وہ ہیتھرو ائیرپورٹ لندن کے کو ریڈور سے باہر آنے والے
مسافروں کے چہروں پر چھائی اجنبیت اور تھکن کے ملے جلے احساسات کا بغور
مطالعہ کرتی ۔ایک پرتپاک مسکراہٹ کے ساتھ ان کا استقبال کرتی اور ٹوتی
پھوٹی انگریزی میں ان سے ہمکلام ہوتی کہcan i halp you ۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ میڈیا سائنسز کے چیئرمین
پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال اسلام آباد کے ایک چارستارہ ہوٹل میں\"علم و آگاہی
\" تربیتی ورکشاپ میں تعلیمی اصلاحات اورپالیسی سازی میں میڈیاکے کردارکے
کردار کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے وہ اپنے تجربات بتا رہے تھے کہ ڈیرہ
اسماعیل خان کے پرائمری سکول سے اپنے سفر کا آغاز کرنیوالابچہ جب ہیتھرو
ائیرپورٹ لندن کے کو ریڈور سے باہر نکلا تو اسکے ایک ہاتھ میں بیگ تھا اور
دوسرے ہاتھ میں وہ وزٹنگ کارڈ تھا جس پر اسکی منزل اور میزبان کا پتہ درج
تھالیکن اس کا ذہن تو شایدسمتوں کی پہچان بھی بھول چکا تھاکہ اچانک وہ لڑکی
سامنے آئی اور اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھ سے پوچھا what can i help
you تو میں نے بغیر سوچے سمجھے اپنی منزل کا کارڈ اس کے حوالے کر دیااس نے
پرجوش انداز میں کارڈ پر درج شدہ ایڈریس کو دیکھا اور مجھے قریب ہی ٹرمینل
پر کھڑی ایک گاڑی کے پاس لے گئی اورگاڑی کے ڈرائیور کو میری منزل کا پتہ
بتا کراسے تاکید کی مجھے مذکورہ پتہ پر اتار کر گھر کی نشاندہی بھی کردے۔
لڑکی کا خدمت کرنے کا شوق اور راہنمائی کرنے کا انداز دیکھ کر میں نے پوچھا
کہ کیا اسے ایئرپورٹ انتطامیہ کی طرف سے دور دیسوں سے آنے والے مسافروں کی
مدد کے لیے یہاں تعنیات کیا گیاہے تو اس لڑکی نے جواب دیا کہ میں یہاں
ملازمت وغیرہ نہیں کرتی میرا تعلق جرمنی سے ہے اور میں پچھلے چند مہینوں سے
تعلیم کے سلسلے میں انگلینڈ میں ہوں قریب ہی میراکالج ہے اورمیری کلاس
سپروائزر نے مجھے یہ عملی اسائنمنٹ دی ہے کہ انسانیت کی خدمت کس طرح کی
جاتی ہے اور دور دیسوں سے آنے والے مسافروں کی پریشانیوں کو آسانیوں میں
کیسے تبدیل کیا جاتاہے-
پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کہتے ہیں کہ چونکہ میں استاد ہوں اور میں تعلیم
اور تعلم کے شعبہ کی مشکلات اور presenatation اور assignmnet کے دوران
طلباء کی لرزشوں اور لغرشوں سے بخوبی واقف تھا اس لیے میں نے اس لڑکی کہا
کہ آپ گھر بیٹھ کر بھی یہ assinmnte sheet مکمل کر کے کالج جمع کروا دیتیں
آپ کو ایئر پورٹ پر آکر صبح سے شام تک یہ مشقت کاٹنے کی کیا ضروت تھی تو وہ
لڑکی ایک دم چونک کر بولی سرhow is it possibleایسا تو ممکن ہی نہیں
ہے۔اتنے میں گاڑی چلنے لگی اس لڑکی نے مجھے سلام کیا اور کسی دوسرے مسافر
کی خدمت کے لیے دوڑ گئی اور میں گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ
ہوگیا گاڑی میں ہر رنگ اور نسل کے لوگ سوار تھے ڈرائیور ہر مسافر کو اسکی
منزل پر اتارتا اور اگلی منزل کے لیے رواں ہوجاتا۔
گاڑی لندن کی منظم سڑکوں پر رواں دواں تھی اور میں اپنے ملک کے تعلیمی نظام
کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کیسے ہمارے ملک میں تعلیم اور تربیت کے دوران
فاصلے بڑھتے جارہے ہیں اور ہم معاشی پسماندگی، معاشرتی بے اعتنائی ،اور
اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتے جارہے ہیں ان کے لفظوں میں جان اور ان کے لہجے
میں درد اور خلوص تھا مگر امید کے دیے ان کی آنکھوں میں مسلسل جگمگا رہے
تھے وہ اپنے تجربات کی روشنی میں بتا رہے تھے کہ کس طرح ہماری نصابی کتب
ہمارے رویوں میں تبدیلی لانے سے قاصر ہیں کس طرح ہمارا نظامِ تعلیم
اورہماری درسگاہیں پاک سر زمین میں کوئی بڑی تبدیلی لانے سے معذور ہیں اور
کس طرح ہمارے صحافتی حلقے معاشرے میں شدت پسندی اور سنسنی خیزی کے فروغ میں
اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان ہواؤں سے تو بارود کی بو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائے گے سارے بچے۔
وہ نصابی کتب کا طلباء کے رویوں میں ممکنہ تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی نصابی کتب کا تقابلی
جائزہ پیش کر رہے تھے کہ ہمارا تعلیمی نظام برداشت،انسانیت،تحمل و
بردباری،مساوات،انصاف،ایمانداری اور ہمدردی جیسی اخلاقی اقدار کو فروغ دینے
اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کرنے میں ناکام رہاہے۔ہم بچے کو جھوٹ اور
چوری سے نفرت کی تعلیم دیتے ہیں اور اسے جھوٹے اور چور کی عزت کرنے کی
تربیت دیتے ہیں ایسے تعلیمی نظام سے جنم لیتی ہیں اداس نسلیں اور اتنے
دوہرے معیاروں سے پیداہوتے ہیں بنیاد پرست اور شدت پسند ۔
پلے گروپ سے لیکر یونیورسٹی تک ایک بچے کو مختلف زبانیں سیکھنے پر مجبور
کیا جاتاہے وہ گھر میں پنجابی بولنا سیکھتاہے مسجد یا مدرسہ میں عربی اور
فارسی کی گردانیں یاد کرتاہے سکول میں اردو بولنا واجب ہوتاہے جبکہ انگریزی
بطورِلازمی مضمون پڑھایاجاتاہے کالجز میں جدت اور جدیدیت کے نام پر ثقافتی
یلغار کی جاتی ہے جبکہ یونیورسٹیز میں رومانس کے سٹال لگائے جاتے ہیں
زبانوں کے اس جھمبیلے اور محبتوں کے قضیے میں ایک طالب علم کے پاس اتنا وقت
کہا ہوتا ہے کہ وہ معاشیات،اخلاقیات،سائنس اور سب سے بڑھ کر انسانیات جیسے
مضامین کی طرف توجہ دے تاکہ ہم ایک صحت مند معاشرے کے باوقار اور با ضمیر
انسان بن سکیں ۔بقولِ بیدل حیدری
کیا بھروسہ ہے سمندر کا خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں میرے سارے بچے۔ |