ہماری بد قسمتی

محمود غز نوی کانام تاریخ میں مختلف حوالوں سے جاناجاتاہے ۔ انہوں نے برصغیر پاک و ہند میں حکمرانی کی ۔ 957ء سے لے کر 1030ء تک کے عرصے پر محیط رہیں۔ ایک دفعہ رات کو محمود غزنوی کو نیند نہیں آرہی تھی تو اٹھ کر اپنے چو کیداروں سے کہا کہ دیکھوں باہر کو ئی فقیر اور سوالی تو نہیں ، چو کیداروں نے باہر جا کر دیکھا کوئی موجود نہیں تھا واپس آکر بادشاہ کو بتا دیا ۔ بادشاہ دوبارہ جاکر سونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پھر نیند نہیں آرہی تھی، دوبارہ چو کیداروں کو سختی سے کہا کہ دروازے کے آس پاس د یکھوکو ئی موجود ہو گا لیکن چو کیدار دوسری بار بھی وہی جواب دے کر آئے کہ کوئی مو جود نہیں ہے ۔تیسری بار محمود غزنوی نے سوچا کہ میں خود جاکر دیکھتا ہوں ۔ محمود غزنوی نے تلوار اٹھائی باہر گھوم پھیراتو دیکھا کہ مسجد میں ایک آدمی دُ عا مانگ رہا تھا کہ اے اﷲ اگر محمو د ولی سو رہا ہے تو تو نہیں سو رہا ہے ۔(محمود غز نوی ولی بھی تھے)بادشاہ نے ان کو کہا کہ میں کہاں سو رہا ہو ں تیری وجہ سے مجھے نیند نہیں آرہی تھی ۔بتاؤ کیا مسئلہ ہے تو انہوں نے بتا یا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کرو۔ ایک ظلم آدمی میر ے گھر آکر میر ی بیوی کے ساتھ منہ کالا کر تا ہے لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا اُن کے پاس تلوار ہوتی ہے اور مجھے دھمکاتا ہے ۔ محمود غزنوی نے اس آدمی کو کہا کہ وہ آدمی ابھی ہے توانہوں نے جواب دیا کہ ابھی تو نہیں ہے لیکن دوبارہ آئے گا ۔بادشاہ نے ان سے کہا کہ جب وہ آجائے تو مجھے بتا دینا اور ا پنے چوکیداروں سے اس آدمی کو ملا یا کہ رات کے کسی بھی وقت یہ آجائے توان کو اندر آنے دینا اور پھر ان کوکہا کہ اگر یہ لوگ تمہیں اندر آنے نہیں دیتے تو اپنا کمرہ دکھایا کہ اس کمرے کے دیوار کو پتھر سے مار ناتو میں خود کمرے سے باہر آجاؤ ں گا۔ بادشاہ کا خیال تھا کہ چوکیدار وفاداری کی خاطر مجھے نیند سے نہیں اٹھائیں گے اور ان کو بھی آنے نہیں دیں گے۔ جس طرح آج کے بادشاہوں کے ساتھ ارد گرد ٹولہ مو جود ہو تا ہے ۔قصہ مختصر تیسری رات وہ آدمی آیا محمودغزنوی ان کے ساتھ چلے گئے جاکر دیکھاتو وہ شیطان زنا سے فارغ ہو چکا تھا اور بستر پر پڑا تھا ۔ بادشاہ نے تلوار نکالی اور ان کا سر بدن سے جدا کر دیا ۔ اس کے بعد محمود غزنوی نے دورکعت نفل ادا کی اور گھر کے مالک سے کہا کہ اگر گھر میں کچھ روٹی ہو تو لے آناتو وہ آدمی روٹی کے دو ٹکڑے اٹھاکر لے آیا اور کہا کہ میں غر یب آدمی ہو میرے گھر میں کھانے کے لئے اور کچھ نہیں ،بادشاہ نے شوق سے روٹی کے وہ ٹکڑے کھا ئے اور کہاکہ تین دن سے میں نے کچھ نہیں کھا یا تھا اس لیے آپ کو تکلیف دی ۔ بادشاہ نے کہا کہ میں نے قسم کھائی تھی کہ جب تک اس شیطان کو جہنم رسید نہ کرو مجھے پر کھانا پینا حرام ہے ۔محمود غزنوی نے کہا کہ دو رکعت نفل شکرانے کے طور پر ادا کیے۔ میری سوچ یہ تھی کہ یہ میر ے بیٹوں میں کوئی ہو گا کہ میری سلطنت میں ایسا کام کر رہا ہے لیکن میں نے قسم کھائی تھی کہ اگر میرا بیٹا بھی ہوگا تو میں ان کا بھی سر قلم کروں گا،لیکن اﷲ کا شکر ہے کہ یہ میرا بیٹا نہیں تھا ۔ اس کو کہتے ہیں بادشاہت اور حکمرانی ۔جب تک ہمارے حکمرانوں کا سو چا اور رویہ نہیں بدلے گا اس وقت حالات ایسے ہی رہیں گے ۔ کس سے شکایت کر یں اور کون مدد کریں ۔ معاشرہ بے حس ہو تاجا رہا ہے ۔ ہماری بد قسمی یہ ہے کہ پورے ملک میں حالات تقر یباً ایک جیسے ہیں ۔ پنجاب میں خواتین، بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور خود سوزی کے واقعات ہو یا سند ھ میں چھوٹی بچوں کو ونی کے معاملات ۔ ہر جگہ ظلم و زیادتی کا راج چل رہا ہے ۔ سندھ میں کمسن بچی علینہ کا قصہ ہو یا نوشہر ہ پبی میں تین سالہ کمسن بچی سویراپر تشدد کا واقعہ ۔نفسانفسی کے عالم میں ہم جی رہے ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ نہ اسلامی تعلیمات پر عمل ہے نہ اسلامی معاشرہ اورنہ پوری طرح انگر یز کے طرز حکمرانی پر عمل پیرا ہے ۔ بس ایک خلا پیدا ہوا ہے۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اﷲ ہم سے ناراض ہے ورانہ کوئی ایک دفعہ اﷲ کہے تو اﷲ دس دفعہ ان کو آواز دیتا ہے ۔مجموعی طور پر ہم بے حس قوم بنتے جا رہے ہیں ۔ حکمرانوں کے بس میں صرف یہ تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویزخٹک نے پبی میں کمسن بچی کے غمزدہ والد ناصر خان اور اہل خاندان کو دلاسہ دیا اور ان کے لئے مز ید تین لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا ۔ اس سے پہلے علاقے کے ایم پی اے خلیق الرحمن نے غمزدہ خاندان کے لیے دو لاکھ روپے امداد کااعلان کیا تھا ۔وزیر اعلیٰ آئی جی پی کوہدایت جاری کر چکے ہیں کہ ملوث لوگوں کو گرفتار کیا جا ئے ۔ وزیر اعلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا منشور غریبوں کو انصاف فراہم کر نا اور انصاف یقینی بنا نا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ظلم کی انتہا ہے اور یہ پولیس کے لیے ٹیسٹ کیس بھی ہے ۔ ڈی پی او نوشہرہ رب نواز خان نے کہا ہے کہ کیس کی تفتیش کے لیے جدید طر یقہ کار اپنا یا جارہا ہے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے احکامات پر کتنا عمل ہو تا ہے ۔ آیا تین لاکھ اور دو لاکھ روپے سے اس ماں کی تسلی ہو جا ئے گی جس کی جگر گوشے کو ذبح کیا گیا ہے ؟ آیا DPOنوشہرہ یہ کیس ٹیسٹ کیس کے طور پر حل کر دینگے ؟

حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات پہلے دفعہ اس ملک میں نہیں ہوئے ہیں بلکہ معاشرہ جس طرف جارہا ہے اس میں ایسے واقعات کو انوکھا نہیں سمجھا جاتا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اب نہ تو محمود غزنوی جیسے حکمران ہے اور نہ ان جیسی حکمرانی ۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226076 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More