ویلکم میٹرو بس ۔۔۔مگرمری روڈ جام!

راولپنڈی شہر جو تقریباً ہر دور میں سیاسی اعتبار سے کافی سرگرم سمجھا جاتا رہا ہے مگر صرف الیکشن کی حد تک اُس کی بھی خاص وجہ شاید سیاسی ماہرین کی نظر میں یہ ہو سکتی ہے یہاں کے حلقہ این اے 55 ، 56 سے شیخ رشید احمد صاحب الیکشن لڑتے آرہے ہیں میں آج خاص طور پر انہی دو حلقوں کا ذکر کرنا چاہونگا۔ سابقہ دور جس میں یہاں سے مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی اور جناب حنیف عباسی صاحب اور شکیل اعوان صاحب منتخب ہوئے تو شاید مسلم لیگ ن کی حکومت نے عوام کے دلوں کو جیتنے کیلئے مری روڈ راولپنڈی میں فلائی اوورز بنوائے تاکہ مری روڈ کی بے ہنگم ٹریفک پر قابو پایا جاسکے مگر راولپنڈی کی عوام صرف اسی پر خو ش نہ ہوئے اور انہوں نے حالیہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کواین اے 55 ، 56 سے مسترد کردیا اور جناب عمران خان صاحب اور شیخ رشید صاحب ان حلقوں سے منتخب ہوئے ۔

اب موجودہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے راولپنڈی کے غیور عوام کے دلوں کو جیتنے کیلئے ایک اہم منصوبے ’’میٹرو بس سروس ‘‘ کا اعلان کیا کوئی شک نہیں یہ ایک خوش آئند امر ہے اور نہ ہی میرا مقصد میٹرو بس سروس منصوبے پر کسی قسم کی تنقید کرنا ہے ۔ مگر یاد دہانی کرواتا جاؤں کے میٹرو بس سروس کا گزر راولپنڈی کی مصروف ترین شاہراہ مری روڈ سے ہونا ہے اور مری روڈ جس حال میں کشادہ کی گئی اور تاحال میٹرو بس سروس شروع ہونے سے قبل تک اس میں تبدیلیاں کی جاتی رہی تاکہ کسی طرح مری روڈ پر موجودہ ٹریفک کے سمندر کو رواں دواں رکھا جاسکے ۔ 23 مارچ کوراولپنڈی میں ’’میٹرو بس سروس‘‘ کے سنگ بنیاد کی پُروقار تقریب منعقد کی گئی جس میں وزیراعظم پاکستان جناب میاں نواز شریف ، وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں شہباز شریف اور دیگر ایم این ایز ، ایم پی ایز اور مسلم لیگ ن کی دیگر اعلیٰ قیادت نے شرکت کی اور طے پایا گیا کہ دس ماہ کی قلیل مُدت میں اس پراجیکٹ کو مکمل کیا جائے گا۔ اب منصوبے پر کام جاری و ساری ہے اور کام کی تیزی اور دس ماہ میں مکمل کرنے کے حکم کی تعمیل میں انجینئرز اور انتظامیہ یہ بات بھول ہی گئی کہ راولپنڈی کی عوام جنہوں نے اسی شاہراہ مری روڈ کو استعمال میں لانا ہوتا ہے ، چاہے وہ دفاتر کی جانب جارہے ہوں ، ہسپتالوں میں بیماری کی صورت میں جانا ہو ، یا مری روڈ بذات خود ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے تاجروں اور خریداروں کو جانا ہو ، یہی مری روڈ اسلام آباد کو بھی راولپنڈی سے ملاتی ہے اور سنگ بنیاد سے قبل تک بھی اس روڈ پر ٹریفک کنٹرول سے باہر تھی تو انجینئرز اور انتظامیہ نے یہ بات بالائے طاق رکھ دی کہ کام شروع کرنے سے ٹریفک اور ملازم پیشہ افراد کو درپیش مشکلات کا حل کیا ہونا چاہیے ۔

ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے میں جب اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے مری روڈ پر گیا تو کمیٹی چوک سے چاندنی چوک تک پہنچنے میں 40 منٹ لگ گئے جو سفر سنگ بنیاد سے قبل تک زیادہ سے زیادہ 5 سے7 منٹ میں طے کیا جاتا تھا اور تا حد نظر ٹریفک جام اور ٹریفک وارڈنز بے بس نظر آتے تھے ، میں تو موٹر سائیکل پر ہونے کی وجہ سے شاید 40 منٹ میں چاندنی چوک تک پہنچ گیا ، مگر وہ ملازم پیشہ لوگ جو پبلک ٹرانسپورٹ ویگن یا سوزوکی میں سفر کرتے ہیں اُن کے حال کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں ، اس دوران میری نظرسے ایمبولینس گزری جو بے ہنگم ٹریفک میں پھنسی ہارن بجا بجا کر اپنی موجودگی کا اظہار کر رہی تھی مگر اُس کے سامنے کھڑی گاڑیوں کے ڈرائیورز بھی مجبور تھے کہ راستہ کہیں سے نکلے تو اپنی گاڑی ایمبولینس کے سامنے سے ہٹا کر اُسے راستہ دے سکیں ۔ مری روڈ پر ’’ میٹرو بس سروس‘‘ کا کام جاری و ساری ہے اور بے شک عوام کو اس سے فائدہ پہنچے گا مگر انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی ذمہ داری ہے کہ متبادل راستہ فراہم کیا جائے تاکہ ٹریفک کے بہاؤ کو کنٹرول میں لایا جائے اور عوام کو اس صورتحال سے بچایا جاسکے ۔ اس مضمون کے توسط سے میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور راولپنڈی کی انتظامیہ سے التماس کرتا ہوں جناب اعلیٰ ہماری آبادی کا ایک کثیر طبقہ غربت کی لکیر کی نیچے زندگی بسر کررہا ہے ، اور پٹرول اور ایندھن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں جناب اگر 5 منٹ کا سفر 40 منٹ میں طے ہو گا تو پٹرول کا ضیاع بھی اُس تناسب سے ہوگااور وقت جو بے شک ہر چیز سے قیمتی ہے اُس کا نقصان الگ ،کوئی شک نہیں کہ ہر منصوبہ عوام کی بھلائی کیلئے ہوتا ہے اور آنے والے کی کل کی خوشحالی کیلئے آج تھوڑی تکلیف پیش آجائے تو کوئی بات نہیں مگر تکلیف تو خدا بھی بندے کو اُس کی طاقت دیکھ کر دیتا ہے تو وزیر اعلیٰ صاحب آپ نے راولپنڈی کی عوام کی سہولت کیلئے بے شک بہت اچھے منصوبے کا اعلان کیا اور ہم دل سے ’’ میٹرو بس کو ویلکم ‘‘ کہتے ہیں مگر جب تک یہ بس سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر نہیں آتی تب تک کیلئے راولپنڈی والوں کیلئے متبادل روٹ پلان کا حکم جاری فرمائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ راولپنڈی کے غیور عوام کے دلوں میں میٹرو بس سروس کیلئے جو خوشی کی لہر پیدا ہوئی تھی وہ بس سروس کے چلنے سے قبل ہی کہیں غصے میں تبدیل نہ ہو جائے ۔
Malik Zeeshan Ashraf
About the Author: Malik Zeeshan Ashraf Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.