پہلے زمانے میں گھر کی خواتین اپنے کپڑے اور اپنی لڑکیوں کے کپڑے خود سیتی
تھیں۔سلائی کڑھائی کے تمام کام خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں میں کرلیتی
تھیں۔عموما گھروں میں سلائی مشین ہوا کرتی تھی۔والدہ محترمہ بتاتی ہیں کہ
پہلے کی خواتین بہت محنتی ہوا کرتی تھیں۔ہر خانہ داری کا مکمل کام خود ہی
انجام دیتی تھیں۔سلائی مشین آج بھی بعض گھروں میں ہے،مگر کپڑے درزی سیتا
ہے۔آج ہماری بعض بہنیں محنت کرنے سے دور ہوچکی ہیں۔اب ہمارے درمیان یہ
برائی بھی آسانی سے داخل ہو گئی ہے کہ خواتین کے کپڑے مرد سینے لگے ہیں۔آج
امتِ مسلمہ کی بیٹیاں اپنے کپڑے سلانے نا محرم درزیوں کا سہارا لے رہی
ہیں۔درزی کی انگلیاں اور فیتے نسوانی نشیب وفراز ناپتے رہتے ہیں۔ان میں
زیادہ تر نوجوان لڑکیاں ہوتی ہیں۔ایسی صورتِ حال ہوتی ہے جس کا اظہار مناسب
نہیں۔اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ ہم نے ایک نامحرم نوجوان شخص کو آپ کی
بیٹی،بہن یا بیوی کا ہاتھ پکڑے دیکھا ہے تو وہ آگ بگولہ ہوجائے گا اور
ہوسکتا ہے کہ اس حرکت کا سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے نہ جانے کیا کر
بیٹھے۔ذرا آپ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر انصاف کی زبان سے بتایے ہماری یہی
بیٹی، بہن یا بیوی کسی غیر مرد سے اپنے جسم کی پیمائش کراتی ہے،اور بازار
میں کسی نا محرم سے چوڑیاں پہنتی ہے،مہندی بھی کسی نامحرم سے ڈلواتی
ہے،ایسے موقعوں پر ہم حیا کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اس وقت غصہ بھی نہیں
آتا۔اس طرح کے افعال کرتے ہوئے ہمیں شرم بھی نہیں آتی۔یہ سب ہماری نظروں کے
سامنے ہوتے ہوئے ہماری غیرت و حمیت کو آخر کیا ہوجاتا ہے؟ہمیں اپنی عزت و
ناموس کی فکر کیوں نہیں رہتی؟آخر کب ہمیں ہوش آئے گا؟ہم کب سبق حاصل کریں
گے؟اصل بات تو یہ ہے کہ ہماری بہنوں کے دلوں میں خدا کا خوف اور آخرت کے
عذاب کا احساس ختم ہوچکا ہے۔شاید ایسی خواتین کو آخرت پر یقین نہیں،جبھی وہ
خلافِ شریعت ایسے اعمال کو اپنا رہی ہیں۔میری بہنو!سوچیے!ذرا ٹھنڈے دل سے
سوچیے!مشہور شاعر مولوی اسمٰعیل میرٹھی کے اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم
کرتاہوں کہ
اوروں کی برُی بات تو بھاتی نہیں تم کو پر اپنی برُائی نظر آتی نہیں تم کو
|