اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے ڈرون حملوں کے
بارے میں پاکستان کی قرارداد منظور کرتے ہوئے دنیا کے تمام ملکوں پر زور
دیا ہے کہ وہ بغیر پائلٹ طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین
کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ اقوام متحدہ کی 47 اراکین پر مشتمل انسانی حقوق کونسل
میں پیش کی جانے والی اس قرارداد کے حق میں 27 ممالک نے ووٹ ڈالے جبکہ چھ
نے اس کی مخالفت کی۔ چودہ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔قرارداد کی
مخالفت میں ووٹ ڈالنے والوں میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس شامل
ہیں۔قرارداد کے تحت تمام ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی
بنائیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ڈرون سمیت تما م اختیار کردہ اقدامات
عالمی قوانین کے تحت ہوں۔قراراداد میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی تفتیش کار بین
ایمرسن کی حالیہ رپورٹ کی روشنی میں ڈرون حملوں میں عام لوگوں کی ہلاکتوں
پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔قرارداد میں عالمی ادارے کے حقوقِ انسانی کی
سربراہ نوی پلے سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ڈرون کے استعمال پر ایک تفصیلی
مباحثے کا اہتمام کریں اور ستمبر میں اقوامِ متحدہ کو اس کی تفصیلات سے
آگاہ کریں۔قرارداد کی مخالفت کرنے والے ممالک موقف اختیار کیا کہ اقوامِ
متحدہ کی حقوقِ انسانی کی کونسل کے ایجنڈے پر ہتھیاروں کے نظام جیسے
معاملات نہیں ہونے چاہیں۔
اقوام متحدہ میں ڈرون حملوں کے عالمی قوانین کے تناظر میں استعمال کے حوالے
سے یہ قرار داد انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے صرف پاکستان کا مفاد ہی
وابستہ نہیں بلکہ دنیا میں امن کے قیام کے سلسلے میں یہ مستقبل میں کلیدی
کردار ادا کرے گی۔ اس سے ان تمام ممالک جو زور اور طاقت کے بل بوتے پر
کمزور ممالک کے خلاف جارحیت کرتے ہیں کو لگام ڈالنے میں مدد ملے گی۔ امریکہ
اس وقت دنیا میں ڈرون ٹیکنالوجی کو سب سے زیادہ استعمال کر رہا ہے اور جن
ملکوں میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون استعمال کیے جا رہے ہیں ان میں
پاکستان، صومالیہ، افغانستان اور یمن شامل ہیں۔امریکہ القاعدہ اور طالبان
شدت پسندوں کے خلاف ڈرون کے استعمال کو اس لیے بہت اہمیت دیتا ہے کہ ڈرون
کا نشانہ عین نشانے پر لگتا ہے۔پاکستان کا موقف ہے کہ ڈرون حملوں میں عام
شہری ہلاک ہوتے ہیں اور ڈرون حملے اس کی جغرافیائی خود مختاری کی خلاف ورزی
ہیں۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کے سفیر ضمیر اکرم کا اس
موقع پر کہنا تھا کہ کہ ان کا مقصد کسی ملک کا نام لے کر اسے شرمندہ کرنا
نہیں بلکہ ان کا موقف اصولی ہے۔جبکہ اس موقع پر امریکی نائب معاون سیکریٹری
کا کہنا تھا کہ امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ اس کی قومی سلامتی کی ضروریات
کے پس منظر میں تمام اقدامات جن میں ڈرون کا استعمال بھی شامل ہے، ملکی اور
عالمی قوانین کے تحت اٹھائے جائیں اور ان میں جس حد تک ہو شفافیت کا عنصر
شامل ہو۔
اس وقت دنیا بھر میں ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال عسکری مقاصد جس میں جاسوسی
اور حملے شامل ہیں بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ عسکری مقاصد کے حصول میں اس
کی کامیابی سے کسی کو بھی انکار نہیں کیونکہ اس میں حملہ آور کے جانی نقصان
کا تصور تک نہیں جبکہ دشمن کے مسلح اور معصوم تمام افراد اس کے غیض و غضب
کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو یہ ایک فریق کے جانی نقصان کو کم
کرتا ہے جبکہ دوسری طرف تباہی وبربادی حد سے تجاوز کرجاتی ہے۔ یہی فرق دنیا
بھر میں اس کی مخالفت کا باعث ہے۔ مثال کے طورپر پاکستان میں بہت سے حلقوں
کا خیال ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردوں کے خلاف موثر ہتھیار ہیں تاہم ساتھ ہی
یہ بڑے پیمانے پر معصوم افراد جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں کی جانیں
بھی لے لیتا ہے۔یہ پہلو اس کے ٹارگٹڈ کارروائی میں افادیت کی بھی نفی
کردیتے ہیں کیونکہ ٹارگٹڈ سے مراد صرف اور صرف مسلح اور عسکری عناصر کے
خلاف کارروائی کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے اور اگر یہ مطلوبہ اہداف سے
ذرا سا بھی منحرف ہوتا ہے تو اس کی افادیت صفر ہوجاتی ہے۔ ڈرون کا استعمال
خفیہ معلومات پرمبنی ہوتا ہے۔ اگرڈرون کو کنٹرول کرنے والوں کو فراہم کردہ
معلومات میں ذرا سا بھی سقم ہوتو کارروائی کے نتائج یکسر مختلف بلکہ مقاصد
کے برعکس برآمد ہوسکتے ہیں اور ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جب ڈرون
مطلوبہ اہداف کے برعکس عام اور معصوم شہریوں کے جان ومال کو تباہ و برباد
کرنے کا باعث بن گئے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں بہت سے ڈرون حملے ایسے
مقامات پر کئے گئے جہاں دہشت گرد یکسر موجود نہ تھے۔ اسی طرح بہت سی
کارروائیوں میں دہشت گردوں کی بجائے معصوم شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔
جن ممالک میں ڈرون حملے کئے جارہے ہیں وہاں کی حکومتوں پر بھی شدید عوامی
دباؤ سامنے آیا۔ اس سے اس ملک کی سالمیت اور خودمختاری سوالیہ نشان بن جاتی
ہے بلکہ وہاں کا ہر شہری خود کو ایک عجیب دباؤ کی کیفیت سے دوچار خیال کرتا
ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان کی حکومتیں مسلسل ان ڈرون
حملوں کے خلاف آوازآٹھاتی رہی ہیں۔
ایک اور اہم بات کہ ڈرون حملوں کے باعث اندرونی سیکورٹی میں عدم استحکام
بھی دیکھا گیا اور یہ صورتحال بھی سامنے آئی جب ڈرون حملے دہشت گردوں کو
مارنے کے لیے نہیں بلکہ قومی پالیسی تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔
پاکستان میں نواز حکومت کے قیام کے بعد جب ملک میں امن لانے کے لیے طالبان
سے مذاکرات کا عمل شروع ہوا تو امریکی ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر حکیم اﷲ
محسود کی ہلاکت کے بعد بات چیت کی تمام کوششیں دم توڑ گئیں اور طالبان نے
امریکی چال کو سمجھے بغیرمذاکرات جاری رکھنے سے انکار کردیا۔ اس طرح حکومت
پاکستان کی اس حوالے سے تمام پالیسیاں اور کاوشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اس
سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ڈرون حملے دراصل صرف ایک فریق کے لیے کئی جہتی اہداف
کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں جبکہ مخالف فریق کے لیے کئی طرح کی ہزیمتوں
کا باعث بنتے ہیں۔ ڈرون کی اسی خطرناک ’’افادیت‘‘ کے پیش نظر بہت سے ممالک
اس ٹیکنالوجی کے حصول میں جتے ہوئے ہیں اور مستقبل میں جب وہ ایک دوسرے کے
خلاف ان کا استعمال مختلف نتائج اور اہداف کے حصول کے لیے کریں گے تو دنیا
اور بھی غیر محفوظ ہوجائے گی۔ اس سے دنیا میں جنگ ایک نیا رخ اختیار کرلے
گی اور تباہی و بربادی اپنی حدوں کو چھورہی ہوگی۔ اس خوفناک منظر نامے میں
پاکستان کی جانب سے پیش کردہ قراردادکی منظوری انتہائی اہمیت کی حامل ہے
اوریہ مستقبل میں اس گھناؤنے ہتھیارکے استعمال کی روک تھام کے سلسلے میں
یقینا ایک سنگ میل کا کردار ادا کرے گی۔
|