ملک میں ایک نصابِ تعلیم ہو جو بارہ سال کی ابتدائی تعلیم
پر مبنی ہو۔ اس میں جس طرح سماجی اور طبیعی علوم ایک خاص سطح تک سکھا دیے
جاتے ہیں ، اسی طرح دینی علوم کی بھی تدریس کی جائے۔
میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز کی طرزپر اعلیٰ دینی تعلیم کے ادارے
قائم کیے جائیں تاکہ بارہ سال کی بنیادی تعلیم کے بعد جس طرح ڈاکٹر اور
انجینئر تیار ہوتے ہیں، اس طرح لوگ دین کے عالم بھی بنیں۔
آج جس طرح حکومت ماہرین کی مدد سے جامعات اور پیشہ ورانہ تعلیم کا نصاب
بناتی ہے ،جو سارے ملک میں رائج ہوتاہے،اسی طرح دینی علوم کے ماہرین کی
معاونت سے دین کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی نصاب بنائے، جو ظاہر ہے، کسی خاص
مسلک یا فقہ پر مبنی نہ ہو، بلکہ قرآن و سنت کی بنیاد پر ہماری دینی روایت
کا احاطہ کرتا ہو۔ اس سے فرقہ وارانہ تلخی بڑی حد تک کم ہو جائے گی۔
نجی سطح پر بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، تاہم ان
پر نصاب اور تعلیمی ماحول کے حوالے سے وہ تمام پابندیاں عائد ہونی چاہییں
جن کا التزام اس وقت نجی جامعات یا سماجی و طبیعی علوم کے اداروں کے لیے
ضروری ہے۔
عالمِ اسلام کے تمام ممالک کی طرح مساجد کا اہتمام و انصرام ریاست اپنی
تحویل میں لے لے۔ مسجد کے قیام سے لے کر امام و خطیب کی تعیناتی تک ، تمام
امور حکومتی سرپرستی میں طے کیے جائیں ۔ نجی سطح پر مسجد کے قیام اور امام
کی تعیناتی جیسے معاملات پر مکمل پابندی ہونی چاہیے- |