زندہ قومیں اپنے ہیروز کا ایسے ہی استقبال کرتی ہیں

زندہ قومیں اپنے ہیروز کا ایسے ہی استقبال کرتی ہیں جیسے عراقی عوام نے بش پر جوتا پھینکنے والے عراقی صحافی منتظر زیدی کی ر ہائی کے بعد ان کا استقبال کیا۔ زیدی نے صدر بش پر جوتا پھینکتے ہوئے انہیں ’ کتا‘ کہا تھا ان کے اس جرم کے لیے انہیں تین سال کی سزا سنائی گئی تھی اور مارچ میں جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن ان کے صاف ستھرے ماضی کے سبب ان کی تین سال کی سزا کم کر کے ایک سال کردی گئی تھی اور اب جیل میں ان کے اچھے برتاؤ کی وجہ سے انہیں گزشتہ روز رہا کردیا گیا۔

منتظر زیدی کو صدر بش پر جوتا پھینکنے کے بعد عرب دنیا میں ایک ہیرو کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں، انہوں نے بش کو اس وقت کتا کہا تھا۔ جب امریکہ کا جھوٹ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اور بہت سے غدار ان کے آگے اور پیچھے دم ہلاتے پھر رہے تھے۔ صدر بش پر جوتا پھینکنے سے قبل منتظر الزیدی کو بہت کم لوگ جانتے تھے لیکن ان کی جرات اور قومی حمیت نے انھیں ساری دنیا میں مشہور کردیا۔ وہ قاہرہ کے ایک نجی ٹی وی چینل ’البغدادیہ‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ ایک پریس بریفنگ میں انہوں نے جب سابق امریکی صدر پر جوتا پھینکتے ہوئے کہا کہ’ کتے یہ عراقی بیواؤں، یتیم بچوں اور ان عراقیوں کی جانب سے الوداعی تحفہ ہے جو عراق میں مارے گئے ہیں‘۔ ان کا یہ انوکھا احتجاج ساری دنیا میں ٹی وی پر دیکھا گیا اور زیدی عرب دنیا کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں بھی ایک ہیرو کی حیثیت سے دیکھے جانے لگے ۔ جو لوگ بش پر جوتے پھینکنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک بش کو اس سے بہتر ڈھنگ سے الوداع نہیں کہا جا سکتا تھا۔ ایک خون آشام بھیڑیئے کے لئے یہ عبرتناک، ذلت آمیز اختتام تھا۔ زیدی کو اس کی پاداش میں جیل میں تشدد برداشت کرنا پڑا۔ ان کی اس جی داری پر عراق ہی نہیں دنیا بھر میں لوگوں نے جشن منایا، انٹرنیٹ پر گیمز بنائے گئے، ٹی شرٹ بنائی گئیں۔ اور ان کی رہائی کا جشن جاری ہے، ایسے ہی مناظر لیبیا میں اس وقت دکھائی دیئے تھے ۔ جب گزشتہ دنوں لیبیا کے ہیرولاکربی بمبار عبدالباسط علی المگراہی سکاٹ لینڈ کی جیل سے رہائی کے بعد لیبیا واپس پہنچے۔ جہاں سینکڑوں لوگ ان کے استقبال کے لیے جمع تھے۔

عبدالباسط علی محمد المگراہی کو انیس سو اٹھاسی میں پین ایم کے مسافر جہاز کو سکاٹ لینڈ کے قصبے لاکربی کے اوپر دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کے جرم میں ستائیس برس کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس واقعے میں دو سو ستر افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لیبیا کے صدر معمر قذافی کے بیٹے نے المگراہی کی لیبیا واپسی میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں اسکاٹ لینڈ کی حکومت نے لاکربی طیارے کی تباہی کے الزام سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کر دیا تھا۔ المگراہی مثانے کے کینسر میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق ان کے زندہ بچنے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔امریکی اس رہائی پر سیخ پا ہیں اور امریکہ کے صدر براک اوباما نے المگراہی کی رہائی کو غلطی قرار دیا ہے۔ امریکیوں کا مطالبہ ہے کہ لیبیا کی حکومت کو المگراہی کا ہیرو کے طور استقبال نہیں کیا جانا چاہیے تھا اور اب انہیں نظربندی میں رکھا جائے۔ امریکہ نے عبد الباسط المگراہی کی ممکنہ رہائی یا لیبیا منتقلی کو رکوانے کی کوششیں کی تھیں۔ امریکہ کے سات سینٹروں نے سکاٹ لینڈ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ عبدالباسط المگراہی کو رہا نہ کرے۔ امریکی سینیٹروں نے جن میں ایڈورڈ کینیڈی اور جان کیری بھی شامل ہیں لاکربی کے ملزم المگراہی کی جلد رہائی کے فیصلے پر تشویش ظاہر کی تھی۔ ’لاکربی کا واقعہ بھی امریکی سی آئی اے کی سازش تھی۔ جیسی سازش گیارہ ستمبر دو ہزار کا واقعے تھا۔ یہ مسلمانوں کو بنام کرنے اور ان کے ملکوں پر قبضہ کرنے کی سازش ہے جو آہستہ آہستہ بے نقاب ہورہی ہے۔

گو امریکیوں نے اس کے بدلے میں لیبیا سے بھاری تاوان حاصل کیا ہے۔ لیکن اس پر بھی وہ مطمئین نہیں ہیں۔ عراق اور لیبیا کے عوام اور حکومتیں اپنے ہیروز کا ایسے ہی استقبال کرتی رہیں گی۔ لیکن ہماری قوم کو کیا ہوگیا ہے، اور ہمارے حکمرانوں کی غیرت کہاں سو گئی ہے، کہ اس قوم کی ایک مظلوم بیٹی امریکہ کی قید میں ہے، اس پر کوئی جرم بھی ثابت نہیں ہوا، اس پر تشدد کر کے ذہنی معذور بنا دیا گیا ہے، ہماری عدالتیں، عوام، اس کی رہائی کے منتظر ہیں۔ لیکن امریکی حکومت ایک نہتی لڑی سے لرز ہ بااندام ہے۔ ڈاکٹر عافیہ اس قوم کی بیٹی ہے جسے زر فروشوں نے ڈالروں کے عوض بیچ دیا ہے، اس کے دو بچے اب بھی لاپتہ ہیں، اس کا ایک بیٹا آج بھی اپنی ماں کی راہ دیکھ رہا ہے۔ کہ شائد عید پر اسے ماں کی رہائی کا تحفہ مل جائے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418900 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More