’’جدید دور میں اگر کسی نے غلامی کا مشاہدہ کرنا ہو تو بھارت میں بسنے والے
مسلمانوں کو دیکھ لے، بھیڑوں کے قریب کوئی خونخوار جانور آ جائے تو ڈر اور
خوف سے جو حالت بیچاری بھیڑوں کی ہوتی ہے، وہی حالت انڈین مسلمانوں کی ہے۔
اگر آپ ان سے ان کے حالات یا مسائل پر گفتگو کرنا چاہیں تو وہ سہمی ہوئی
نظروں سے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیں گے اور آپ کو جواب دیئے بغیر کھسک
جائیں گے اور کھل کر بات نہیں کریں گے۔ ایسا طرز عمل صرف نچلے طبقے کا ہی
نہیں، کروڑ پتی کاروباری مسلمان بھی اسی طرح سہمے ہوئے اور خوفزدہ نظر آتے
ہیں۔ انڈیا میں معروف مسلمان فلمی اداکاروں کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔
اگرچہ نام کے سوا ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں مگر پھر بھی اپنے آپ کو
قابل قبول بنائے رکھنے اور اپنی Survival کیلئے وہ کبھی مودی جیسے انتہا
پسند لیڈروں کے حق میں اور کبھی پاکستان کے خلاف بات کر کے اپنے آپ کو
بھارت کا وفادار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ غلامی واقعی بہت بڑی
لعنت ہے، اسی لئے اقبال غلاموں کی بصیرت اور رائے کو قابل اعتبار نہیں
سمجھتے تھے‘‘۔
2اپریل کو ایک قومی روزنامے میں یہ الفاظ ملک کی ایک معروف شخصیت ذوالفقار
احمد چیمہ نے تحریر کئے جو حال ہی میں بھارت سے لوٹ کر آئے ہیں۔ ان کے ان
الفاظ نے چند ہی ہفتے پہلے کے وہ مناظر یادوں کے جھروکوں سے آنکھوں کے
سامنے لا کھڑے کئے جن میں ممتاز بھارتی ’’مسلمان‘‘ اداکار سلمان خان، بھارت
میں 30ہزار مسلمانوں کو انتہائی اذیت اور دردناک طریقے سے شہید کرنے والے
نریندر مودی کے ساتھ بسنت میلہ منانے اور پتنگیں اڑانے میں مگن تھا۔ کون
نریندر مودی؟ جس کے ہاتھوں جلنے مرنے اور خانہ برباد ہونے والے گجرات کے
مسلمانوں میں سے 50ہزار آج بھی مر مر کر جی رہے ہیں اور ان کے سر پر نہ چھت
ہے اور نہ چار اطراف کوئی دیوار…… وہی مودی جس کے بارے میں اب ہندوؤں کی
جانب سے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ (نعوذ باﷲ ثم نعوذ باﷲ) کہ اب تو
مان لو! رسول ہیں مودی …… مودی قرآن میں ہے…… مودی اذان میں ہے…… وہی مودی
جس نے مسلمانوں کو کتے کا بچہ کہا تو اس پر ڈٹ گیا اور کوئی اس کا کچھ نہ
بگاڑ سکا۔ 3اپریل کو بھارتی اردو اخبارات میں ایک خبر چھپی جس میں بتایا
گیا کہ نئی دہلی کے معروف مقام جنتر منتر کے این ڈی ایم سی کنونشن ہال میں
راشٹریہ علماء کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے
علماء اور معززشخصیات نے شرکت کی۔ جس میں مہمان ذی وقار جناب اندریش کمار،
رام لال جی کے علاوہ جماعت علماء ہند کے صدر مولانا صہیب قاسمی، عمر افضال
اور گریش جوپال نے شرکت کی۔ کہا گیا کہ راشٹریہ علماء کانفرنس مودی کو
وزیراعظم بنانے کیلئے عہدبستہ ہے۔
بھارت میں مسلمان روزانہ ایسے بے شمار واقعات سے گزرتے ہیں کیونکہ ہندوؤں
کی غلامی کا جو طوق ان کے گلے میں پڑا ہے، اس سے چھٹکارا پانا انہیں محال
نظر آتا ہے اور وہ اپنے پاؤں کو اس قدر بوجھل پاتے ہیں کہ اسے اٹھانے کی
جسارت بھی گوارا نہیں کرتے۔ بھارتی مسلمانوں کی آبادی چاہے جتنی بھی ہو، ان
کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے کسی تنہا لٹھ بردار پولیس اہلکار کے سامنے بھاگتے
عوام کی ہوتی ہے۔ کہنے کو 25سے 30کروڑ…… لیکن حیثیت میں اس قدر کمزور کہ
کسی بااختیار سیٹ پر وہ بیٹھ نہیں سکتے اور جنہیں موقع دیا جاتا ہے ان کے
بارے میں یقین ہو چکا ہوتا ہے کہ یہ ہندوؤں سے بڑھ کر ’’ہندو‘‘ ہیں اور کچھ
نہیں۔
بھارت سے شائع ہونے والا ایک بڑا اردو اخبار روزنامہ انقلاب بھی ہے۔ اس کے
6اپریل کے شمارے کی خصوصی اشاعت میں ایک مقامی مسلمان تجزیہ کار ڈاکٹر نصر
فردوس ’’سیکولر ہندوستان پر بھگوا کا منحوس سایہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں
کہ
1857ء کے غدر میں بڑے پیمانے پر انگریزوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا، خاص
طور پر ہندوستان کے علماء جن کی بے پناہ قربانیاں رہیں اور تاریخ گواہ ہے
کہ دلی سے پانی پت تک دو ہزار علماء کی گردن کاٹ کر انگریزوں نے سڑک کے
کنارے پیڑوں پر لٹکا دیا تھا۔ دیوبند، ندوہ، دیگر مدارس اسلامیہ اور اسلامی
مراکز نے کھل کر انگریزوں کی مخالفت کی اور آزاد ہندوستان کے خواب کو
شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے بے شمار قربانیاں دیں۔ جہاں ایک طرف بہادر شاہ
ظفر کو برما بھیج دیا گیا اور بیگم حضرت محل کو کاٹھمنڈو جہاں ان کی قبر
چھوٹی مسجد میں واقع ہے۔ آج ہندوستان میں فرقہ پرستی اس قدر اپنی جڑ مضبوط
کر چکی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ سے مسلمانوں کی قربانیاں کا نام و نشان
دھیرے دھیرے مٹایا جا رہا ہے۔ گزشتہ 60سالوں میں آر ایس ایس نے ملک کے ہر
شعبے میں خاکی ہاف پینٹ اور کالی ٹوپی والے بھگوا بریگیڈ کے ذریعہ بنائی
گئی ہندوستان کی تاریخ کو چھوٹے چھوٹے بچوں سے لے کر بڑوں تک زہر گھول ڈالا
ہے۔ یہ زہریلا پیڑ اب کافی تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اب ہر سال
صرف اور صرف بھگت سنگھ کی ہی شہادت منائی جائے گی۔ اشفاق اﷲ خان، شیخ
بھکاری جیسے بے شمار مسلم رہنماؤں جنہوں نے جنگ آزادی میں قربانیاں دیں، ان
کا نام دھیرے دھیرے مٹایا جا رہا ہے۔ شیومندر، ایکل ویدھیالہ اور دیگر
مختلف ناموں سے تعلیمی ادارے قائم کر کے بچوں اور نوجوانوں کو یہ بتایا جا
رہا ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے تمام مسئلے کی جڑ مسلمان ہیں۔ آر
ایس ایس کی تاریخ رہی ہے کہ ان کا بنیادی مقصد بھارت میں ہندو راشٹر کا
قیام ہے۔ آزادی کی لڑائی میں آر ایس ایس نے کھل کر انگریزوں کا ساتھ دیا۔
انگریزوں سے معافی مانگی، اٹل بہاری واجپائی نے بھی انگریزوں سے معافی مانگ
کر ہندوستان کی آزادی کی لڑائی کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہ ہندوستان کا المیہ
ہے کہ جس شخص نے جنگ آزادی کی مخالفت کی اور انگریزوں کا ساتھ دیا، اسے آج
ملک کا ہیرو بنایا جا رہا ہے اور ایسے تمام مسلم رہنما جنہوں نے جنگ آزادی
میں قربانیاں دیں آج ان کا نام لینے کو کوئی تیار نہیں۔
آج پولیس اور انتظامیہ کا ایک بڑا حصہ بھگوا بریگیڈ کا حامی ہے جس کی تصدیق
اکثر ہوتی رہی ہے۔
یعنی بھارت کے مسلمانوں کو ہر لحاظ سے اس قدر پسماندہ اور دیوالیہ کر دیا
گیا ہے کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی جواب دے گئی ہے۔ یہی تو وجہ ہے
کہ مسلمانوں کی بڑی آبادی نے اب خود ہی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ گائے سمیت
کوئی بڑا جانور کبھی ذبح ہی نہیں کریں گے۔ ذہنی پسماندگی اور غلامی کی جو
حالت بھارتی مسلمانوں کی دیکھی جا رہی ہے اس کا تو شاید تاریخ میں کبھی
مسلمانوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا لیکن اس بے بسی پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان
کے حق میں بولنے والا بھی کوئی نہیں اور اگر کوئی بول بھی بڑے تو بھارتی
مسلمانوں کے نمائندے اسے یہ کہہ کر چپ کرا دیتے ہیں کہ ’’ہم یہیں بھلے ہیں،
ہمیں نہ چھیڑو، ہمارے حالات تم سے زیادہ بہتر ہیں‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ
بھارت کے مسلمانوں نے ذہنی طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ جیسے بھی ہو وہ
بھارتی ہندوؤں کے غلام بن کر رہیں گے اور اپنی حرکات و سکنات سے بھی ایسا
شائبہ پیدا نہیں ہونے دیں گے کہ وہ ہندوؤں کے خلاف ہیں یا اس کا سوچ بھی
سکتے ہیں۔ اس پسماندگی کی اصل بنیاد تو سانحہ مشرقی پاکستان سے رکھی گئی
تھی جب پاکستان اپنی ہی تین شخصیات یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب
الرحمن کے ہاتھوں دو ٹکڑے ہوئے تھا لیکن اب 43سال بعد امید کا ایک دیا تو
جلا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے اندر 42 سال بعد مزاحمت کی چنگاری بھڑکی ہے
جس کا نتیجہ کبھی طلباء تنظیم سیمی (SIMI) پر پابندی کی شکل میں نظر آتا ہے
تو کبھی انڈیا مجاہدین وغیرہ کے ساتھ وابستگی کا الزام لگا کر ہزاروں
مسلمانوں کی جیل سپردگی اور علماء پر حملوں اور انہیں پس دیوار زنداں
دھکیلنے سے کہ وہ بغاوت پر آمادہ و سرگرم ہیں۔
بھارت میں بدترین غلامی کے ساتھ ساتھ کچھ مسلمانوں کی یہی ابھرتی سوچ خطرے
کے الارم پھربجا چکی ہے۔ دیکھتے کہ تاریخ کا دھارا کب رخ بدلتا ہے، دنیا
میں سب سے زیادہ آزادی کی نعمت سے مستفید ہونے اور بھارتی مسلمانوں کی
قربانیوں سے آزادی کی نعمت پانے والے اہل پاکستان کے لئے بھی یہ سوال سب سے
بڑا ہے کہ انہوں نے اپنے پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کیلئے آخر آج تک کتنا
سوچا اور انہیں آزادی کی منزل تک پہنچانے کیلئے کیا کچھ کیا……؟ |