یورپی یونین کی جانب سے 17 ممالک میں کروائی جانے والی
ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ شمالی یورپ میں مرنے والی شہد کی مکھیوں کی
تعداد بحیرۂ روم کے کنارے آباد یورپی ممالک میں ہلاک ہونے والی مکھیوں سے
کہیں زیادہ ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک کی نمائندہ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ
براعظم میں شہد کی مکھیوں کے چھتّوں کی تباہی پر ہونے والی سب سے جامع
تحقیق ہے۔
|
|
تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ 13_2012 کے موسمِ سرما میں شہد کی مکھیوں کی
اموات کے سب سے زیادہ واقعات بیلجیئم میں پیش آئے جہاں موجود ایک تہائی سے
زیادہ مکھیاں ہلاک ہوگئیں۔
اس کے علاوہ سویڈن اور برطانیہ بھی متاثرہ ممالک میں شامل تھے اور برطانیہ
میں یہ شرح 29 فیصد تھی۔
اس تحقیق کو اپیلوبی کا نام دیا گیا ہے اور اس میں دس فیصد ہلاکتوں کو قابلِ
قبول سمجھا گیا ہے۔ تحقیق میں انتہائی سرد موسم کو ہلاکتوں کی اہم وجہ قرار
دیا گیا ہے۔
شمالی یورپ کے برعکس جنوبی یورپ میں شہد کی مکھیوں کی تعداد میں کمی اسی
شرح سے ہوئی جسے قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ سپین، اٹلی اور یونان میں مکھیوں کا ہر دس میں سے ایک
چھتّا ختم ہوا جو کہ عام شرح سے بھی کم ہے۔
اس عمل کے دوران یورپ بھر میں شہد کی مکھیوں کی 32 ہزار کالونیوں کا جائزہ
لیا گیا۔
|
|
اس تحقیق کے دوران صرف شہد کی مکھیوں کے چھتّوں کا ہی جائزہ لیا گیا اور اس
میں ان پر کیڑے مار ادویات کے اثرات شامل نہیں تھے۔
گذشتہ برس یورپی یونین نے کیڑے مار ادویات میں چار ایسے کیمیائی مادوں کے
استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی جن کی وجہ سے یورپ میں شہد کی مکھیوں کے
چھتّے تباہ ہو رہے تھے۔ |