دوسری شادی اور اسلامی نظریاتی کونسل

دوسری شادی جیسے اہم موضوع پر میں تین کالم لکھ چکا ہوں۔ آج کوشیش کروں گا کہ اس عنوان کا اختتام کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں اٹھنے والے تمام سوالات کے جوابات بھی دوں۔ جن احباب نے گذشتہ ٣ کالم نہیں پڑھے انکی خدمت میں گذارش ہے کہ ایک بار دیکھ لیں تاکہ ربط بھی قائم ہو جائے اور مدعا بھی سمجھ آجائے۔
گذشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ قرآن حکیم نے مشروط دوسری شادی کی اجازت دی ہے جن میں سے ایک شرط پر میں سیر حاصل بحث کر چکا ہوں، آج دوسری شرط کا ذکر کروں گا۔

تعداد ازواج پر دوسری شرط عائد کرتے ہوئے قرآن میں خالق کاائنات ارشاد فرماتا ہے۔
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ( النساء ٣ ) اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کافی ہے۔ عدل کی شرط بہت زیادہ کڑی وسخت ہے کیونکہ ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل کرنا اور اسطرح مساویانہ سلوک کرنا جیسا آقا کریم صلی الله علیہ وسلم نے کیا بہت مشکل ہے۔

کیونکہ کس انسان کے سینے میں الله نے دو دل نہیں رکھے، ہر انسان کے سینے میں ایک ہی دل ہے اور ایک دل میں جیسی ایک کی محبت والفت ہوتی ہے دوسرے کی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد ربانی ہے۔

وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ( النساء ١٢٩ ) اور تم خوا کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا ادھر ہوا میں لٹک رہی ہے اور اگر آپس میں موافقت کرلو اور پرہیزگاری کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔۔
يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا
خدا چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے

یہاں یہ کہا جا رہا ہےکہ شای کرنے سے پہلے سوچ لو کہ ازواج کے مابین عدل کر بھی سکو گئے یا نہیں یہ بات پہلے سوچ لینے کی ہے۔ یہ نہیں کہ پہلے شادیاں رچا لے اور پھر دیکھے کہ عدل ہو سکتا ہے یا نہیں اسے قطعا یہ اجازت نہیں کہ معصوم عورتوں پر ڈاکے ڈالتا پھرے اور انکی زندگیاں برباد و ویران کرتا پھرے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں غالب اکثریت مولانا مودودی کے افکار و نظریات سے ہم آہنگ علماء کی ہے۔ تو اس لئیے آئیے دیکھتے ہیں مودودی صاحب اس بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ جو شخص دو یا زائد بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرتا اور ایک کی طرف جھک کر دوسری کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرتا ہے ، وہ ظالم ہے تعداد ازواج سے فائدہ اٹھانے کا اسے کوئی حق نہیں قانون کو ایسی حالت میں اسے صرف ایک بیوی رکھنے پر مجبور کرنا چاہئے اور دوسری بیوی یا بیویوں کو اسکے خلاف قانون سے دادرسی کا حق ہونا چاہئیے۔ ( حق الزوجین ایڈیشن ٢٠ ص ٤١ )۔ آپ نے دیکھا پہلے غلط استدلال کر کے شادیوں کی کھلی چھٹی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دوسری شادی کے لئیے پہلی بیوی سے اجازت کی بھی ضرورت نہیں مگر اب ملاں مودودی صاحب قانون کو پکار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ‘‘ قانون کو اسے صرف ایک بیوی رکھنے پر مجبور کرنا چاہئیے‘‘ گویا باقی بیویوں کو طلاق دے کر انکے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا چسپاں کر دے مولانا موودی و اسلامی نظریاتی کونسل والوں کو کون سمجھائے کہ قانون باالعموم اور اسلا می قانون باالخصوص تو پہلے جرم کے امکانات کو روکتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ جرم ہونے ہی نہ دیا جائے۔ یہ نہیں کہ پہلے مجرم کو کھلی چھٹی دی جائے کہ وہ شتر بے مہار کیطرح جرم کرتا پھرے اور جب جرم کرچکے تو پھر قانون کو آواز دی جائے کہ اے قانون آ اس شخص کو صرف ایک بیوی تک محدود کر کےباقی کو طلاق دلوا کیونکہ یہ انکے درمیان عدل نہیں کر رہا ۔

قرآن اسکے دوسری شادی کرنے سے پہلے اسے کہتا ہے کہ وہ سوچ لے کہ وہ انصاف کر سکے گا یا نہیں بلاشبہ یہ فیصلہ کرنا اسکا ذاتی کام ہے لیکن کیوں نہ ایسا قانون ہو کہ اسکے حالات پہلے سے جانچ لیئے جائیں۔ جب بعد میں قانون کو بلانا ہے تو پہلے سے پیش بندی کیوں نہ کر لی جائے۔پاکستان کے پینل کوڈ میں عائلی قانون موجود ہے اسے مذید فعال اور سخت کرنے کی اشد ضرورت ہے نہ کہ سرے سے ختم کرنے کی۔
یہاں وعلامہ عبدالله یوسف علی کی عبارت کا ترجمہ درج کرکے مضمون آگے بڑھاتا ہوں۔

زمانہ جاہلیت کی تعداد ازدواج کو کم کرکے قرآن زیادہ سے زیادہ چار بیویوں کی اجازت دیتا ہے مگر وہ بھی عدل وانصاف کی شرط پر چونکہ یہ شرط پوری کرنا انتہائی دشوار ہے اسلئیے میرے مطابق قرآن صرف ایک بیوی کی سفارش کرتا ہے۔ (دی اسپرٹ آف اسلام ص ٢٣٠)۔

کیونکہ شرائط کڑی اور مشکل تھیں لہذا وحدت زوج کو ترجیح دیتے ہوئے قرآن نے کہا۔ ذالک ادنی الا تعولوا یہ قرین مصلحت ہے ایک بیوی رکھنا۔ امام شافعی نے الا تعولوا کے یہ معنی کیے ہیں کہ تمھارے عیال زیادہ نہ ہو جائیں جن کی پرورش کا بوجھ تم پر پڑ جائے۔ لہذا بیوی ایک ہی اچھی کیونکہ يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا
خدا چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے۔

اگر امام شافعی کی تفسیر لیتے ہیں تو بات یوں بنتی ہے ، اور ایک بیوی کا رکھنا زیادہ قرین مصلحت ہے کیونکہ اس سے زیادہ عیال داری کا تم پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ اسطرح زرا سوچئیے جس آیت کو علماء تعداد ازواج کے جواز میں پیش کرتے ہیں اسی سے تو وحدت زوج کی ترجیح کا ثبوت ملتا ہے۔

بعض نے اس آیت سے یہ اشارہ اخذ کیا ہے کہ اس سے تحدید ازواج اور ایک بیوی تک محدود رہنا ثابت ہے (تفسیر روح المعانی جلد ٤ صفحہ ١٧٥ ) ۔۔ امام احمد بن حنبل بھی ایک بیوی پر قناعت کا فیصلہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں، صرف ایک عورت سے شادی کرنا مستحب ہے پس۔ بیویاں زیادہ نہ ہوں کیونکہ ایک سے زیادہ کی صورت میں عدل سے ہٹ جانے کا خطرہ ہے جس سے حرام فعل کا ارتکاب ہوتا ہے۔ ( الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج ٤ ص ١٠ ) اب آئیے امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک بیان کرتا ہوں آپ نے فرمایا مجھے رسولاالله صلی الله علیہ وسلم کے صحابی حضرت جابر بن عبدالله سے یہ روایت پہنچی ہے کہ ایک بیوی والا سرور میں رہتا ہے اور دو بیویوں والا شرور کا شکار ہوتا ہے یعنی مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ امام صاحب نے یہ روایت بیان کر کے فرمایا ایک بیوی پر ہی قناعت اپنے لئیے تو میں نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے اور فرمایا بے فکری وسلامتی کے برابر کوئی چیز نہیں۔ ( ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی ص ٣١٧ ) ۔

حضرت علی المرتضی چاہتے ہیں کہ ہشام بن مغیرہ کی بیٹی سے شادی کر لیں اور ہشام اس رشتہ پر رضامند ہے چنانچہ ہشام حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اجازت طلب کرنے جاتا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم اس مسئلہ کو انفرادی نہیں اجتماعی اہمیت دیتے ہیں اور مسجد نبوی میں جاکر منبر پر کھڑے ہوکر ارشاد فرماتے ہیں۔ حضرت مسور بن مخرمہ کہتے ہیں میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اس بات کی اجازت چاہی ہے کہ وہ اپنی دختر کا نکاح علی بن ابی طالب سے کر دے، آپ نے تین بار فرمایا میں ہرگز ہرگز اسکی اجازت نہیں دیتا، ہاں اگر علی چاہتے ہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے اور اسکی بیٹی سے نکاح کر لے ( صحیح بخاری اور فتح الباری شرح بخاری جلد ٩ صفحہ ١٨٧ )۔۔ اس روایت سے چند نکات نکھر کر سامنے آتے ہیں۔

ہشام بن مغیرہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے اجازت طلب کرنے گئے ہیں ، معلوم ہوا جو آدمی اپنی بیٹی دے رہا ہو اسے یا اسکی بیٹی کو پہلی بیوی یا اسکے والد سے اجازت لینا ہو گی۔

٢۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے مسجد کے منبر پر بیان فرمایا اسکا مطلب یہ کوئی نجی و انفرادی مسئلہ نہیں تھا آپ قانون کی اجتماعی تعلیم دے رہے تھے۔

اس موضوع پر اور بھی بہت مواد ہے جو لکھا جا سکتا ہے لیکن اس دعا کے ساتھ ختم کرتا ہوں ربی زدنی علما۔ اور الله ہم سب کو دین کی صیح سمجھ عطا کرے آمین۔۔۔۔

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172315 views System analyst, writer. .. View More