آسمانِ علم و فن اور شعور وآ گہی کا روشن ستارہ
حضور تاج العلماء سید محمد میاں مارہروی قدس سرہٗ کی برکتیں
مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ ،مالیگاؤں ریاستِ مہاراشٹر کی اوّلین
دینی و اقامتی درس گاہوں میں سے ایک اہم ترین درس گاہ ہے ۔جو اس وقت اپنی
عمر کی۸۴؍ویں منزل کی طرف کام یابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔یہ ایک ایسی عظیم
و قدیم اور مہتم بالشان درس گاہ ہے جو اپنے قیام سے لے کر اب تک نہ صرف
مہاراشٹر بل کہ ملک کی دیگر ریاستوںکے تشنگان علوم نبویہ کی سیرابی کا کام
کرتا رہا ہے اور تادمِ تحریر کررہاہے۔آج مہاراشٹر،کرناٹک،گجرات،مدھیہ
پردیش،اترپردیش،بہار،بنگال،آندھرا پردیش، اڑیسہ، جھارکھنڈ، اترانچل
راجستھان اور دیگر ریاستوں کے علاوہ بیرونِ ملک نیپال اور برطانیہ وغیرہ
ممالک کے مختلف شہروں میں یہاں کے فارغ التحصیل علماے کرام اور حفاظِ عظام
دین و ایمان اور اسلام و سنیت کی ترویج و اشاعت اور حفاظت و صیانت میں لمحہ
لمحہ مصروف و مشغول ہیں۔ان میں مفتی بھی ہیں، اور عالمِ نبیل بھی…مایۂ ناز
خطیب بھی ہیں اور صاحبِ طرز ادیب بھی…محقق بھی ہیں مدبر بھی…مفکر بھی
ہیںاور باصلاحیت مدرس بھی…ایک محتاط اندازے کے مطابق جامعہ حنفیہ سنیہ سے
اب تک سولہ ہزار سے زائد علما،حفاظ و قرا سندِ فراغت حاصل کرچکے ہیں۔
میرے مادرِ علمی مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ کے اولین سنگِ بنیاد
اورقدیم تعمیر و ترقی اور مختلف ادوار سے متعلق دارالعلوم کی نئی زمین رضا
پارک درے گاؤں شیوار میں ۱۲؍نومبر ۲۰۰۵ء جمعۃ المبارک کو تعمیر جدید کا
سنگ بنیاد رکھا جانے لگا تو راقم نے ایک مضمون لکھاتھا ۔ جو اس وقت کے
معاصر اخبارات میں شائع بھی ہو ااور اسی مضمون کاخلاصہ ہر سال جامعہ کی
سالانہ روداد اور ماہِ ذی الحجہ میں چرم قربانی کی اپیل کے لیے شائع کردہ
مسائلِ قربانی کتابچے میں بھی شامل رہا کرتا ہے ۔ ناچیز نے مذکورہ مضمون
مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ سے منسلک بعض حضرات کی زبانی روایتوںاور
دارالعلوم کی چندپرانی ردادوں کی مدد سے تحریر کیا تھا ۔
ان حضرات کی روایتوں کے مطابق : ’’مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ
کاآغاز ۱۹۲۳ء میں اسلام پورہ ، مالیگاؤں میں بدّھو گل زار کے مالے پر
ہوچکا تھا۔اور باقاعدہ طور پر اس کا سنگِ بنیاد معمارِ قوم و ملّت
،ناشرالعلوم حضرت علامہ و مولانا صدیق احمد صاحب اشرفی خیرآبادی علیہ
الرحمۃ کی فعال تحریک و قیادت میں ۱۹۲۵ء کو شیخِ زمانہ ،تاج العلماء ،تاج
دارِ مارہرہ شہزادۂ رسول حضرت علامہ و مولانا اولادِ رسول سید محمد میاں
قادری برکاتی قدس سرہٗ سجادہ نشین مارہرہ مطہرہ(م۱۳۷۵ھ) کے دستِ مبارک سے
رکھا گیا۔اس بابرکت موقع پر حضرت شیرِ بیشۂ سنت مظہرِ اعلیٰ حضرت علامہ
مفتی محمد حشمت علی خاں رضوی لکھنوی ثم پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ (م۱۳۸۰ھ)
اور حضرت محدثِ اعظمِ پاکستان علامہ مفتی سردار احمد رضوی صاحب لائل پوری
علیہ الرحمۃ(م۱۳۸۲ھ) جیسی مقتدر،باعظمت اور پُروقار شخصیات رونقِ افروز
تھیں۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راوی حضرات نے اُس زمانے میں امرتسر سے نکلنے والے اہل
سنت کے معروف اخبار’’الفقیہ‘‘ کا حوالہ بھی دیا اور بتایا کہ غالباً ۱۹۲۳ء
کی خصوصی اشاعت میں مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ کے اولین سنگ بنیاد
کی رپوٹ شائع ہوئی تھی۔
ناچیز نے جب ’’اخبار الفقیہ،امرتسر ‘‘کے خصوصی شمارے کا نام سنا تب سے ہی
اس شمارے کی تلاش میں سرگرداں ہوگیا ۔مختلف قدیم و جدید لائبریریوں اور اہل
سنت کے محققین و اسکالرز سے رابطے اور دیگر ذرائع سے تلاشِ بسیار کے
باوجود’’الفقیہ‘‘کا مذکوہ شمارہ نہ مل سکا ۔ اللہ رب العزت جل شانہٗ کا فضل
و کرم ہے کہ کئی برس کی تلاش و جستجو کے بعد محب مکرم برادرِ دینی جناب
محمد ثاقب حسن قادری رضوی ضیائی، لاہور کی وساطت سے نہ صرف ’’الفقیہ،
امرتسر‘‘ کا وہ شمارہ حاصل ہوا جس میں مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ کے
قیام کی روداد شائع ہوئی ہے بل کہ ’’الفقیہ‘‘ جیسے گراں قدر اور نادر
ونایاب اہل سنت و جماعت کے ممتاز اخبار کی سات سو کے قریب کاپیاں بھی حاصل
ہوئیں ۔ان شماروں سے جہاں مالیگاؤں میں اہل سنت و جماعت کی ماضی میں ہوئیں
سرگرمیوں پر روشنی پڑتی ہے وہیں غیر منقسم بھارت میں اہل سنت وجماعت کی
روشن اور اجلی تاریخ کا ایک نقش جاوید بھی ابھرتا ہے ۔ ان شاء اللہ !
الفقیہ کے ان شماروں پر ایک تحقیقی کام عنقریب منظر پایۂ تکمیل کو پہنچے
گا ۔
اخبار ’’الفقیہ، امرتسر ‘‘ اشاعت ۲۱؍فروری ۱۹۲۹ء کے مطابق مالیگاؤں کی
عوام اہل سنت میں جب تعلیمی بیداری کی لہر دوڑی تو یہاں کے سر برآوردہ
لوگوں نے حضور تاج العلماء سید شاہ محمد میاں مارہروی قدس سرہٗ ،مسند نشین
سرکارِ مارہرہ مطہرہ کو مالیگاؤں آنے کی دعوت دی ۔ چناں چہ حضور تاج
العلماء قدس سرہٗ نے ۱۴؍شعبان المعظم ۱۳۴۷ھ مطابق ۲۶؍جنوری ۱۹۲۹ء بروز
سنیچر مالیگاؤں کی سرزمین کو اپنے قدومِ میمنت لزوم سے سرفراز فرمایا ۔
اور ۱۵؍شعبان المعظم ۱۳۴۷ھ مطابق ۲۷؍جنوری ۱۹۲۹ء بروز اتوارکو بعد نماز
عشآء موٹر اڈے کے سامنے انجمن ہدایتِ اسلام کی زمین پر جہاں مدرسہ کی
عمارت تعمیر کی جانی تھی وہاں جلسہ منعقد ہوا ۔جس میں خلیفۂ اعلیٰ حضرت
شیرِبیشۂ سنت مولانا محمد حشمت علی خاں لکھنوی ثم پیلی بھیتی علیہ الرحمہ
اور مولانا مشتاق احمد دہلوی کے مختصر خطاب ہوئے ۔ اس موقع پر حضور تاج
العلماء قدس سرہٗ نے بھی اپنا مبارک بیان فرمایا ، دس ہزار مسلمانوں کا
کثیراجتماع تھا ۔ دوسرے روز یعنی ۱۶؍ شعبان المعظم ۱۳۴۷ھ مطابق ۲۸؍جنوری
۱۹۲۹ء بروز پیر کو محلہ اسلام پورہ میں سیٹھ بدّھو گلزار قادری برکاتی کے
مکان پر جسے انجمن کے اراکین نے مدرسہ کے لیے کرایہ پر لیا تھا ، وہاں
مدرسۂ عربیہ اہل سنت کا افتتاحی جلسہ ہوا اور حضورتاج العلماء قدس سرہٗ نے
اپنی زبانِ مبارک سے پہلا سبق پڑھایا۔ بعدہٗ یہی مدرسہ عربیہ اہل سنت ،مکتب
سے مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ کے نام سے مشہور ہوا اور اب بتدریج
ترقی کے مراحل طے کرتا ہوا ۔ دارالعلوم سے جامعہ حنفیہ سنیہ کی شکل میں
دعوتِ نظاّرہ دے رہا ہے ۔ اہلِ خیر حضرات فروغِ اہل سنت اور مسلکِ اعلیٰ
حضرت کے استحکام کے لیے جامعہ کا تعاون فرمائیں ۔
مدرسہ عربیہ اہل سنت ، مالیگاؤں کے آغاز کی مذکورہ خبر ’’اخبار الفقیہ ،
امرتسر‘‘ کو اشاعت کے لیے جناب محمد حنیف قادری برکاتی نوری (ایجنٹ اخبار
الفقیہ امرتسر و اخبار السواد الاعظم مرادآباد، ساکن پوار گلی ، مالیگاؤں
) نے ۲۹؍شعبان المعظم ۱۳۴۷ھ بروز اتوار کو تحریر کرکے ارسال کی تھی ۔ مذکور
ہ خبر میں سنگِ بنیاد کی تقریب حضور محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار
احمد قادری لائل پوری قدس سرہٗ کا کہیں ذکر نہیں ملتا کہ آپ بھی موجود
تھے۔
ذیل میں ’’الفقیہ ، امرتسر، اشاعت ۲۹؍فروری ۱۹۲۹ئ‘‘ کے صفحہ نمبر ۵ اور ۶
سے من و عن رپورٹ ملاحظہ کریں :
ــ’’مالیگاؤں کے مسلمان بحمدہٖ تعالیٰ خواب ِ غفلت سے بیدار ہوگئے اور
انھوں نے یقین کرلیا کہ جب تک سنی بھائیوں میں مذہبی تعلیم کو ترقی نہ دی
جائے گی ، لامذہبی ودہریت وو ہابیت اور دیوبندیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو
روکنا دشوار ہے ۔ اس لیے انھوں نے حضرت مولانا مولوی حافظ قاری مفتی سید
شاہ محمد میاں صاحب قبلہ قادری برکاتی مدظلہم العالی مسند نشین سرکارِ
مارہرہ مطہرہ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور اپنے قدمِ مبارک سے مالیگاؤں کو
مشرف فرماتے ہوئے مدرسہ عربیہ کا افتتاح فرمائیں ۔ چناں چہ حضرت تاج
العلماء دام ظلہم اقدس روز شنبہ ۱۴؍شعبان المعظم ۱۳۴۷ھ کو مالیگاؤں میں
تشریف فرما ہوئے ۔حضور کی تشریف آوری کی اطلاع پہلے سے ہوگئی تھی۔ اس لیے
مسلمانوں نے سچے جوشِ مذہبی اور خالص محبت و احترام کے ساتھ اپنے مذہبی
پیشوا کا استقبال کیا ۔شہر سے باہر دومیل تک مسلمانوں کی جماعتیں آگئیں ۔
ہر فرد کے دل میں یہ جذبہ تھا کہ پہلے میں شرفِ دیدار سے مشرف ہوں ۔سوا
گیارہ بجے حضرت ممدوح کی سواری گرنا کے پُل پر پہنچی ۔ سنّی مسلمانوں نے
فلک بوس نعرہاے اللہ اکبر ویارسول اللہ ویاعلی مشکلکشا و یاغوث المدد کے
ساتھ خیر مقدم کیا ۔ اور شمع رسالت کے پروانے اس مظہرِ جمالِ نبوی پر نثار
ہونے لگے ۔نصف گھنٹہ مصافحہ و دست بوسی کے بعد استقبالی جلوس شہر کی طرف
روانہ ہوا ۔ آگے تقریباً سو سے زائد بچّوں کی جماعت تھی ۔ جن کے ہاتھوں
میں جھنڈیاں تھیں ۔ ان کے بعد آگے پیچھے منقبت خوانوں کی تین جماعتیں پورے
جوش و خروش سے اپنے دینی امام کی منقبت پڑھ رہی تھیں ۔ جلوس دم بہ دم بڑھتا
جاتاتھا ۔تقریباً پانچ ہزار مسلمان جلوس میں تھے ۔ مسلمانوں کے ایمان تازہ
ہورہے تھے اور چمنِ اہل سنت کے غنچے شگفتہ۔ مالیگاؤں کے سنّی مسلمانوں کے
گھر گھر عید تھی ۔ یہ مبارک جلوس تقریباً چار گھنٹے تک شہر میں خراماں
خراماں گشت کرتا رہا اور تین بجے انجمن ہدایتِ اسلام(پوار گلی) کے مکان پر
پہنچا ۔ اس وقت مولانا مشتاق احمد صاحب دہلوی نے جو اسی روز بمبئی سے تشریف
لائے تھے اور منماڑ سے حضور پُرنورکے ہمراہ آئے تھے کھڑے ہوکر حضور تاج
العلماء مد ظلہم العالی کے محامد ِ جلیلہ و فضائلِ جمیلہ پر مختصر روشنی
ڈالی ۔ پھر حضرت شیرِ بیشۂ سنت ناصرِ اسلام مولانا مولوی مفتی حافظ قاری
شاہ محمد حشمت علی خاں صاحب قادری رضوی لکھنوی دام ظلہم العالی نے جو آٹھ
روز پیش تر سے اسی استقبال کے انتظام کے لیے مالیگاؤں میں تشریف لے آئے
تھے ۔ حضرتِ والا برکت تاج العلما ء دامت برکاتہم القدسیہ کی تشریف آوری
پر مالیگاؤں کے سنّی مسلمانوں اور بالخصوص انجمن ہدایتِ اسلام کی طرف سے
شکریہ ادا کیا ۔ پھر حضور تاج العلماء کی مبارک دعا پر جلسہ برخاست ہوا ۔
یکشنبہ ۱۵؍ شعبان کو بعد نمازِ عشآء موٹر اڈے کے سامنے انجمن ہدایتِ اسلام
کی اس زمین پر جہاں ان شاء اللہ تعالیٰ اہل سنۃ والجماعۃ کے مدرسہ عربیہ کی
عمارت بنے گی ، جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں پہلے حضرت شیرِ بیشۂ سنت نے ایک
مختصر تقریر کی ۔پھر مولانا مشتاق احمد صاحب دہلوی نے ایک تقریر مختصر
فرمائی ۔پھر حضور پُرنور تاج العلماء مد ظلہم العالی نے اپنا مبارک بیان
شروع فرمایا۔دس ہزار مسلمانوں کا اجتماع تھا۔ تمام حاضرین ہمہ تن گوش بنے
ہوئے سُن رہے تھے۔ اللہ اللہ! کیا نفیس بیان تھا ؟ بات بات پر ذکرِ حدیث و
قرآن تھا۔ جس کے ہر ہر لفظ پر مسلمان کا دل قربان تھا ۔جس سے مسلمانوں کی
روح سیراب اور تازہ ایمان تھا ۔مالیگاؤں کے بزرگ اور معمر مسلمانوں سے یہی
سننے میں آیاہے کہ نہ ایسا مبارک جلسہ دیکھا اور نہ ایسا نورانی بیان سننے
میں آیا ۔ بروز دوشنبہ ۱۶؍شعبان ۱۳۴۷ھ محلہ اسلام پورہ میں سیٹھ بدّھو
گلزار قادری برکاتی کے مکان پر جسے عارضی طور سے انجمن نے مدرسہ کے لیے
کرایہ پر لیا ہے ۔مدرسہ عربیہ اہل سنت کا افتتاحی جلسہ ہوا ۔ اور حضور
پُرنور تاج العلماء مدظلہم العالی نے اپنی زبانِ مبارک سے تبرکاً پہلا سبق
پڑھایا اور میلاد و قیام و صلاۃ وسلام پر جلسہ ختم ہوا ۔حضور پُرنور کے
تشریف فرما ہونے کی برکت تھی کہ مالیگاؤں کے گلی کوچے حقانیت کے نعروں سے
گونج اٹھے اور سنیت کے ڈنکے بج گئے۔ہر ایک سنّی مسلمان مسرور اور اس کی روح
پُرنور اور اس کا دل فرحت و خوشی سے معمور تھا۔ ‘‘
اخیر میں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ناچیز کا اس مضمون کو لکھنے
کامقصد کسی کی تغلیط کرنا نہیں ۔بل کہ ایک سنی سنائی غلط روایت جس کو
خودراقم نے بھی بغیر تحقیق کے اپنے مضامین میں پیش کردیاتھا،جب اس کی مکمل
تحقیق ہوگئی تو اس کو بیان کرنا میرے نزدیک لازمی اور ضروری تھا تاکہ تاریخ
میں کسی قسم کا کوئی خلط ملط نہ ہو اور غلط روایت جو کہ محض سنی سنائی تھی
میرے مضامین کے ذریعے سند نہ بن جائے۔ اس لیے بھی اس مضمون کو قلم بند کرنا
میرے لیے از بس ضروری تھا ۔ اخبار ’’الفقیہ‘‘ کی مذکورہ بالا رپورٹ کے
مطابق مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ کے قیام کی تاریخ ۱۶؍ شعبان المعظم
۱۳۴۷ھ مطابق ۲۸؍جنوری ۱۹۲۹ء بروز پیردرست قرار پاتی ہے ۔ لہٰذا مستقبل میں
اسی کو ترجیح دی جائے۔
۱۶؍رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۶؍جولائی ۲۰۱۳ء بروز جمعۃ المبارک |