بھوک اور تہذیب آپ بھی سوچ رہے
ہونگے ‘ بھوک اور تہذیب‘ یہ کیسا عنوان ہے بھوک اور تہذیب بھلا یہ بھی کوئی
جوڑ ہوا جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ بھوک اور تہذیب کا آپس میں بہت گہرا تعلق
ہے لیکن یہ تعلق مترادفات میں سے نہیں بلکہ متضاد کیفیات سے تعلق رکھتا ہے
کیونکہ بھوک انسان کے اندر سے تہذیب کو مٹا دیتی ہے اسی لئے بھوک اور تہذیب
کا تذکرہ ایک ساتھ کرنا کچھ بے معنی بھی نہیں بھوک کی دو اقسام ہیں ایک
مادی اور دوسری روحانی یا یوں کہہ لیں کہ ظاہری اور باطنی یہ تو صاف ظاہر
ہے کہ انسان کی ظاہری بھوک کا تعلق انسان کی مادی ضروریات یعنی کھانے پینے
کی اشیا روٹی کپڑا اور مکان وغیرہ سے ہوتا ہے
جبکہ انسان کی روحانی یا باطنی بھوک کا تعلق ان داخلی کیفیات اور ضروریات
سے ہے جو انسان کی باطنی تربیت کرتے ہوئے انسان کی ظاہری شخصیت کو سنوارتی
ہے جو انسان کی تعلیم و تربیت سے متعلق ہے جن کا تعلق انسانی رشتوں کے
باہمی سلوک سے ہے جس طرح جسم کی بھوک مٹانے کے لئے انسان کو روٹی اور پانی
کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کی بھوک مٹانے کے لئے انسان کو بہتر تربیت کی
ضرورت ہوتی ہے اور بہتر تربیت اسی صورت ممکن ہوتی ہے جب تربیت پانے والے کے
ارد گرد کا ماحول خوشگوار اور پرسکون ہو
ہر انسان کو بھوک ہے کم یا زیادہ بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر انسان کو
کسی نہ کسی چیز کی ضرورت ہے اور انسان کی یہ ضرورت ہی انسان کی بھوک ہے جب
انسان کی بھوک یا ضرورت پوری نہ ہو تو اپنی تہذیب برقرار نہیں رکھ سکتا
کہتے ہیں کہ ‘بھوک تہذیب کو مٹا دیتی ہے‘ اب یہ بھوک کیا ہے اور یہ تہذیب
کو کیونکر مٹا دیتی ہے جبکہ بھوک کا تعلق ہر ذی روح کی ضرورت سے ہے
پہلی بات تو یہ کہ تہذیب کیا ہے تہذیب کسی بھی معاشرے کے رہن سہن کے طریقوں،
رسوم و رواج اور اصول و ضوابط سے متعلق ہے جو کسی بھی قوم کو تہذیب یافتہ
بناتے ہے چونکہ فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے افراد معاشرہ کے بغیر کسی
بھی معاشرت کا تصور ممکن نہیں لہٰذا جس قوم کے افراد تہذیب یافتہ ہونگے وہی
قوم مہذب بھی کہلائے گی جبکہ جس قوم کے افراد غیر مہذب ہوں وہاں تہذیب
یافتہ معاشرت کا قیام ممکن نہیں
ہر معاشرے کی الگ تہذیب و ثقافت ہوتی ہے جو کسی بھی معاشرے کو دیگر
معاشرتوں سے منفرد و ممتاز بناتی ہے چونکہ ہر معاشرت کی اپنی ایک الگ پہچان
الگ شناخت اور الگ الگ رہن سہن کے طریقے ہوتے ہیں اور ان میں یہ تضاد ہر
ملک اور ہر خطے کے ملکی سیاسی معاشرتی اور جغرافیائی حالات و واقعات کے
مطابق ترتیب پاتے ہیں انسانی طرز معاشرت کا یہ تضاد ہی ایک معاشرت کو دوسری
معاشرت سے جدا کرتا ہے
ہر معاشرے کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں جو افراد معاشرہ کی بہتر تربیت کے
لئے معاشرے کے تمام افراد پر یکساں طور پر لاگو کئے جاتے ہیں ان اصول و
قوانین کی پابندی اور ان پر عمل درآمد کرنا تمام افراد معاشرہ پر لازم آتا
ہے اور معاشرے کے وہی افراد تہذیب یافتہ کہلاتے ہیں جو اپنے اور اپنے
معاشرے کی طرف سے عائد شدہ قوانین کے پابند ہوتے ہیں جب کے ان اصول و قواعد
سے رو گردانی کرنے والے افراد کو معاشرے میں ایک غیر تہذیب یافتہ فرد کی
نظر سے دیکھا جاتا ہے معاشرے کی مثال ایک ایسی مضبوط زنجیر کی سی ہے جو
افراد کی کڑیوں سے مل کر بنتی ہے اگر زنجیر کی ایک کڑی بھی کمزور ہو جائے
تو زنجیر کی پائداری متاثر ہوگی معاشرے کے ایک فرد کی وجہ سے پورے معاشرے
کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں
جس معاشرے یا قوم کے افراد کا طرز عمل مہذبانہ ہوگا وہی قوم مہذب یا تہذیب
یافتہ کہلاتی ہے اس کے برعکس جس قوم کے افراد معاشرہ کا طرز عمل منفی ہوگا
وہ غیر تہذیب یافتہ قوم کہلاتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بھوک کا تہذیب کے
مٹنے سے کیا تعلق ہے ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بھوک دو قسم کی ہوتی ہے
بنیادی بھوک اور خود ساختہ بھوک اول الذکر بھوک تو وہ ہے جس کا تعلق ہر
انسان کی بنیادی ضروریات سے ہے کہ جن کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہے
معاشرے کے ہر فرد کا یہ حق ہے کہ اس کی بنیادی ضروریات ہر صورت پوری کی
جائیں جب کسی کی بنیادی ضروریات ہی پوری نہ ہوں گی تو اس کی شخصی تربیت بھی
ممکن نہیں خوراک لباس اور رہائش کے علاوہ انسان کی بنیادی ضروریات کا اسکی
روحانی بھوک سے بھی تعلق ہے اور یہ افراد کے باہمی تعلق میں ایک دوسرے کی
عزت کرنے سے، پیار محبت اور توجہ اور حسن سلوک سے فروغ پاتی ہے
جس معاشرے میں انسان کی یہ جائز بھوک پوری نہ ہو وہاں انسان کی ذاتی تربیت
اور شخصیت میں منفی و متضاد رویے سرایت پذیر ہونے لگتے ہیں جو کہ اسے تہذیب
کے دائرے سے نکال کر بد تہذیب بنا دیتی ہے اور اس کا سبب انسان کی بنیادی
ضروریات کی بھوک کے نہ مٹنے پر منحصر ہے جو بعد میں معاشرے کی تہذیب مٹا
سکتی ہے
مادی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے انسان کو روپے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اس
لئے دولت کا حصول چاہنا بھی ایک بھوک ہے اپنے والدین بہن بھائی دیگر عزیز
دوستوں اور قرابرت داروں کی محبت اور توجہ چاہنا بھی ایک بھوک ہے
عزت نام اور شہرت پانا بھی ایک بھوک ہے جس معاشرے میں تمام افراد معاشرہ کو
اپنی بھوک اپنی اشتہا کو مٹانے کا مناسب انتظام اور سہولیات موجود ہوں گی
تو اس کا اثر معاشرے کی صحت پر بھی اسی انداز سے پڑے گا جیسے افراد معاشرہ
کی تربیت ہوئی ہے
لیکن اگر اپنی بھوک کو حد سے زیادہ بڑھا لیا جائے اور اپنی اشتہا مٹانے کے
لئے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرنے سے خود انسان کی اپنی شخصیت نا
صرف مسخ ہو جاتی ہے بلکہ اس کے تمام منفی رجحانات اور حرکات یا منفی طرز
عمل کا اس کے معاشرے کی تہذیب پر بھی پڑتا ہے کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ
کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اسی طرح ایس ابھی ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کو دیکھ
کر اپنے لالچ حسد بغض اور عناد جیسے منفی رجحانات کا شکار ہو جاتا ہے زیادہ
سے زیادہ دولت کمانے کے چکر میں چھینا جھپٹی قتل و غارت گری جیسے مکروہ اور
گھناؤنے جرائم کا شکار ہو جاتا ہے یہی انسان حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی بھوک
کے محرکات و نتائج ہوتے ہیں جس کی وجہ سے چند افراد کی بداخلاقی کی وجہ سے
پورا معاشرہ بگاڑ کا شکار بنتا چلا جاتا ہے
بعض اوقات مفلسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھوک پیاس خوف اور دہشت بھی
انسان کو تہذیب کے دائرے سے نکال کر بد تہذیبی کا شکار کر دیتی ہے اور یہ
سب انسان کی ناجائزاور حد سے تجاوز کرتی بھوک کے اثرات ہیں جو ایک فرد سے
چند افراد اور پھر رفتہ رفتہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر پورے
معاشرے کی تہذیب کو رفتہ رفتہ مٹا کر رک دیتی ہے
یہی تہذیب کہلاتی ہے اور جس معاشرے کے افراد معاشرہ اپنے ملکی مذہبی اور
تہذیبی معاشرت کے سانچے میں خود کو ڈھالتے ہیں یعنی اپنی زندگی عین اپنی
ملکی مذہبی اور اخلاقی اصول و قوانین اور قواعد و ضوابط تمام پبندیاں
باقاعدگی سے بجا لاتے ہیں وہی ایک تہذیب یافتہ معاشرے کے افراد کہلاتے ہیں
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ کسی بھی معاشرے کے افراد تہذیب و ثقافت کے تقاضے
اسی صورت باقاعدگی سے بجا لاتے ہیں جب افراد معاشرہ کو اپنے معاشرے سے تما
تر بنیادی سہولیات بآسانی اور تمام افراد کو یکساں طور پر میسر ہوں بصورت
دیگر معاشرہ کی تہذیب و ثقافت بتدریج روبہ زوال رہتی ہے
کسی بھی تہذیب یافتہ معاشرے کے تہذیب و ثقادت کے زوال کے اسباب میں جو وجہ
سب سے اہم اور بنیادی ہے یا یوں کہہ لیں کے کسی بھی تہذیب یافتہ معاشرے کی
دشمن جو چیز ہے وہ ہے بھوک اب یہ بھوک کیا ہے کیا یہی بھوک ہے کہ انسان کا
پیٹ بھرا رہے جب اسے بھوک لگے اس کے کھانے کے لئے اس کی بھوک مٹانے کے لئے
وافر مقدار میں کھانا دستیاب رہے نہیں بلکہ یہ تو محض بھوک کی ایک قسم ہے
بہر حال کھانا پینا لباس اور رہائش یہ تین مادی اعتبار سے اور تعلیم و
تربیت روحانی اعتبار سے ہر انسان کی بنیادی ضروریات کے زمرے میں آتی ہیں ان
کی بھوک ہر انسان کو رہتی ہے تو کیا یہ بھوک ہر انسان کی پوری بھی ہو پاتی
ہے یا نہیں اس بھوک کا اس اشتہا کا اس پیاس کا مداوا ہونا بہت ضروری ہے
ورنہ انسان اپنی اس بھوک کے تدارک کا انتطام کئے بغیر معاشرے میں اپنا کوئی
مقام نہیں بنا سکتا اور نہ ہی اپنے معاشرے کو تہذیب یافتہ ماشرے کی صف میں
تا دیر کھڑا رہنے دے سکتا ہے
اس حقیقت سے کون آشنا نہیں کہ فرد معاشرے کی اکائی ہوتا ہے افرداد معاشرہ
ہی اپنے معاشرے کے عکاس ہیں اپنے معاشرے کو بگاڑنے اور سنوارنے والے ہیں
جیسے افراد معاشرہ ہوں گے ویسا ہی معاشرہ ہوگا ایسا معاشرہ جہاں انسان اپنی
مادی و روحانی ضروریات سے محروم رہے کبھی تہذیب یافتہ معاشرہ نہیں کہلا
سکتا تندگستی و تونگری کا بلواسطہ اثر معاشرے کی تشکیل و تعمیر پر پڑتا ہے
اب ایس معاشرہ کہ جہاں کسی فرد کو اپنی مادی بنیادی ضروریات ہی میسر نہ ہوں
اسے کھانے اور پینے سے محروم رکھا جائے یا وہ کسی وجہ سے خود ہی محروم رہ
جائے تو اس میں تہذیب کہاں سے آئے گی دو دن انسان بھوکا رہے تو اسے دن میں
تارے نظر آنے لگتے ہیں جب کھانے کو کچھ میسر نہ ہو تو خالی پیٹ نہ تعلیم
حاصل کی جاسکتی ہے اور تہذیب پنپ سکتی ہے خالی پیٹ نہ دماغ چلتا ہے نہ دل
سنھبلتا ہے نہ محبت رہتی ہے نہ کسی کا احساس ہوتا ہے بھوک انسان کو انسانیت
سے دور اور حیوانیت سے قریب لے جاتی ہے غصہ، نفرت، لالچ، حرص اور ہوس یہ
ایسی اخلاقی بیماریاں ہیں جن کے اثرات سے مزید اخلاقی بیماریاں برائیاں اور
جرائم جنم لیتے ہیں اور جس معاشرے میں جرائم عام ہونے لگیں وہ کبھی تہذیب
یافتہ نہیں کہلا سکتا اور یہ سب انسان کے اندر کی بڑھتی ہوئی بھوک ہی ہے جو
رفتہ رفتہ پہلے انسان کی اپنی ذاتی تہذیب کو اور پھر معاشرتی تہذیب کو گھن
کی طرح کھاتے کھاتے بالآخر مٹا کر رکھ دیتی ہے
آخر میں موضوع کے حوالے سے ایک واقعہ کی نشاندہی کرتے ہوئے انتہائی دکھ سے
کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ بھوک ہی ہے کہ جس نے ابھی گزشتہ دو دن پہلے شہر کراچی
میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران جو دلدوز اور نا خوشگوار واقعہ پیش آیا جس
میں راشن حاصل کرنے کے لئے جو بھگڈر مچی کیا کسی تہذیب یافتہ معاشرے کے
افراد کا یہ حال ہوتا ہے کیوں لوگوں کو بھوک نے اس قدر ستایا کیوں لوگ اپنی
بنیادی ضروریات سے محروم ہیں کیوں۔۔۔؟
ہم جو اسلام کے علمبردار کہلاتے ہیں کیا ہم اسلام کے اصول و ضوابط کی
پابندی کرتے ہیں ہمارے پاس عظیم اور مثالی معاشرت قائم رکھنے کے تمام ذرائع
اور علوم کا خزانہ ہمارے پاس ہے بلکہ ہماری میراث ہے لیکن صد افسوس کے اس
سب کے باوجود ہماری تہذیب کی کشتی ڈانواں ڈول ہے ہماری قوم کے بیشتر افراد
بے در بے گھر خالی پیٹ انسانیت سے دور حیوانیت کی زندگی گزارنے پر مجبور
ہیں اور یہ سب کار گزاری اس منفی بھوک کی ہے جس میں حرص اور لالچ کی بھوک
نمود و نمائش کی بھوک پیش پیش ہے جس نے چند افراد کو تو سیر رکھا ہے جب کہ
بیشتر کا نصیب خالی شکم ترستی تڑپتی سسکتی جبر کی زندگی گزرنے۔۔۔
کیا یہ ہمارے ملک کے حکمرانوں اور مخیر حضرات کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنی
قوم کے افراد کی جائز بھوک جائز اور بنیادی ضروریات کا خیال رکھ سکیں اپنے
ملک سے منفی قسم کی بھوک کا سدباب ممکن بنا سکیں اپنے ملک کو اپنی قوم کو
اس کی تہذیب کو ایسی بھوک سے پاک کر سکیں جو تہذیب کو مٹا دیتی ہے کون کہتا
ہے کہ بھوک تہذیب کو نہیں مٹاتی اپنے لالچ کی بھوک کو مٹا لیں ورنہ یہ آپ
کی تہذیب کو مٹا ڈالے گی |