نسبت اور لذت آشنائی

(یہ تحریر 27 رمضان المباک کی شب، بروز جمعتہ المبارک کی با سعادت ساعات میں لکھی گئی ہے، اللہ تعالیٰ الفاظ کی لغزش معاف فرمائے)

زندگی کے لمحے نہ گنو بلکہ لمحوں میں زندگی تلاش کرو کیونکہ یہ تو وہ شمع ہے جو اِک بار جل جائے تو بجھتی نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ دیے سے دیا جلائے بٹتی چلی جاتی ہے۔ یہ روشن چراغ اگرچہ تمام دنیا کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے مگر اپنے اِرد گرد اندھیرا بھی نہیں ہونے دیتے۔ خودی (میں، Self) کا دیا تو نسبت کی لو سے روشن ہوتا ہے۔

پھولوں کو خوشبو کی نسبت نے باقی کر دیا تو کانٹوں کو اذیت کی نسبت نے فانی بنا دیا٬ جبکہ لمحوں کو زندگی سے نسبت ہوئی تو دو ممکنہ راہوں کے مسافر بنے۔ کچھ ناآشنائی کے راہوں پہ چل کر بے نشاں منزل کی راہ میں گم ہو گئے٬ ناہموار٬ سنسان٬ غیر شفاف٬ بے ذائقہ٬ بے رنگ اور اذیتوں سے بھرپور گھاٹیوں کا پانی پیا اور بحر زندگی میں پرکاہ کی مانند بہتے طوفانوں کے تھپیڑے کھاتے کسی انجانے گرداب میں دھنستے اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہو کر فنا تک جا پہنچے۔ اور کچھ لمحے شناسائی کی لذت سے سرشار ہو کر محفوظ ہوئے اور اطمینان کی سر سبز و شاداب وادیوں کے راہی بنے٬ جبکہ ہموار٬ خوش ذائقہ٬ خوش رنگ٬ شفاف٬ مسرتوں سے لبریز گھاٹیوں کا پانی پیا اور بحر زندگی سے عافیت و کامیابی کے ساحل تک پہنچ کر باقی ہو گئے۔

کبھی پانی کی نسبت ہواؤں سے ہوئی تو بادل بنے اور کبھی پانی کی نسبت دریا سے ہوئی تو موج نے جنم لیا کبھی ہواؤں کی نسبت بادلوں سے ہوئی تو گھٹاؤں نے جنم لیا۔ اگر روشنی کی نسبت خورشید سے ہوئی تو کرنوں نے جنم لیا اور کبھی روشنی کی نسبت ماہتاب سے ہوئی تو چاندنی بن گئی۔ اگر ہواؤں نے صبح سویرے کی نسبت حاصل کی تو نسیم سحر بن گئیں۔

نسبت بھی کیا رنگ بکھیرتی ہے ایک ہی مقام کی مٹی کندن بن کر اگر خیر کی ہمسفر بنتی ہے تو باعث برکت بن جاتی ہے اور اگر شر کی ہمسفر بنتی ہے تو باعث زحمت بنتی ہے۔ اس نسبت کے کیا کہنے جسکے باعث ایک طرف پتھروں کو مقام رحمت بنا دیا تو دوسری طرف مقام ذلت٬ یہ سب کچھ نسبت کا ہی کمال ہے ۔

زندگی کی کٹھن راہوں پر اور بھول بلیوں میں اگر نسبت کا عمل دخل نہ ہو تو منزل کسطرح معلوم ہو گی؟ یہ بات تو قرآن کریم میں بھی بندوں کی زبان سے بیان کی ہے کہ
” تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ انکا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔
نہ انکا راستہ جن پر تیرا غضب ہوا٬ اور نہ ہی گمراہوں کا راستہ” (الفاتحہ5,6,7 )

یعنی اللہ کے انعام یافتہ بندوں کا راستہ اگر ہمیں مل جائے تو منزل مل جاتی ہے ورنہ گمراہی اور یہ نسبت کا ہی کمال ہے کہ راہی منزل پاتا ہے۔ جبکہ بندہ کی اپنے رب سے نسبت کلمہ کے باعث ہے٬ لا٬ کہ ہر شے کی نفی اور ہر نسبت ناطہ توڑا یہ پہلا مقام٬ اور پھر اللہ سے نسبت جوڑی کہ وہی معبود برحق ہے یہ دوسرا مقام٬ اور اللہ سے نسبت جوڑنے کے بعد اگلا مقام۔۔۔
دیدہء دل وا کیجئے کہ مقام آگہی ہے اور کہیں بے خبری میں گزر نہ ہو جائے !!!
خیر یعنی اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی نسبت کا مقام بھی عجب ہے٬
اگر کتے کی نسبت خیر سے ہو تو جنت کا باسی بنتا ہے !
پانی کی نسبت خیر سے ہو جائے تو آب زم زم بن جاتا ہے!
پہاڑوں کی نسبت خیر سے ہو جائے تو کبھی صفا و مروا اور کبھی کوہ طور بن جاتے ہیں!
راہوں کی نسبت خیر سے ہو جائے تو وہ طواف بن جاتی ہیں!

مگر ایک اور بھی نسبت ہے کہ قلم میں اس کو بیان کرنے کی سکت نہیں۔ ان الفاظ کے موتیوں کو تحریر کی لڑیوں میں پرونے سے قبل گھنٹوں رقت طاری رہی اور پھر جا کر ہمت پیدا ہوئی ۔(اگر لکھنے میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے)
اگر لفظوں کی نسبت کالی کملی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم والے سے ہوئی تو قرآن بن گئے!
اگر خطہ زمیں کی نسبت آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی تو وہ مکہ اور مدینہ بن گئی!
وہ گنبد جو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت میں آ گیا وہ گنبد خضرا بن گیا!
اگر علی رضی اللہ عنہ کی نسبت آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی تو علی حیدر کرار رضی اللہ عنہ بن گئے!
اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت کالی کملی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم والے سے ہوئی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بن گئے!
وہ مقام جو کالی کملی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم والے کو پسند آجائے مقام مسجود، یعنی قبلہ بن جاتا ہے!
اور وہ بے ادب٬ جسکی آواز آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ناگوار گزرے تو اسکا ایمان بھی غارت و برباد ہو جاتا ہے کہ اسکو پتہ بھی نہیں چلتا! تو پھر اعمال کا کیا دعوا ہ؟ ( بحوالہ سورت الحجرات :2)

اس کائنات کی نسبت اک آواز سے ہے، جس سے ہم آواز ہو کر اس کائنات کا ذرہ ذرہ ارتعاش (Vibration) میں ہے، اور ایک محبت٬ نسبت کی طاقت ہے جو سب کو باندھے ہوئے ہے, آئیے اس آواز سے ہم آواز ہو کر اس نسبت لاثانی سے ہمکنار ہو جائیں اور اس کائنات کی آواز کو سمجھیں اور اس محبت میں غرق ہو کر لذت لا ثانی سے سرشار ہو جائیں٬
ان اللہ و ملائکتہ یصلّون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیما(القرآن)
“بے شک اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں،
اے ایمان والو تم بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر درود و سلام بھیجو”
اللھمہ صلی علی محمد النبی الامی وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 163815 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.