آزادی صحافت پر ایک اور حملہ

تاریخ کا مطالعہ کریں تو حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں سچ کو دبانے ، قتل کرنے یا دفن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اگر اس معاشرے میں سچ کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف ریاست کی طرف سے کوئی ایکشن نہ لیا جائے تو جواباً کئی خطرات جنم لیتے ہیں۔کچھ ایسے ہی حالات گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے میں بھی رونما ہیں جہاں شرپسند عناصر نے سچ بولنے ،سچ لکھنے اور حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو اپنی کاروائیوں کا نشانہ بنایا ہوا ہے جن کی شدت پسندانہ کاروائیوں کے باعث ولی خان بابر ،شان ڈہر ،ایوب خٹک ،سیف الرحمن ،سوفی محمد خان ،اور رزاق گل جیسے کئی بہادر صحافیوں سمیت مختلف ٹی وی چینلز کے گاڑدز ،ڈرائیور اور ٹیکنشن اپنی جانوں کے نظرانے پیش کرچکے ہیں-

کچھ ایسا ہی دل کو ہلا دینے والا واقعہ کچھ روز قبل معروف ٹی وی اینکر رضارومی کے ساتھ پیش آیا۔جو اپنے آفس سے گھر کی جانب جا رہے تھے کہ راجا مارکیٹ کے قریب کچھ شرپسند عناصر ز نے ان کی گاڑی پر دھاوا بول دیا۔ اور اندھا دھند فائرنگ کی ،خوش قسمتی سے رضا رومی اور انکے گارڈ محفوظ رہے لیکن بد قسمتی سے رضارومی کے ڈرائیور محمد مصطفی شدید فائرنگ کی زد میں آکر جان کی بازی ہار گیا۔اور پاکستانی میڈیاکی کتاب میں ایک اور شہید کا اضافہ ہوگیا۔قارئین سمجھ سے بالاتر ہے کہ رضارومی جیسے نرم لہجہ انسان جس نے کئی سیکنڈلز سے پردہ اٹھایا ہو ،جو اپنی گفتگو میں کوئی بھی ایسی سخت بات کرنا مناسب نہ سمجتا ہو جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔جس کی تحریریں مثالی ہوں انکی کسی سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے ۔یقینا رضارومی کی زبان سے نکلنے والے سچ نے شرپسندوں کو اپنا دشمن بنا لیا۔ لیکن یہ شر پسند عناصر ان پر حملہ کرتے وقت یہ بھول گئے کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے ۔ ان کو یہ بتاتا چلوں کہ وہ ہمارے جتنے بھی صحافیوں کو ڈرالیں دھمکا لیں یا اپنی گولیوں کو نشانہ بنا لیں ہم نہ تو ڈرنے والے ہیں اور نہ ہی ہمت ہارنے والے ہیں اگر ہمارے سچ لکھنے اور بولنے کی سزاموت ہے تو کوئی پرواہ نہیں۔

قصور کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والے رضا رومی کے ڈرائیور محمد مصطفی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا ۔9ماہ قبل اسکی شادی ہوئی تھی۔آج اسکی بیوی ،بہن بھائی ،ماں باپ ،محمد مصطفی کے قاتلوں سے بدلہ چاہتے ہیں محمد مصطفی کے گھر والے اپنے بیٹے کا انصاف مانگتے ہیں لیکن افسوس مصطفی کے گھر والوں نے سسکیوں کے ساتھ اسکو دفن تو کر دیا لیکن کسی بھی مقامی سیاستدان یا حکومتی عہدیدار نے غم سے نڈھال لواحقین کو تسلی دینے یا ان کا دکھ بانٹنے کے لیے انکے گھر جانا مناسب نہ سمجھا۔

رضاروی پر قاتلانہ حملہ کسی صحافی کے ساتھ پہلا واقعہ نہیں ،اس سے قبل بھی ہمارے اردگرد کئی سنیئر صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں رضا رومی تو ان صحافیوں میں سے تھے جن کا نام پہلے ہی سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے دیا جا چکا ہے کہ انکی جان کو خطرہ ہے آخرمیڈیا کے لوگوں کی سیکیورٹی اور انکی جان بچانے کی ذمہ داری کس کی ہے لاہور کے مشہور علاقے کلمہ چوک اور راجا مارکیٹ کے درمیان آزادی صحافت کے دشمن گولیوں کی برسات کرتے ہوئے قانون کے رکھوالوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چلے جاتے ہیں لیکن قانون نافظ کرنے والے ادارے ان کو پکڑ نہیں پاتے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسکو پولیس کی بے بسی کہیں یا لاپرواہی۔

کیونکہ پولیس کے اعلیعہدیداروں نے تو اس واقعہ کے بعد صیح طریقے سے اپنا موقف ہی نہیں دیا ۔ اگر پولیس کے لوگ رضا رومی کی سیکورٹی کو یقینی نہیں بنا سکے تو کم از کم اپنا موقف تو صیح طریقے سے دیے دیتے۔ میں پولیس کے اعلی افسران سے سے سوال کرتا ہوں آخر محمد مصطفی کا قصور کیا تھا۔جس نے ابتک جوانی کی بہاروں کو بھی صیح طرح نہ دیکھا تھا۔جس کی آنکھوں میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لیے بے شمار خواب تھے ۔اس نو جوان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ سچ کی آواز بلند کرنے والے انسان کے ساتھ ڈیوٹی کررہا تھا۔افسوس ہے کہ ایک شخص جس کی زندگی کو خطرہ ہونے کی نشاندہی پہلے ہی ہو چکی ہواور اس پر اس قدر آسانی سے حملہ ہو جائے اور اس کا ٖڈرائیور اس حملے میں مارا جائے۔جہاں ایک طرف شرپسند محمد مصطفی کے قاتل ہیں وہاں اسکی موت کی وجہ پولیس کی لاپرواہی بھی ہے جس نے رضارومی کو دھمکی ہونے کے باوجود انکی سیکیورٹی کو یقینی نہ بنایا۔آخر ہم کب تک اپنے بے گناہ ساتھیوں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے۔ اﷲ تعالی نے پاکستان کے سرمایہ رضارومی کو ایکنئی زندگی سے نوازا ہے ۔ اﷲ انکو ہمشہ سچ کے لیے آواز بلند کرنے کی ہمت دئیے رکھے ۔ لیکن اب حکومتی اداروں کو صحافیوں کے تحفظ کے لیے ضرور خاطر خواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ جن سے صحافیوں اور انکے ساتھ کام کرنے والوں کی زندگیاں یقینی طور پر محفوظ بنائی جا سکیں،اور آخر میں اپنے تمام میڈیا کے لوگوں سے بھی درخواست کرنا چاہوں گا کہ آئے روز میڈیا کے نمائندگان کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خاتمے کے لیے ہم سب کو ایک ہونا ہوگا۔کیونکہ جب ہم سب ایک ہو کر اپنی آواز شرپسند عناصرز کے خلاف بلند کریں گے تو یقینا کامیابی ہماری آواز اور ہمارے قلم کی ہوگی ۔

Abdul Rauf Chohan
About the Author: Abdul Rauf Chohan Read More Articles by Abdul Rauf Chohan: 27 Articles with 19245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.