ہم لوگوں کو دین سے قریب کررہے ہیں یا دور


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
اللہ تعالیٰ کے دنیا کی تخلیق کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو انسانی شکل میں اپنا نائب بناکر بھیجنے اور اماں حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت آدم علیہ السلام سے مل کر اپنی نسل کو آگے بڑھانے اور اس نسل میں پیدا ہونے والے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کا دنیا میں آنے انہیں امتوں سے نوازنے ان ہر کتابوں کا نزول فرمانے اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو اپنا آخری نبی بناکر دنیا میں بھیجنے ان کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان کا سلسلہ اور ان کے بعد تابعین تبہ تابعین اور پھر اولیاء کرام اور بزرگان دین کی آمد کا سلسلہ شروع ہونے اور یہ سلسلہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہنے کا مقصد باری تعالیٰ کے اپنی واحدانیت اور دین کی تبلیغ و ہدایت لوگوں تک پہنچانا تھا اور اسی مقصد کے لئے باری تعالی نے اس دنیا کی تخلیق کی اور یہاں لاتعداد مخلوقات کا وجود ممکن بناکر لوگوں کو یہ پیغام پہنچانا تھا کہ اس پوری کائنات کا خالق و مالک صرف وہ ایک ہی ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ اس سے جیسا کوئی دوسرا دنیا میں موجود ساری مخلوقات کی زندگی اور موت کا دارومدار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی ہے کس کو رزق دینا ہے کب دینا ہے کہاں سے دینا ہے کیسے دینا ہے یہ صرف وہ ذات باری تعالٰی جانتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمیں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں سے واضح پیغام ملتا ہے کہ ہمیں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے مطلب یہ کہ ہم صرف اس کی عبادت کریں اس کے احکامات کی پیروی کریں اس کے حبیب کریمﷺ کی احادیث پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف اپنی زندگی گزاریں بلکہ جو لوگ دین سے دور ہیں انہیں دین اسلام کی صحیح اور واضح شکل دکھاکر انہیں نہ صرف رہنمائی فراہم کریں بلکہ انہیں دائرہ اسلام میں داخل بھی کریں جیسے انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے بعد آنے والے لوگوں نے کیا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے بھی لوگوں کو دین کی تعلیم اور اس کی تبلیغ کرن کے ساتھ ساتھ انہیں دائرہ اسلام میں داخل بھی کیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں اور مختلف لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے واقعات کو پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے دین اسلام کے معاملات اور اس کی خوبیوں سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جبکہ کچھ لوگوں نےہمارے انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کی زندگی اور ان کے اعمال سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان میں سے کئی لوگوں کو ایسے ایسے مقامات و مراتب سے نوازا گیا کہ وہ لوگ تاریخ کا عظیم حصہ بن گئے ان ساری باتوں کا لب و لباب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں کچھ لوگوں کو دین کا علم عطا کرکے اسی دنیا میں کسی خاص مقام یا منصب پر فائز کیا ہے جنہیں ہم علماء کرام اور مفتی کے منصب سے دیکھتے اور سنتے ہیں تو ان کی ذمہداری یہ ہے کہ اپنے علم کی بدولت بھٹکے ہوئے لوگوں کو اپنے راستوں پر صحیح نہ چلنے والے لوگوں کی رہنمائی کرکے انہیں صحیح راستوں کی طرف رواں دواں کریں اور انہیں دین اسلام کی اعلی صفات کے بارے میں معلومات فراہم کر کے انہیں اسلام کی بنیادی تعلیم سے آراستہ کریں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر دیکھا جائے تو یہ ذمہ داری ہر اہل ایمان مسلمان پر ہے کہ وہ لوگوں کی اصلاح کے لئے انہیں جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے علم عطا کیا ہے اس کی مدد سے ان کی رہنمائی کریں ہوسکتا ہے کہ آپ کے کسی عمل سے کوئی راہ راست پر آجائے اور آپ کی آخرت بھی سنور جائے لیکن جب ہم اپنے اطراف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے اعمال سے لوگوں کو دین کے قریب نہیں بلکہ انہیں دین سے دور کرتے جارہے ہیں وہ لوگ جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں وہ منکر خدا ہیں لیکن ان کے اعمال ہم مسلمانوں سے اچھے ہیں جبکہ اگر کوئی انسان ہمارے مذہب کی طرف آنے کی خواہش کرتا ہے تو وہ ہمارے اعمال سے دل برداشتہ ہوکر واپس پلٹ جاتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے ؟

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دو دوست تھے ایک کا نام محمد سلیم اور دوسرے کا نام جونسن تھا یعنی وہ یہودی تھا دونوں اسلام آباد میں ایک ہی جگہ کام کرتے تھے لہذہ ان کی دوستی ہوگئی جب بھی نماز کا وقت ہوتا تو محمد سلیم سارے کام چھوڑ کر نماز پڑھنے چلا جاتا اور جب وہ نماز سے فارغ ہوکر واپس آتا تو پہلے کچھ پڑھتا پھر دعا کرتا اور اپنے کام میں مصروف ہوجاتا جونسن اس کے یہ معاملات بڑے غور سے دیکھتا تھا اور سوچتا کہ یہ کیسا مذہب ہے کہ جہاں وقت کی پابندی بھی ہے اور انسان اپنے سارے ضروری کام چھوڑ کر صرف اپنے رب کی عبادت کی طرف چلا جاتا ہے پھر وہ آہستہ آہستہ محمد سلیم سے اسلام کے بارے میں معلومات لینے لگا جس طرح اسلام کی حقانیت اس پر واضح ہوتی گئی اور اسے سمجھ آتی گئی تو اس کی دلچسپی اور بڑھ گئی اور یوں ایک دن اس نے محمد سلیم سے کہا کہ مجھے تمہارے مذہب میں داخل ہونا ہے اس کے لئے مجھے کیا کرنا ہوگا ؟

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں محمد سلیم نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ تم میرے ساتھ مسجد چلو میں تمہیں وہاں کے امام سے ملواتا ہوں وہ تمہیں کلمہ پڑھوائیں گے اور تم ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرکے ہمارے مذہب میں داخل ہو جائو گے اور اس کے بعد وہ تمہارا نام تبدیل کرکے اسلامی نام رکھ دیں گے جونسن اپنے دوست محمد سلیم کے ساتھ مسجد کی طرف چل دیا وہ دونوں جیسے ہی مسجد کے پاس پہنچے تو محمد سلیم نے جوتے اتارے اور جونسن سے بھی جوتے اتارنے کو کہا تو جونسن نے بھی جوتے اتار دئے پھر محمد سلیم نے جوتے اٹھائے اور مسجد میں داخل ہونے لگا تو جونسن نے کہا کہ یہ جوتے کہاں لیکر جارہے ہو تو محمد سلیم نے کہا کہ دراصل اگر جوتے یہاں چھوڑ دئے تو کوئی اٹھاکر لے جائے گا یعنی چوری ہو جائیں گے تو جونسن کو بڑی حیرت ہوئی اور وہ کہنے لگا کہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور بھی آتا ہے تو محمد سلیم نے کہا کہ نہیں ہماری عبادت گاہ میں غیر مسلم کو آنے کی اجازت نہیں تو جونسن نے کہا کہ پھر یہ جوتے کون چوری کرتا ہے محمد سلیم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور وہ شرمندہ ہوگیا تو جونسن نے کہا کہ مجھے ایسا مذہب اختیار نہیں کرنا جہاں لوگ اندر عبادت کرتے ہوں اور باہر چوری چلو آفس چلتے ہیں محمد سلیم شرمندہ ہوکر اس کے ساتھ آفس کی طرف چل دیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ بات حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں جوتوں کے غائب ہونے اور چوری ہونے کی سب سے زیادہ واردات مساجد میں ہوتی نظر آتی ہیں اس واقعہ میں ایک یہودی کو مسلمان کی عبادتوں اور اعمال نے اتنا متاثر کیا کہ وہ اسلام میں داخل ہونے خواہش کرتا ہے لیکن ایک برے عمل نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا ہمیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان بننے سے لیکر ابتک مسجدوں سے جوتے چوری ہونےکے واقعات کی روک تھام میں ہم ناکام رہے ہیں تو سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو دین کے قریب کررہے ہیں یا دور اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کررہے ہیں یا اپنے اعمال سے اسلام کے خلاف کیونکہ جب بھی کسی غیر مسلم کے اسلام میں داخل ہونے سے رکنے یا بھٹکے ہوئے کسی مسلمان کو صحیح راستے پر آنے سے رکتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے تو وہاں ہماری اپنی کمزوری اور کمزور اعمال ہی نظر آتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ معاملہ صرف غیر مسلموں کی حد تک نہیں ہے بلکہ ہمارے کسی بھی عمل سے ہمارے اپنے مسلمان بھائی کے دل میں بھی دین اسلام کے بارے میں کسی قسم کا خدشہ پیدا ہو جائے تو یہ بھی شرعی اعتبار سے ایک ناپسندیدہ عمل ہے صحیح البخاری کی ایک حدیث حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص آبپاشی کے دو اونٹ لے کر آیا جبکہ رات کافی گزر چکی تھی، اتفاقا حضرت معاذ ؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ اس نے اپنے اونٹ بٹھائے اور حضرت معاذ ؓ کی طرف نماز کے لیے چلا آیا۔ انہوں نے سورہ بقرۃ یا سورۃ نساء پڑھنی شروع کر دی، چنانچہ وہ شخص وہاں سے چلا گیا اور اسے معلوم ہوا کہ حضرت معاذ نے اس کے متعلق کوئی تکلیف دہ بات کہی ہے۔ وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے حضرت معاذ ؓ کی شکایت کی تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ’’اے معاذ! کیا تو فتنہ پرور یا فتنہ انگیز ہے؟ تو نے ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾، ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ اور ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھائی جبکہ تیرے پیچھے عمر رسیدہ، ناتواں اور ضرورت مند لوگ نماز پڑھتے ہیں۔‘
( صحیح البخاری 705)

اس حدیث کے خلاصہ میں علماء فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ کی تو یہ بھی فرمایا کہ ہمارا کام لوگوں کو دین کی طرف لانا ہے انہیں بدظن کرنا نہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بات یہ ہی ہے کہ ہمارے کسی بھی عمل سے کوئی انسان ہمارے دین سے بدظن نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنا نائب بناکر بھیجا ہے اس لئے ہمارے اعمال ہمارے اخلاق اور ہمارے کردار سے لوگ متاثر ہوں گے تو وہ ہمارے دین کی طرف راغب ہوں گے ورنہ وہ متنفر ہو جائیں گے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جماعت شروع ہونے سے قبل ہر مسجد میں یہ اعلان ہوتا ہے کہ اپنا موبائل بند کرلیں لیکن پھر بھی دوران جماعت کسی نہ کسی کی موبائل رنگ سننے کو ملتی ہے بدقسمتی سے ایسے ہی ایک شخص مسجد میں نماز کی ادائگی کے لئے داخل ہوا تو اس دوران نماز اس کے موبائل پر رنگ بجنے لگی اور جب نماز ختم ہوئی تو لوگوں نے امام سمیت اسے ذلیل کیا اور برا بھلا کہا جس کی وجہ سے وہ شرمندہ ہوا اور نظریں نیچے کرکے مسجد سے نکلا اور دل میں سوچا کہ آئندہ میں مسجد میں یا کم از کم اس مسجد میں نہیں آئؤں گا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شام ہوتے ہی وہ شخص اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک کلب میں پہنچ گیا وہاں اس کے ہاتھ سے ایک گلاس گر کر ٹوٹ گیا جسے دیکھ کر وہ شرمندہ ہوا لیکن منیجر نے آتے ہی پوچھا جناب آپ کو لگی تو نہیں گلاس کی خیر ہے یہ تو ٹوٹتے رہتے ہیں اسے حیرت ہوئی اور اس نے سوچا کہ یہاں تو روز آنا چاہیے اب آپ فرق دیکھئے کہ ہمارے اخلاق اور غلط رویے کی وجہ سے ہم لوگوں کو اپنے دین سے متنفر کردیتے ہیں جبکہ ایسے موقع پر شیطان تیار ہوتا ہے کہ کب ہم کوئی غلطی کریں اور وہ اپنا وار کرنے میں کامیاب ہو اور یہاں وہ کامیاب ہوگیا جبکہ اہل ایمان مسلمان ہونے اور اللہ تعالی کے نائب ہونے کی وجہ سے ہمیں اپنے اچھے اور نیک طرز عمل سے لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے یہ ہی ہماری اصل ذمہ داری ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے اردگرد بسنے والے چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہمیں اپنے طرز عمل سے اپنے دین کو مظبوط بنانا ہوگا نہ کہ کمزور کیونکہ کوئی بھی شخص آپ کے اچھے طرز عمل سے متاثر ہوکر دین کی طرف راغب ہوگا ہمارا طرز عمل ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص ہمارے دین سے جڑنے کی بجائے اس سے دوری اختیار کرنے لگے یاسر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا اس کے ساتھ وہاں پر ایک لڑکی جو یہودی مذہب سے تھی کام کرتی تھی وہ اپنے مذہبی قوانین کے خلاف تھی اور اکثر اسے چھوڑنے کی باتیں کیا کرتی تھی اس کی اور یاسر کی دوستی ہوگئی اور یہ دوستی آہستہ آہستہ پیار میں بدل گئی اور جب اس لڑکی نے یاسر سے کہا کہ کیا تم مجھ سے شادی کرو گے ؟ تو اس نے کہا کہ ہاں کروں گا لیکن میری ایک شرط ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس لڑکی نے کہا کیسی شرط ؟ تو یاسر نے کہا کہ تمہیں پہلے مسلمان ہونا پڑے گا اگر تم میرے مذہب یعنی اسلام میں داخل ہوجائو تو میں تم سے شادی کرلوں گا اب وہ یہودی لڑکی ویسے بھی اپنے مذہب سے نالاں تھی لہذہ اس نے یاسر کی یہ شرط منظور کرلی یاسر اس لڑکی کو لیکر ایک مسجد کے امام کے پاس پہنچ گیا اور عرض کیا کہ ہم شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ لڑکی یہودی مذہب سے ہے جبکہ اب یہ لڑکی مسلمان ہونا چاہتی ہے اس کو اسلام میں داخل کر لیجئے تو امام صاحب نے کچھ ضروری وضاحت کے بعد اس لڑکی سے کہا کہ کیونکہ تم ایک یہودی مذہب کی پیروکار ہو لہذہ ہمارے دین کی طرف آنے سے پہلے تمہیں کچھ عہد کرنے ہوں گے تو لڑکی نے کہا کہ وہ کیا ؟

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام صاحب نے کہا کہ آج کے بعد تم شراب نہیں پیوگی تم زنا کی طرف نہیں جائو گی اور نہ ہی کبھی تم جھوٹ بولو گی وغیرہ وغیرہ یہ سن کر لڑکی نے عہد کیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئی اس کے بعد امام صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا لیکن اچانک وہ لڑکی بولی کہ امام صاحب آپ نے مجھے تو مسلمان کردیا لیکن یاسر کو نہیں کیا اس کو بھی تو مسلمان کیجئے تاکہ ہمارا نکاح ہوسکے تو امام صاحب حیران ہوکر بولے کہ یہ تو پہلے سے ہی مسلمان ہے اس کو مسلمان کرنے کی کیا وجہ تو لڑکی بولی کہ امام صاحب جن کاموں کے نہ کرنے کا مجھ سے آپ نے عہد لیا ہے وہ سارے کام یہ کرتا ہے پھر یہ مسلمان کہاں سے ہوا ؟ اب ہم لوگوں کو اپنے دین سے قریب کررہے ہیں یا دور آپ خود ہی فیصلہ کریں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہمارا طرز عمل مسلمان ہونے کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم واقعی صرف نام نہاد مسلمان ہیں جبکہ ہمارا رہنا ہمارا بولنا ہمارا کمانا ہمارا کھانا مکمل طور پر دین کے منافی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ایمانداری ، انصاف ، حسن سلوک جیسے واقعات ہمیں غیر مسلم ممالک میں زیادہ پڑھنے ، سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ قرآن و حدیث میں یہودیوں اور کفاروں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ وہی نظر آتے ہیں لیکن مسلمانوں کا ذکر جس طرح سے کیا گیا ہے وہ مسلمان کہیں نظر نہیں آتے کیونکہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں کام کے نہیں آج بھی ایمانداری میں پہلے نمبر پر آنے والا ملک جاپان ہے جو ایک یہودی ملک ہے اس سے بڑی ہماری بدقسمتی اور کیا ہوگی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ غیر مسلم ہیں اور وہ کسی نہ کسی حوالے سے ہمارے دین کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو انہیں اپنے طرز عمل سے ایسے متاثر کریں کہ وہ ہمارے دین کی اعلی صفات سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوجائیں اور ہمیں کوشش کرنا ہوگی کہ ہمارے کسی بھی عمل سے کوئی شخص متنفر نہ ہو چاہے وہ غیر مسلم یو یا نام نہاد مسلمان جس کی نظریں ہمارے مذہب کی کمزوریوں پر زیادہ رہتی ہے کیونکہ اس بات میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کی ہمارا دین ایک مکمل دین ہے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے سچا ہے حق ہے اور باقی ماندہ مذاہبِ صرف دھوکا اور جہنم میں لیجانے والے مذاہبِ ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے آج کے معاشرے میں اگر ہم غور کریں تو دنیا میں کم و بیش ہر جگہ مسلمانوں پر مشکلوں ، پریشانیوں اور مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور وہ حالت جنگ میں دکھائی دیتے ہیں جبکہ دوسرے اسلامی ممالک صرف تماشائی بنے یہ ظلم و بربریت کے مناظر دیکھتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کی بقاء کے لئے کوئی عملی اقدام اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتا اور یہ مسلمانوں کے ایمان کی کمزوری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے دنیاوی لالچ میں آکر ہمارے آج کے مسلمان وہ کام کرجاتے ہیں جس کی وجہ سے انسانیت بھی شرما جائے اور یہودی و کفار ہمارا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک نوجوان نے جو برطانیہ میں مقیم تھا اپنے ایک دوست کو جو بیروزگار تھا اسے برطانیہ بلوالیا وہ نوجوان باشرع تھا یعنی چہرے پر سنت مبارکہ سجائی ہوئی تھی برطانیہ میں مقیم نوجوان نے مختلف کمپنیوں میں اس کی سی وی بھیجی ہوئی تھی اور یوں ایک جگہ سے اس کو انٹرویو کے لئے کال آگئی وہ نوجوان انٹرویو کے لئے پہنچ گیا جب اس کو اندر بلوایا گیا تو اسے دیکھ کر انٹرویو لینے والے نے جو ایک انگریز تھا انگلش میں پوچھا کہ مجھے آپ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ مسلمان ہو کیا میں صحیح ہوں ؟ تو نوجوان نے کہا جی ہاں میں الحمدللہ مسلمان ہوں تو پوچھنے والے نے اس کی سی وی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ تمہاری سی وی ہماری ساری Requirements پوری کررہی ہیں لیکن ایک مسئلہ ہے یہ کہکر وہ رک گیا تو نوجوان نے پوچھا وہ کیا سر ؟ تو اس انگریز نے کہا کہ اگر تم ہماری کمپنی میں جاب کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اپنے چہرے سے اس داڑھی کو صاف کرنا ہوگا کیا تم ایسا کرسکتے ہو ؟ تو نوجوان سوچنے لگا اسے سوچتا دیکھ کر انگریز نے کہا ٹھیک ہے اگر تم ایسا کرسکتے ہو تو صبح سے ہماری کمپنی جوائنٹ کرسکتے ہو اور اگر کل تم نہیں آئے تو کسی اور کو اپوائنٹ کرلیں گے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ نوجوان بڑا پریشان ہوا اور اس نے واپس آکر اپنے دوست کو ساری بات بتائی تو دوست بھی پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں یہاں ایک عرصہ سے کام کررہا ہوں لیکن ایسا میں نے کبھی نہ سنا نہ دیکھا یہ کیا ماجرا ہے تو اس نے کہا کہ میں کیا کروں مجھے کوئی مشورہ دو تو اس نے کہا کہ یار ایسی کمپنی کی جاب آسانی سے نہیں ملتی اور دیکھو اس وقت تمہاری مجبوری ہے ابھی ان کی بات مان لو اور جب سال چھ مہینے گزریں گے تو پھر رکھ لینا ہوسکتا ہے اس وقت تمہیں کوئی کچھ نہ کہے دوست کی بات سن کر اس نے فیصلہ کیا اور وہ چہرہ صاف کرکے اگلے دن صبح ہی صبح آفس پہنچ گیا جب وہ اندر گیا جہاں انگریز آفیسر بیٹھا تھا تو اس کو دیکھ کر اس انگریز نے کہا جی فرمائے میں کیا خدمت کرسکتا ہوں آپ کی ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نوجوان نے پچھلے دن والی بات یاد دلاتے ہوئے آفیسر سے کہا کہ میں اپنا چہرہ صاف کرکے آپ کے کہنے کے مطابق حاضر ہوگیا ہوں تو اس انگریز نے کہا کہ تم نے داڑھی کیوں رکھی تھی ؟ تو اس نے کہا کہ داڑھی ہمارے مسلمان ہونے کی نشانی بھی ہے اور ہمارے نبی کی سنت بھی تو پھر تم نے صاف کیوں کروائی ؟ تو اس نے کہا کہ آپ کے کہنے پر تو انگریز آفیسر نے کہا کہ جو شخص اپنے مذہب کی پیروی نہ کرسکا اپنے خدا پر جسے رزق دینے کا بھروسہ نہ تھا جو اپنے نبی سے سنت مبارکہ صاف کرکے بیوفائی کرسکتا ہے وہ ہماری کمپنی سے وفاداری کیا نبھائے گا ہم معذرت چاہتے ہیں کہ ہم آپ جیسے انسان کو اپنی کمپنی میں جاب نہیں دے سکتے آپ جا سکتے ہیں انگریز آفیسر کی بات سن کر اس نوجوان کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور وہ سوچنے لگا کہ میں نے اس کی بات مان کر اپنے کمزور ایمان کا ثبوت دے دیا اور اسے محسوس ہوا کہ ایک مسلمان دنیاوی ضرورت یا لالچ میں کچھ بھی کرسکتا ہے یہ صورتحال اس کے لئے بڑی توہین آمیز تھی وہ سر جھکائے شرمندہ ہوکر خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکل گیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ تھا ایک غلط طرز عمل جس نے ایک غیر مسلم کی نظروں میں ایک مسلمان کے کمزور ایمان کی دلیل بن گیا اور اس کی وجہ سے انسان دین کے قریب آنے کی بجائے اس سے دور ہوجاتا ہے اور اس واقعہ سے یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ اگر ہم اپنے کسی عمل سے دوسرے انسان کو متاثر نہیں کرسکتے تو اپنے کسی عمل سے اپنے ایمان کی کمزوری کو ظاہر نہ کریں کیونکہ کسی کافر یا غیر مسلم کو دین کے قریب کرنا ایک مشکل عمل ہے اور ایسا کوئی شخص جو ہو تو مسلمان لیکن دین سے دوری کے سبب اس کے دل و دماغ میں چلنے والے شیطانی وسوسے زیادہ ہوں ان کو دور کرنے کے لئے ہمیں اپنے ایمان ہر پختہ یقین ہونا چاہیے تاکہ ہم اپنے صحیح طرز عمل سے دین کی اصل شکل ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کے سامنے لا سکیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دین کی تبلیغ کے لئے ہمارے اسلاف نے کافی تکالیف کا سامنا کیا جس کی مثالوں سے قرآن مجید کی بیشمار سورتیں اور کئی مستند احادیث مبارکہ موجود ہیں دین کی اشاعت کی خاطر ہمارے اسلاف نے جو قربانیاں دی ہیں وہ رہتی قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہیں ان کے طرز عمل اچھے اور نیک ہونے کے سبب آج کرہ ارض میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے بس آج کے اس ہرفتن دور میں دین کی تبلیغ کرنا لوگوں کی اصلاح کرنا اور لوگوں کی دین سے دوری کو ختم کرکے انہیں دین کی طرف راغب کرنا ایک مشکل عمل ہے لیکن ناممکن نہیں بس ہمیں اپنے طرز عمل سے ایسے لوگوں کی رہنمائی کرنا ہوگی ان کی اصلاح کرنا ہوگی اور یاد رکھئے اگر کوئی ایک شخص واحد بھی آپ کے اچھے اور نیک عمل سے متاثر ہوکر دین کی طرف راغب ہوگیا تو آپ آخرت سنور جائے گی ان شاءاللہ ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے دین کے خدمت کی توفیق عطا فرمائے ہمارے اچھے طرز عمل سے لوگوں کو دین اسلام کی طرف راغب ہونے کی توفیق عطا فرمائے ہمارے کسی عمل سے کوئی دین سے دوری کا شکار نہ ہو اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اپنے احکامات کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 180 Articles with 161595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.