حکمراں․․․ عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں

انتخابات کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے بھرپور تیاریوں کا آغاز کردیا ہے۔کہیں نئے اتحاد بن رہے ہیں اور کہیں پرانے ساتھ چھوڑ رہے ہیں،عوام بھی پس و پیش میں ہیں کہ آگے کیا ہوگا،اور قوم کے ہر فرد کی نظر ایک بار پھر اخلاقی پستی، معاشی پسماندگی، سیاسی بد نظمی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے والے امیدوار کی جانب لگی ہوئی ہیں،اور جرات مند، مخلص، صاحب فکر و نظر اور اعتماد کی دولت سے مزین قیادت کے منتظر ہیں۔عام عوام کی اضطرابی صورتحال دیکھ کر یاد داشت مجبور کرتی ہے کہ بزرگوں سے سنا ایک قصہ پیش کیا جائے -

گزرے وقتوں میں ایک بادشاہ اپنے ظلم و ستم کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا، غریبوں پر قہر ڈھانے کے نت نئے ہتھکنڈے ڈھونڈ کر آزمانے میں وہ بے حد ماہر تھا جس سے اسے تسکین ملتی تھی، بادشاہ کو ایک بات پر حیرت محسوس ہوتی کہ لوگ اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ ا س کاظلم و جبر سہنے کے باوجود کوئی اس کے پاس فریاد لے کر نہیں آتا، ایک روز اس نے اپنے مصاحب و وزراء سے اپنے اس دلی ملال کا تذکرہ کیا تو خوشامدی وزراء نے اس مسئلے کا حل بھی اس کے سامنے پیش کردیا ،کہ عوام کو دریا پار کرنے میں دشواری ہوتی ہے لہٰذا اس دریا پر پل بنا یا جائے اور اس پر سے گزرنے والوں سے فیس کی صورت ٹیکس وصول کیا جائے،جس پر بادشاہ نے فوری طور پر دریا پر پل بنانے کے احکامات جاری کردیے اور دیکھتے ہی دیکھتے پل تیار ہوگیا، بادشاہ انتظار کرنے لگا کہ شاید عوام میں سے کوئی اس کے پاس اس کی شکایت لے کر آئے، مگر جب کئی روز تک کوئی نہیں آیا تو ان ہی وزیروں نے بادشاہ سے کہا کہ اب وہ واپسی کے راستے پر بھی فیس عائد کردے، بادشاہ نے ایسا ہی کیا، اس پر بھی کوئی دربار میں شکایت لے کر نہیں آیا، اس کے بعد بادشاہ نے وزراء کے کہنے پر فیس میں اضافہ کردیا، اس پر بھی کوئی نہیں آیا۔ بادشاہ فیس میں اضافہ کرتا رہا اور اس کے خزانے میں بھی اضافہ ہوتا رہا مگر کوئی بھی بادشاہ کے پاس شکایت لے کر نہیں آیا۔ لوگوں کی بے حسی دیکھ کر بادشاہ نے پل کی دونوں جانب چند لوگ مقرر کیے جو آنے جانے والوں کو جوتے مارنے لگے۔اب وہ پر امید تھا کہ کوئی نہ کوئی ضرور اس فعل کی شکایت لے کر آئے گا۔ جوتے مارنے والے مقرر کرنے کے دوسرے ہی روز عوام کا ایک وفد بادشاہ کے پاس آیا، بادشاہ کو امید تھی کہ لوگ اس سے اس سلوک پر شکایت کریں گے اور اس کو ختم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے برعکس وفد میں سے ایک شخص نے عرض کی کہ ’’بادشاہ سلامت آپ نے جو جوتے مارنے والے مقرر کیے ہیں ان کی تعداد بڑھا دیں تاکہ ہمیں پل عبور کرنے میں تاخیر نہ ہو‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے اپنا سر پکڑ لیا۔

کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ صورت حال آج کے عوام پربھی صادق آتی ہے، حکومت مہنگائی، کرپشن،گھوٹالے، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، دہشت گردی میں آئے دن کا اضافہ کرکے جن کی قوت برداشت کو جانچ رہی ہے اور عوام ہیں کہ کوئی حرف ِ شکایت منہ پر نہیں لاتے، ہر مہینے ایک سے دو مرتبہ مہنگائی میں اضافہ کیا جاتا ہے، ہر ماہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں،گیس سلینڈر کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں، دیہی علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کو بڑھاتے بڑھاتے 10تا 12گھنٹے روزانہ پر لے آیا گیا ہے، حکومت سے اصل دہشت گردی کنٹرول نہیں ہورہی ہے،کیونکہ وہ اس کی ذمہ داری دوسری جماعتوں پر منتقل کرکے خود بری الذمہ ہوجاتی ہے۔عوام کی صورت حال یہ ہے کہ متوسط طبقہ غریب طبقے میں تبدیل ہوگیا ہے جن سے اپنی سفید پوشی چھپانا ممکن نہیں رہا جبکہ غریب انتہائی پستی میں دھکیل دیے گئے ہیں،یہ قدرت کا قانون بالکل درست ہے کہ جیسے لوگوں کے اخلاق اور اعمال ہوں گے ان پر ویسے ہی حکمراں مسلط کیے جائیں گے۔عوام․․․حکمرانوں کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں۔

موجودہ حالات میں جب عوام حکمرانوں کو کوس رہے ہیں تو ضرورت اس کی ہے کہ ہم تمام اپنے اعمالوں کی طرف توجہ دیں۔ جب تک ہر شخص اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا، اپنے کرتوتوں اور بد اعمالیوں کی طرف توجہ نہیں دیتا،تب تک حالات میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آئیگی۔نبی کریم ﷺکا فرمان ہے کہ ’’انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے‘‘ اگر ہم اجتماعی ترقی چاہتے ہیں تو انفرادی طور پر اپنی شخصیت کی تعمیر،اخلاقی اقدار کی ترقی کا کام شروع کردیں۔ حکمران خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ حکمرانوں کا رونا بھول کر اپنے نفس کی اصلاح کرلیں۔ کیوں کہ یہ حکمران تو ہمارے ہی اعمال کے نتیجے میں ہم پر مسلط ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ’’جیسے عوام ویسے حکمران‘‘۔

Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 226 Articles with 276919 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More