حکمرانوں کی مرضی کے مطابق قوانین کی تشکیل اور عوام کو
نقصان پہنچا کر منافع ہی منافع، بن علی کے خاندان نے اسی طریقے سے دولت
کمائی۔ تیونس میں یہ سب کچھ کیسے ہوا، یہ بات عالمی بینک نے اپنے ایک
مطالعاتی جائزے میں بتائی ہے۔
ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں جاری ہونے والے اس جائزے کو ’آل
اِن دی فیملی‘ یعنی ’سب کچھ خاندان میں ہی‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس جائزے
کے مرتبین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تیونس کے نجی کاروباری شعبے کی آمدنی
کا بیس فیصد سے زیادہ حصہ سابق حکمران زین العابدین بن علی کے خاندان کو
جاتا تھا۔ ایک آمر حکمران کیسے اتنی دولت جمع کر پاتا ہے؟ اس سوال کا جواب
تلاش کرنے کے لیے اس جائزے میں شمالی افریقی ملک تیونس کو مثال بنایا گیا
ہے لیکن جائزے کے مرتبین میں سے ایک انتونیو نوکیفورا کے مطابق اسی طرح کے
ڈھانچے پوری دُنیا میں موجود ہیں۔
|
|
اس جائزے کے لیے تیونس کی ایسی 220 کمپنیوں کو جانچا گیا، جنہیں جنوری
2011ء میں بن علی کا تختہ الٹے جانے کے بعد ریاستی نگرانی میں لے لیا گیا
تھا۔ آمر بن علی کے خاندان نے اپنی توجہ صرف ایسے شعبوں پر مرکوز کی، جو
زیادہ سے زیادہ منافع دیتے تھے۔ ان شعبوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد
ملک بھر میں برسرِ روزگار افراد کی کُل تعداد کا صرف ایک فیصد بنتی تھی
لیکن ان سے نجی شعبے کی کُل آمدنی کا اکیس فیصد حاصل کیا جاتا تھا۔ عالمی
بینک کے جائزے کے مطابق حکمران خاندان نے ٹیلی مواصلات، ٹرانسپورٹ اور
پراپرٹی کے شعبوں کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور وہ ان
شعبوں میں قیمتوں کا تعین اپنی من مرضی کے مطابق کیا کرتا تھا۔
فرمان حکمران کی منشا کے مطابق
انتیونیو نوکیفورا بتاتے ہیں کہ ’اس طرح سے مختلف شعبوں پر اجارہ داری قائم
ہوتی چلی گئی اور یہ کمپنیاں ایسی تھیں، جو بے انتہا منافع بخش تھیں‘۔ جب
بن علی کے خاندان کا اقتدار ختم ہوا تو تیونس حکومت کے اندازوں کے مطابق یہ
خاندان تیرہ ارب ڈالر کا مالک تھا۔
دوسری طرف عوام سراسر گھاٹے میں رہے کیونکہ اکثر حالات میں یہ ممکن ہی نہیں
رہا تھا کہ حکمران خاندان کی کمپنیوں سے کوئی چیز خریدے بغیر وہ اپنے روز
مرہ معمولات کو آگے بڑھا سکیں۔ نوکیفورا کے مطابق ’دیکھا جائے تو بظاہر اس
خاندان نے کوئی غیر قانونی کام بھی نہیں کیا تھا‘۔ وہ بتاتے ہیں:’’بن علی
اور اُن کے خاندان کے افراد نے بس یہ کیا کہ پہلے سے موجود قواعد و ضوابط
کو ہوشیاری کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔‘‘
البتہ 1993ء میں سرمایہ کاری کے حوالے سے جو قانون منظور ہوا، وہ عین اس
خاندان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے وضع کیا گیا تھا۔ پچیس ایسے نئے
فرمان جاری کیے گئے، جن کے نتیجے میں نئی کمپنیوں کے لیے منڈیوں میں قدم
رکھنا مشکل بنا دیا گیا۔ عوام کو لیکن یہ بتایا گیا کہ ان ضوابط کا مقصد
صارفین کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
سیاسی تبدیلی کا ایک اہم محرک
ماہر اقتصادیات نوکیفورا کے خیال میں تیونس میں سیاسی تبدیلی کے سلسلے میں
بنیادی کردار اُس خلیج نے ادا کیا، جو معیشت تک رسائی رکھنے والی شخصیات
اور عوام کی بہت بڑی تعداد کے درمیان حائل ہو گئی تھی۔ نوکیفورا کہتے ہیں
کہ جن ڈھانچوں کی بدولت بن علی نے دولت جمع کی، وہ تیونس میں آج بھی موجود
ہیں اور ایسے میں پھر سے پرانے حالات کا لَوٹ کر آ جانا خارج از امکان نہیں
ہے۔
|
|
تاہم تیونس کے آجرین کی تنظیم کی خاتون سربراہ وداد بوشماوی خبردار کرتے
ہوئے کہتی ہیں کہ ایسے میں تمام کامیاب آجرین کو ہی شک و شبے کی نگاہ سے
دیکھنا درست نہیں ہو گا۔ وہ کہتی ہیں:’’بن علی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، جسے
ہمیں قبول کرنا ہو گا۔‘‘ وہ کہتی ہیں، اب اہم یہ ہے کہ تعمیری سوچ اپنائی
جائے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے۔
’’عرب دنیا میں ایک عمومی مسئلہ‘‘
دیکھا جائے تو تیونس واحد ایسا ملک نہیں ہے بلکہ خطّے کے دیگر ممالک میں
بھی، جہاں عوام حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ایسے ہی ڈھانچے موجود
ہیں۔ انتونیو نوکیفورا زور دے کر کہتے ہیں:’’عرب دنیا میں یہ ایک عمومی
مسئلہ ہیں۔‘‘
ماہر اقتصادیات نوکیفورا کے مطابق ’اقربا پروری اور اس سے فائدہ اٹھانے
والے مقتدر طبقے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں موجود ہیں، مثلاً روس یا پھر
یوکرائن میں بھی‘۔ نوکیفورا نے اعلان کیا کہ عرب دنیا کے دیگر ملکوں کے
اقتصادی ڈھانچوں کے بارے میں بھی ایک ایسا ہی مطالعاتی جائزہ ممکنہ طور پر
جولائی میں شائع کیا جائے گا۔ |