ترکی یورپ اور ایشیا کاسنگم
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
جمہوریہ ترکی ایک مضبوط اور
پائیدار اسلامی مملکت ہے، جہاں کے ۵۰ ملین باشندوں میں سے ۹۹ فیصد مسلمان
ہیں، ترکی اپنے ممتاز و منفرد محل و قوع کے اعتبار سے ایک خاص وقعت کا حامل
ہے، کیونکہ اسکی زمین دو براعظموں ایشیا اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہے۔ ۵۰۰۰
قبل مسیح میں یہ مملکت متفرق تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے، خیال کیا
جاتا ہے کہ ان ۷۰۰۰ سالوں کے دوران اس مملکت میں تقریباً ۶ تہذیبوں
وثقافتوں نے جگہ پائی، لیکن ان میں آخری شہنشاہیت خلافتِ عثمانیہ کی تھی جس
کو دنیا کی عظیم شہنشاہیتوں میں شمار کیاجاتا ہے، اسی شہنشاہیت نے حدود
ترکی کو افریقی ممالک تک پہنچا دیا تھا۔ آج ترکی میں اس شہنشاہیت کی اسلامی
ثقافت کے قدیم آثار خلافتِ عثمانیہ کی عظمت رفتہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ہر
مسلم ملک کی طرح ترکی میں بھی کچھ لوگ اسلام کے نام پر حکومتوں سے زور
آزمائی میں مصروف ہیں، جب کہ ترکی کی موجودہ حکومت جو جدید تہذیب سے بری
طرح متاثر ہے۔ اپنی تئیں اپنے محدود اقدامات کو کافی سمجھتی ہے، یہاں قرآن
وحدیث کی تعلیم لازمی ہے۔
رقبہ اور محل وقوع
اس مملکت کا رقبہ زمین ۷۸۰ مربع کلومیٹر ہے، جس کا ۹۷ فیصد ایشیاء اور بقیہ
۳ فیصد یورپ میں واقع ہے، ان دونوں حصوں کو ملانے کے لئے شمال میں شہر
استنبول کے وسط میں خلیج باسفورس ہے، جنوب میں درۂ دانیال جس کا احاطہ
بحیرہ مرمرہ نے کیا ہے جو کہ بحر اسود میں جاگرتا ہے۔
خلیج باسفورس اور خلیج درۂ دانیال کے کناروں پر بحرایجہ ہے جب کہ بحراخیر
بدورہ بحر ابیض متوسط سے جاملتا ہے۔ ترکی مغربی ایشیا اور یورپ کی سرحدوں
پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں بحر اسود ہے جو سویت یونین سے ملا ہوا ہے اس کی
بری سرحد بھی سویت یونین سے متصل ہے۔ اس کے مشرق میں ایران اور سویت یونین
ہے، مغربی جانب یونان وبلغاریہ ہے، جنوب میں عراق و شام ہے۔
اناضول:
یہ ترکی کے مشرقی جانب میں ایک سطح مرتفع ہے جس میں متعدد نالے دجلہ وفرات
تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ترکی بہت سے دریاؤں کے درمیان سے جس میں سب سے بڑا دریا بحیرۂ خان ہے جو کہ
حجم میں بحر مغلق کے تقریباً برابر ہے۔ شمالی جانب میں کچھ پہاڑ بھی ہیں جو
بحر اسود سے ملتے ہیں اور جنوب میں طو روس کے پہاڑ ہیں۔ دریا کے ساحل میں
بہت سے سرسبز وشاداب اور تنگ وادیوں کے نالے اس کی لپیٹ میں ہیں۔
ترکی ٹیلوں والی کشادہ زمین ہے جہاں کے باشندے شمال میں بحر اسود سے تھپکی
دینے والی آب و ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جب کہ انا ضول علاقے کی آب و
ہوا موسم سرما میں یخ وٹھنڈی اور موسم گرما میں گرم و ناخوشگوار ہوتی ہے۔
البتہ دریاؤں کے ساحلوں پر ہوا بڑی لطیف اور معتدل ہوتی ہے۔
آبادی
حال ہی میں جو آخری مردم شماری ہوئی تھی اس میں ترکی کی آبادی ۵۰ ملین تھی،
ان میں ۵۷ فیصد لوگ دیہاتی ہیں، ۴۳ فیصد شہری ہیں، 4.7ملین استنبول میں ہیں،
دارالحکومت انقرہ میں 2.5ملین ہیں ، ازمیر میں 2ملین ہیں، بورصہ میں نصف
ملین ہے جب کہ أدرنہ کے باشندوں کی تعداد ترکی کے شہروں کی چوتھائی ہے۔
بڑے شہر
۱- بحر ایجہ پر اہم شہر ازمیر ہے۔ ۲- بحر مرمرہ پر بڑا شہر استنبول ہے۔ ۳-بحر
ابیض متوسط پر اناطولیا ہے۔ یہ اناضول کا مرکزی شہر ہے۔ ۴- ترکی کا
دارالحکومت انقرہ ہے۔ ۵-بحر اسود پر ترابزون ہے۔ ۶-مشرقی ترکی کا اہم شہر
اردو ریوم ہے۔
زبان
ترکی زبان بعضوں نے ہندیقی یورپی بتائی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ ترکی
زبان لاطینی لکھائی سے ملتی جلتی ہے اور عموماً یہ لاطینیہ، جرمانیہ،
سلجوقیہ، یونا نیہ اور سلاقیہ سے مشابہت رکھتی ہے ۔ ترکی کی بولی بولنے
والے ۸۰ ملین لوگ جنوبی ترکی روس ایشیاء اور بلقان میں رہتے ہیں۔
صنعت و زراعت
آب و ہوا کے اختلاف کی وجہ سے زرعی پیداوار بھی مختلف ہے۔ ترکی کی معیشت
میں زراعت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہاں کی سرسبز وشاداب زمین اپنے
پھیلاؤ کی وجہ سے قسم قسم کی زرعی پیداوار پیش کرتی ہے۔ ان میں اہم گندم،
روئی اور خشک تمباکو ہیں جب کہ پٹ سن ، مونگ پھلی اور پستہ اور دوسرے خشک
میوہ جات کی مقدار بھی کافی ہے۔ ترکی انجیر، کشمش اور انگور کو خشک کرنے
میں بھی مشہور ہے۔ اس پیداوار کی وجہ سے زرعی میدان میں بڑی ترقی ہوئی ہے،
ترکی الانیہ کا کیلا دنیا بھر میں بہترین کیلا سمجھاجاتا ہے۔
حیوانوں کی دولت سے بھی ترکی مالامال اور دوسرے ممالک سے بے نیاز ہے۔ ۳۷
ملین کے قریب تو یہاں صرف بکریاں ہیں۔ اور بکریوں کے علاوہ بھی بہت سے قسم
کے بہت سے جانور ہیں۔ اس حوالے سے ترکی کو یورپی ممالک میں مرکزیت حاصل ہے،
یہاں اون کی پیداوار بھی خاصی ہے۔ دوسری صنعتوں میں بھی بہت اضافہ ہورہا ہے۔
اہم اور عام صنعت،غذائی صنعت ہے اور اس کے علاوہ میوہ خشک کرنا، بُنائی
کاکام کرنا، مختلف اشیاء کو منجمد کرنا، گاڑیاں بنانا، صنعتی آلات بنانا،
کان کنی وغیرہ میں سونے اور کوئلے کے استخراج کا عمل بھی شروع ہے۔ اسی
دوران لوہا اور تانبا بھی بڑے پیمانے پر نکالا گیا ہے۔ ماچس اور بسکٹ کی
صنعت میں بھی ترکی بہت آگے ہے۔
ترک حکومت نے سیروسیاحت کے علاقے کو بھی وسیع کیا ہے۔ جہاں بڑی مقدار میں
عجائب گھر اور رومیوں وعثمانیوں کے وقت کے قدیم محلات موجود ہیں۔
تاریخی پس منظر
اس خطۂ ارض میں عصر قدیم سے مختلف حکومتیں اور ثقافتیں یکے بعد دیگرے چلی
آرہی ہیں۔ ان میں قابل ذکر اور مشہور آشوری، منیتانی، برجی ھیلسنتک، اسکندر
رومی اور سب سے اخیر میں دولت عثمانیہ کی مضبوط اور قوی شہنشاہیت رہی ہے۔
۱۵۰۰ ق۔ م میں جاتاک ہویداک قائم ہوا۔ ۳۰۰۰ ق۔ م وہ پہلا مرحلہ اور دور ہے
جس میں ترکی الگ ومستقل مملکت بن گئی۔ ۲۰۳۴ ق م میں اسکندر اعظم نے ترکی پر
لشکر کشی کی اور انا ضول کے علاقوں میں کچھ قیام کیا۔ ۳۰ قبل از مسیح سے
۱۰۷۱ء تک اس پر قسطنطنوی حکومت کرتے رہے پھر صلیبی حملے شروع ہوئے تو
سلجوقیوں نے ۱۰۷۹ء میں قسطنطیینوں کو شکست دے کر ملک کو اپنے ہاتھوں میں لے
لیا۔ پھر ۱۳۰۱ء میں دولت عثمانیہ نے ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے بورصہ کو
دارالحکومت بنادیا۔ ۱۴۵۳ھ میں جب محمد الفاتح العثمانی نے قسطنطنیہ کو فتح
کرکے اسے دارالحکومت بنادیا اس وقت سے اس کو استنبول کہا جانے لگا۔
۱۹۱۸ء کی عالمی جنگ میں ترکی بھی شامل ہوگیا حتی کہ ۱۹۲۰ء میں اتاترک
برسراقتدار آگیا۔جمہوریت قائم کرکے اس کا پہلا صدر بنا۔ اسی نے انقرہ کو
دارالحکومت بنادیا۔ ترکی ۱۹۳۸ء کی عالمی جنگ میں کنارہ کش رہا۔
موجودہ استنبول اپنی تاریخ کے آئینے میں
استنبول ایک ایسا شہر ہے کہ جو دو براعظموں، ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع
ہونے کی وجہ سے دونوں براعظموں میں یگانگت کا ذریعہ ہے۔ یہ شہر تین حصوں
میں منقسم ہے ایک حصہ تو مشرقی جانب اناضول پر ہے اور بقیہ دو حصے یورپ میں
واقع ہیں۔ تینوں حصوں کو خلیج باسفورس آپس میں ملاتا ہے۔ اس خلیج کی لمبائی
پانچ میل ہے۔ خلیج کے شمال میں بڑے بڑے بازار اور مارکیٹیں ہیں جس میں
اوغلو تجارتی منڈی بھی ہے۔ اس کے جنوبی سمت میں بایزید ٹاؤن ہے جس کو مدینہ
قدیمہ بھی کہتے ہیں اس کے مشرقی جانب میں بڑی مارکیٹ المعلیٰ ہے۔ یہ شہر
بڑے محلات ، مساجد وآثار قدیمہ پر مشتمل ہے۔ استنبول انقرہ سے ۴۳۸، ازمیر
سے ۶۰۳ اور بورصہ سے ۲۲۹ اور ادرنہ سے ۹۲۴ کلومیٹر دور ہے۔
اس کی قدیم تاریخ ۲۶۰۰ سے چلی آرہی ہے جب ۶۶۷ قبل از مسیح میں اس کی تعمیر
مکمل ہوئی تو قسطنطنیوس نے اس کا نام قسطنطنیہ رکھ دیا تھا۔ پھر پارسیوں
(ایرانیوں) نے حملہ کرکے اسی کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ پھر تیسری صدی میں
یہ رومیوں کے جھنڈے تلے آیا۔ پھر شاہ قسطنطنیہ نے اسکو اپنا مرکزی شہر
بنانے کی کوشش کی۔ اس وقت اس کا نام قسطنطینوپولس رکھا گیا۔ ۲۹ق م کی تقسیم
میں اس کا مشرقی جانب رومیوں کا دارالحکومت بنا اور اس حصے کانام بینر نتیہ
میٹرو پولس رکھ دیا گیا۔ اینز بیزانتیہ اس وقت رومیوں کا نوجوان سربراہ
تھا۔ ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں یہ فتوحاتِ اسلامیہ کے تحت آگیا۔ اس
سے قبل اس علاقے پرصلیبی قبضہ رہا۔ ۱۴۰۳ء میں رومیوں نے پھر حملہ کیا اور
۱۲۱۲ء میں اسے فتح کرلیا۔ چودھویں صدی عیسوی سے قبل استنبول پر پے درپے
مختلف قوموں نے حملے کئے۔ ہر مملکت اسے اپنا دارالخلافہ بنانا چاہتی تھی
یہاں تک کہ دولتِ عثمانیہ کے عروج کا وقت آگیا اور محمد الفاتح نے اس کا ۶۳
دن محاصرہ کیا اور ۱۲۵۳ء میں استنبول میں داخل ہوگیا۔ اس کے بعد سے اس
علاقے کانام تبدیل ہوتا رہا ہے۔ اسلامبول ، قسطنطنیہ، استانبول،
دارالسعادہ، استنبول۔ استنبول پہلی جنگ عظیم تک دولت عثمانیہ کا دارالحکومت
رہا۔ پھر ۱۹۲۳ء میں مستقل جمہوری نظام کے وقت سے انقرہ دارالحکومت بنا اور
اب تک ہے۔
استنبول ترکی کے تمام شہروں میں قدیم ترین اور خوبصورت شہر ہے۔ یہ آثار
قدیمہ اور عجائب گھروں کی وجہ سے بھی ممتاز ہے۔ اس شہر میں دولت عثمانیہ کے
ابتدائی دور کی مساجد بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مدینۃ القباب بھی
کہاجاتاہے۔ ان مساجد میں مسجد سلطان (مسجد ازرق) بہت مشہور ہے۔ اس کو ۱۶۱۶ء
میں سلطان احمد نے تعمیر کرایا تھا۔ اب ارد گرد کے کچھ علاقے بھی اس میں
شامل ہوگئے ہیں۔ دوسری مشہور مسجد، مسجد سلیمانیہ ہے جو سلطان سلیمان
القانونی نے ۱۵۴۹ء میں بنوائی۔ ۱۵۵۷ء میں اس مسجد میں دینی مدرسہ قائم ہوا۔
اسی مسجد کے ساتھ ایک لائبریری ’’عامرہ‘‘بھی ہے۔ مسجد ابوایوبؓ انصاری بھی
مشہور مسجد ہے۔ جہاں انہوں نے اسلام کے پرچم تلے جان جانِ آفریں کے سپرد کی
تھی۔ سلطان محمد الفاتح نے استنبول کی فتح کے فوراً بعد اس کی تعمیر کا حکم
دیا تھا۔ ایک اور مشہور مسجد، مسجد بایزید ہے ان کے علاوہ مسجد سلطان سلیم،
مسجد محمد الفاتح، مسجد رستم بات، مسجد العرب ، مسجد آیا صوفیا اور مسجد،
الجدید بھی اسلامی عظمت کی یاد دلاتی ہے۔
ترکی کے مشہور عجائب خانے توپ کاپی کی تعمیر سلطان محمد الفاتح کے زمانے
میں مکمل ہوگئی تھی۔ یہ عجائب خانہ سلاطین عثمانیہ کامحل تھا۔ اس محل میں
اب تک حیران کن تحفے و عہد نامے موجود ہیں۔ گویا توپ کاپی کا عجائب گھر ایک
دستاویزی صندوق ہے۔ کہتے ہیں کہ اس میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
کاپرچم، جبہ، لاٹھی، تلوار اور عقیق کی مہر موجود ہے۔ اسی طرح داڑھی مبارک
کے ایک بال کی نسبت آپ کی طرف کی جاتی ہے۔ خلفاء راشدین کی تلواروں کی
موجودگی بھی یہیں سمجھی جاتی ہے۔ ایک اور مشہور عجائب گھرآیا صوفیہ ہے جو
پہلے کنیسہ تھا۔ ۱۵۷۷ء میں محمد الفاتح نے اس کی تصویروں کو ختم کرکے اس
کومسجد قرار دے دیا تھا۔ عجائب گھر اس کے ساتھ ہی بناہواہے۔ یہاں لائبریری
بھی بنی ہوئی ہے جس میں نادر خطوط وکتابیں ہیں۔ اسی شہر میں مشہور قلعہ روم
ایلی حصار ہے۔ اسے ۱۴۵۳ء میں محمد الفاتح نے بنایا تھا۔ یہ محفوظ و مضبوط
قلعہ مغربی جانب میں بحرباسفورس تک پھیلا ہوا ہے۔ اس قلعے کو سہارا دینے کے
لئے اب تک کوئی ستون پہلی تعمیر کے بعد نہیں بنانا پڑا۔ یہاں آج کل ثقافتی
نمائش وغیرہ ہوتی ہے۔ جس میں خلافتِ عثمانیہ کے فوجیوں کے ملبوسات کی نمائش
بھی ہوتی ہے۔
(الفاروق اردو، ربیع الثانی ۱۴۰۹ھ)
|
|