اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا
گیا اور اس کے حصول کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کیں،اپنے
گھربار چھوڑے اور دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت بھی کی ۔یہ وہ حقائق تھے
جن سے قائداعظم محمدعلی جناح بخوبی واقف تھے اسی لئے ہی جب ایک موقع پر ان
سے یہ پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا تو انہوں نے واضح طور پر
فرمایا''پاکستان کا آئین بنانے والا میں کون ہوتا ہوں اس کا آئین تو آج سے
چودہ سوسال پہلے بنادیا گیا تھا''مگر اس کے باوجود پاکستان کا ایک المیہ یہ
بھی ہے مختلف ادوار میں وطن عزیز میں یہ بحث ہوتی رہتی ہے کہ قائد اعظم نے
پاکستان اسلامی نظام کیلئے حاصل کیا تھا یا سیکولرازم کیلئے ۔اور اب جبکہ
ہمارا ملک بدترین معاشی صورتحال،جان لیوا توانائی بحران،کمرتوڑ مہنگائی اور
ملکی تاریخ کے بدامن ترین دور سمیت کئی طرح کے اندرونی و بیرونی مسائل و
چیلنجز سے دوچار ہے ایسے میں بعض نام نہاد دانشور وں نے ملک میں ایک بار
پھر یہ بحث چھیڑ دی ہے اورمضبوط دلائل سے عاری گفتگو اور تحریروں سے یہ
ثابت کرنے کی حتی الوسع کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں خدانخواستہ اسلام
کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی یہ ملک اس لئے حاصل کیا گیا تھا ۔اسلامی
جمہوریہ پاکستان کو سیکولرریاست ثابت کرنے کے اس ''گناہ بالزت''میں ہمارے
میڈیا اور اس میں بیٹھے چند اینکرز کا بھی پورا پورا حصہ ہے جوجان بوجھ کر
ایسے موضوعات تلاش کرتے ہیں جن سے نہ صرف ان کی ''روح''کو تسکین ملتی
اور''ریٹنگ''بڑھتی ہے سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان پروگراموں کیلئے ایسے لوگوں
کو تبصرہ فرمانے بلاتے ہیں جن کا اس میں نمائندگی کا کوئی حق ہی نہیں بنتا
۔مثلاََ گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک تجویز دی کہ اسلام میں
دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ ایک ایساموضوع
تھا جس کا تعلق خالصتاََمذہب سے تھاجس پر گفتگو کیلئے بھی صرف علمائے کرام
کو بلانا چاہئے تھا لیکن اس پر گفتگو کیلئے ایسے ملحدانہ نظریات کے حامل
افراد کو دعوت دی گئی جو اسلام کی الف ب سے بھی واقفیت ہونا تو دور کی بات
انہیں اسلام بیزار کہاجائے تو بھی غلط نہ ہوگاہیومن رائٹس اور خواتین کے
حقوق کیلئے کام کرنے والی دو خواتین نے ان دنوں اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی
اور دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت نہ لینے کو ظلم اوربنیادی انسانی
حقوق کی سنگین خلاف ورزی قراردینے کیساتھ ساتھ (نعوزباﷲ )اس کو مردوں کی
عیاشی قراردیتی رہیں حالاں کہ انہی ٹاک شوز میں جو ایک آدھ عالم بلایا گیا
وہ باربار وضاحت کرتا رہا کہ اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت صرف اس
صورت میں ہے کہ جب شوہر تمام بیویوں میں مساوات و انصاف قائم رکھ سکتا ہو
لیکن نقارے میں طوطی کی پکارکون سنتا ہے ان انسانی حقوق کے علمبرداراان نام
نہادخواتین و حضرات نے وہ ہنگم برپا کئے رکھا کہ خداکی پناہ ۔کوئی ان سے
پوچھنے کی جرات نہیں کرسکا کہ آپ بار بار جن اسلامی قوانین کو ہدف تنقید
بنارہی ہیں وہ کسی انسان کے بنائے ہوئے نہیں وہ تو اﷲ تبارک وتعالیٰ کے
احکامات ہیں جن کے بارے میں بات کرنا تو ایک طرف یہ تصور بھی نہیں کیا
جاسکتا کہ انسانی فطرت اور حقوق کے خلاف ہوں گے اور کسی نے بھی ان اسلام
بیزاروں سے یہ نہیں پوچھا کہ آخر وہ کیوں اس مادرپدر آزاد ماحول کی وکالت
کررہی ہیں جس کو صدیوں تک اپنانے کے بعد اب وہ معاشرے اسلام کے پاک دامن کو
اپنارہے ہیں کیا ان کو نہیں پتا کہ گزشتہ ایک عشرے میں یورپ و امریکہ میں
جتنے لوگ مسلمان ہوئے ہیں اتنے ایک صدی میں بھی نہیں ہوئے جس کی وجہ صرف
اور صرف اسلام کا آفاقی ،پاکیزہ اور سلامتی کا مذہب ہونا ہے وہ لوگ اس بے
حیائی و بے پردگی ،بڑھتی ہوئی فحاشی وعریانی ،بے انتہا طلاقوں اور بے راہ
روی سے اکتا چکے تھے مگر ہمارے ملک کا یہ عالم ہے کہ یہاں اب بھی ایسے
شعبدہ باز پائے جاتے ہیں جو اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ قراردینے اور مغربی
طرززندگی کو آئیڈیل قراردینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں حالاں کہ جن
ممالک میں اسلامی قوانین نافذ ہیں وہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے
مگر لگتا ہے سیکولرز کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں امن قائم ہوتا ہے
یا نہیں عوام کو انصاف اور غریب کو دووقت کی روٹی ملتی ہے یا نہیں اگر ان
کی ترجیحات میں یہ چیزیں شامل ہوتیں تو وہ کبھی بھی اسلام اور اسلامی
قوانین و احکامات الہٰی پر لاف زنی نہ کرتے کیوں کہ اس صورت میں انہیں یہ
ماننا پڑتا کہ صرف اسلام ہی وہ واحد نظام ہے جودین فطرت ہے اور عوام کی جان
و مال اور انسانی حقوق کاحقیقی معنوں میں ضامن ہے ۔اب آتے ہیں اس طرف کہ یہ
لبرلز اور سیکولرز کیوں دن کو رات ثابت کرنے اور97%مسلمانوں کی آبادی والی
مملکت خداد پر اپنے مغربی نظریات و خیالات ٹھونسنے کی کوششوں میں مصروف ہیں
اور کیوں میڈیا بھی ان مٹھی بھر عناصر کوآزادی رائے کے نام پر ٹائم دیتا ہے
اس کیلئے آپ کو امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی ریسرچ ڈویژن کی ایک خفیہ دستاویز
کا خلاصہ پیش کرتا ہوں جس میں امریکی شہہ دماغوں نے طاقتوراسلامی ممالک کو
قابو کرنے کا پورا پلان ترتیب دیا ہے جس تفصیل پھر کبھی عرض کروں گا مگر اس
کاایک حصہ کچھ یوں ہے کہ''ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے رہن سہن اور
طرززندگی کا بغور جائزہ لیاجائے اور اس کے بعد انہیں بنیاد پرست،ماضی
پسند،ماڈرن اور سیکولرز میں تقسیم کردیا جائے جس کے بعد اگلے مرحلے میں
ماضی پسندوں اوربنیاد پرستوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کا سامان کیا
جائے جس کی ایک صورت فرقہ واریت کو ہوا دیناہے،اس کے بعد ماڈرن اور
سیکولرگروہوں کو سپورٹ کیا جائے ان کے خیالات و تحاریر کو عوام تک پہنچانے
کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں ۔ان اقدامات کے نتیجے میں عوام
میں بے چینی و غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی جس کے بعد آخری
وارکیاجائے'' اور قارئین آپ جانتے ہی ہیں کہ ماضی قریب میں ہی شام و عراق
میں اس منصوبے پر عمل کرکے کس طرح تباہی پھیلائی گئی اب اس منصوبے کا اگلا
ہدف پاکستان نظرآتا ہے اﷲ پاکستان اورپاکستانی عوام کا حامی و ناصر ہو ۔ |