہ کا بیڑہ غرق کرنا شروع کر دیں تو ہم ان کو
گالیاں دینا شروع کر دینگے۔ہم جو کام بھول چکے ہیں اس طرف آجائیں ،اپنی
اصلاح کی فکر کریں،اپنے بچوں کو بہتر تربیت دینی شروع کردیں تب جاکر اچھی
سوچ والے لوگ آگے آئیں گے اور ملک کا مستقبل سدھرنا شروع ہو سکے گا۔جب ہم
خود ہی ٹھیک ہونے کی کوشش نہ کریں گے تو ہمیں اﷲ نیک اور مخلص حکمران کیوں
عطا کرے گا؟آئیں ہم اپنے بھولے سبق کی طرف توجہ دیں اس پر عمل شروع کردیں
تو ہمارا مستقبل انشا اﷲ بہت روشن اور کامیاب بن جائے گا ۔اﷲ ہمیں اپنی اور
اپنی اولاد کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے مستقبل کو اسلام کی
فرماروائی اور اﷲ کی زمین پر اﷲ کی حکمرانی کے مطابق بنانے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین۔رزق حلال کمانا بھی نیکی ہے اپنے اہل و عیال کی ضروریات کو
پورا کرنے کے لئے محنت کرنا بھی صدقہ کہلاتا ہے۔اور زیادہ کمانے سے بھی منع
نہیں کیا گیا ہے لیکن دنیا میں انسان کو بھیجے جانے کا اصل مقصد ایک دوسرے
کو حق کی تلقین کرتے رہنا اور برائی سے بچنے کی نصیحت کرتے رہنا ہے۔آج اگر
ہم یہ کام خلوص کے ساتھ کرنے لگیں تو ہماری مساجد نمازیوں سے بھر
جائیں۔1965 کی جنگ میں ہم نے یہ مناظر دیکھے تھے۔اس وقت کے صدر ایوب خان نے
کلمہ طیبہ پورے جوش کے ساتھ پڑھ کر پاکستانی عوام کو اﷲ کے قریب کرنے کا
ولولہ پیدا کر دیا تھا اور اس وقت پاکستان کی مساجد نمازیوں سے بھر گئی
تھیں۔ہمارے گھر والوں سمیت ہزاروں لوگ جو باڈر کے قریب رہتے تھے اپنے گھروں
کو تالا لگائے بغیر محفوظ مقامات کی طرف کوچ کر گئے تھے اور جب کئی دنوں
بعد اپنے گھروں کو واپس آئے تو گھر کی ہر شے اسی طرح پائی جیسی چھوڑ کر گئے
تھے۔یہ ایک بہترین مثال ہے حق کی تلقین کی ۔عوام کبھی دین کی طرف آنے سے
گریز نہیں کریں گے یہ کمی تو ہمارے حکمرانوں میں ہے جو اﷲ کی بجائے دنیا کی
بڑی طاقتوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔آج اسلامی نظام کا صحیح معنوں میں
نفاذ ہونا شروع ہو جائے ملک کا معاشرہ انشا اﷲ خرافات سے پاک ہونا شروع ہو
جائے گا۔
|