میڈیا کا کردار

دنیا ٹیکنالوجی کے لحاظ سے جس سرعت کے ساتھ ترقی کررہی ہے ، اس کی مثال نہیں ملتی۔ خاص طور پر سوشل میڈیا نے ایک انقلاب برپا کررکھا ہے تاہم اس انقلاب کے مثبت پہلو کم اور منفی لامتناہی ہیں۔ دنیا بھر کے اخبارات و جرائد نے بھی ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنے مطبوعہ ایڈیشن میں حسن اور جدت پیدا کی بلکہ قارئین تک خبریں اور تجزیئے فوری پہنچانے کے لیے ان کے ای ایڈیشن بھی شروع کردیئے لیکن الیکٹرانک میڈیا نے جس طرح ہمارے معاشرے کو اپنے حصار میں لیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ میڈیا نے دنیا اتنی چھوٹی کر دی ہے کہ، جغرافیائی فاصلے یا سرحدیں اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہیں اور تمام دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معلومات کا ایک مسلسل بہاؤجاری ہے۔میڈیا سانحات کی مکمل کوریج اور پختہ پا صحافت ہر واقعہ کو تفصیل سے پیش کر رہا ہے ۔سائنسی ترقی نے وار رپورٹنگ میں بھی انقلاب برپاکر دیا ہے اور آج میدان جنگ سے براہ راست نشریات جاری ہیں۔ دور حاضر میں دوسروں کو اپنے نقطہ نظر پرقائل کرنے کا شعبہ اتنی ترقی کرچکاہے کہ آج اسے ایک سائنس کا درجہ حاصل ہوچکاہے۔ ا لفاظ اور اصطلاحات کے اس کھیل کے بہت سے قوائد و ضوابط وضع ہو چکے ہیں ۔ یہ اصو ل ماہرین کے تیار کردہ ہوتے ہیں جن کے پیش نظر ، لوگوں کی توجہ حاصل کرکے انکی سوچوں اوررویوں میں تبدیلی لانا ہے ۔ ہماری دن بھرکی مصروفیات، اخبار بینی، ٹی وی پرخبریں دیکھنا،ریڈیو سننا ،فلم بینی،کتابوں یارسائل کا مطالعہ، جلسہ یاجلوس میں لوگوں کے نعر ے سننا، کوئی مذاکرہ دیکھنا یا اس میں شر کت کرنا،جیسی سرگرمیاں، کسی نہ کسی نفسیاتی چال کے زیرِاثر ہوتی ہیں ،مگر شایدہمیں انکا ادراک نہیں ہوتا ۔آج ہر ملک اپنی بساط اور اپنے وسائل کے مطابق دوسرے ممالک پر اپنی نظریاتی اور اخلاقی برتری ثابت کرنے کی کوششوں میں مسلسل مصروف ہے۔ اس صورتحال میں کیاہمارا میڈیا بھی کچھ کر رہا ہے ؟

گزشتہ ایک دہائی میں پاکستانی میڈیا نے خوب ترقی کی ہے مگرخاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کو بلوغت کی دہلیز تک پہنچنے میں ابھی کچھ وقت درکار ہے۔ پاکستان میں گزشتہ آٹھ، دس سالوں میں کیبل اورانٹر نیٹ نے جس تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے اسی تیزی سے سیاسی ٹاک شوز نے لوگوں پر اثرات مرتب کئے ہیں ۔ اب ائیر ٹائم حاصل کرکے اپنا اپنا راگ الاپا جاتا ہے، پراپیگنڈے ، افواہیں اور اندیشے فروخت کئے جارہے ہیں۔البتہ جب کوئی نشریا تی ادارہ کسی منفعت بخش دوڑ میں اپنی ساکھ (کریڈیبلٹی) کھو دیتا ہے تو اس کے سامعین یا قارئین میں بھی کمی ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں جس انداز سے سیاسی لوگوں کو ٹی وی چینلوں پر آ کر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے ہیں،اس کے اثرات عوام اور خود میڈیا پر کیا مرتب ہو رہے ہیں اس کا اندازہ ملک میں لگی خانہ بربادی سے لگایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف بیرونی قوتیں جن کا بین الاقوامی میڈیاپر اثرونفوذ ہے، وہ پاکستان کی نظریاتی اساس کی دھجیاں بکھیررہی ہیں۔ مگر افسوس ہمارا میڈیا اپنے وجود کے دن سے لے کرآج تک مستقل طور پر مدافعانہ رویہ اختیارکئے ہوئے ہے ۔

بین الاقوامی طور پرمروجہ اصولوں کر رو سے سفارت کاری کے کچھ استحقاق، مراعات ہوتی ہیں جیسے ، عدالتی کارروائیوں ؍امیگریشن اور ٹیکسوں سے استثیٰ یا ڈپلو میٹک بیگ کا استعمال ہوتا ہے۔ تمام ممالک میں سفارتحانے ، حکومت کی اجازت سے اپنی پریس ریلیز کے طور پرشائع ہونے والے رسالے بلامعاوضہ مہیاکرتے ہیں جو ملک میں رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ میڈیا پر پراپیگنڈہ کو اگرچہ کوئی ملک اچھا نہیں سمجھتا اور اس کی روک تھام کے لیے مختلف پاپندیاں عائد کی جاتی ہیں اور بین الاقوامی قوانین بنائے جاتے اور معاہدے کئے جاتے ہیں ۔ اوراس عمل کو انتہائی موثر ہتھیار قرار دیا جاتا ہے مگر تمام ممالک کے سفارت خانے کسی ملک سے متعلق معلومات تو بھجواتے ہی ہیں مگر کچھ طاقتور ممالک کے سفارتخانے تو آگے بڑھ کر باقاعدہ ملکی سیاست ، معیشت اور عسکری معاملات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور منفی ،مثبت یا پراپیگنڈہ بھی کرتے ہیں۔ بھارت نے اسی طرح کے سفارت خانے افغانستان میں بھی بنائے ہیں۔ جو وہاں سے پاکستان کے خلاف مکمل پراپیگنڈا مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق بلوچستان میں کام کرنے والی کئی شدت پسندتنظیموں سے بھی ثابت ہو چکاہے۔ جن میں بی ایل اے سر فہرست ہے۔ لیکن ایک طرف سے سفارت کاری کانفرسیں چل رہی ہوتی ہیں ، ہاتھ ملائے جارہے ہوتے ہیں، اور مسائل کے حل کئے تجویزیں آرہی ہوتی ہیں تو دوسری جانب بیرونی میڈیا کے توسط سے کلائی مڑورنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

Prof Afraz Ahmed
About the Author: Prof Afraz Ahmed Read More Articles by Prof Afraz Ahmed: 31 Articles with 21126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.