مسلم ممالک میں اقلیتوں کے وارے نیارے ہیں۔ انہیں گوناگوں
سہولتیں اور حقوق حاصل ہیں۔ مزید ملنے پر ان کی ہوس بڑھتی ہے اور حروف
شکایات ہمیشہ ان کی زبانوں پر جاری رہتے ہیں۔ ادھر غیر مسلم ممالک میں عام
حالات کے دوران بھی مسلمانوں پر جو بیتتی ہے اس کا ایک نقشہ پیش کیا جارہا
ہے۔ جینے والے سسک سسک کر، جوں توں زندگی کے دن پورے کرتے ہیں تو مُردوں کو
قبرستانوں میں بھی چین سے پڑے نہیں رہنے دیا جاتا۔
مسلم ممالک میں قائم دینی اداروں اور اہل ثروت اصحاب کا فرض ہے کہ معلوماتی،
تربیتی اور علمی کتب وہاں بھیجیں۔ دینی مدارس اور مساجد تعمیر کردیں۔ دینی
ادارے وہاں کی زبانیں سکھا کر مبلغین اور وہاں مستقل رہائش اختیار کرنے
والے واقفین زندگی روانہ کیا کریں۔ تاکہ ہمارے کچلے ہوئے اور مظلوم بھائی
اغیار کی ایمان دشمن سرگرمیوں کا شکار ہونے سے بچیں، حوصلہ پائیں، دین حق
کو سمجھیں، اس پر قائم رہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے بہتر حالات چھوڑ کر
جائیں۔
فی الحال امداد طلب نگاہوں کا مرکز صدیقی ٹرسٹ، نسیم پلازہ لسبیلہ چوک ،نشتر
روڈ کراچی ہی ہے، ربّ کریم ٹرسٹ کے بانی الحاج محمد منصور الزمان صدیقی کی
صحت و زندگی میں برکت ڈالے ان کے لگائے ہوئے پودے کو، جو کہ اب تناور درخت
بن چکا ہے، مزید پھلنے پھولنے اور مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ خدمات
سرانجام دینے کی توفیق سے نوازے۔ آمین ثم آمین۔ (ایڈیٹر)
محل وقوع
مملکت نیپال کا محل وقوع وسطی ایشیا میں ہندوستان اور چین کے درمیان ہے،
ہمالیہ کا طویل پہاڑی سلسلہ شمال میں اس کو چین سے ملاتا ہے۔ باقی تینوں
اطراف سے اس کی سرحدیں ہندوستان سے ملی ہوئی ہیں اور اس کا کل رقبہ زمین
۱۴۱۰۰۰ مربع کلومیٹر ہے۔
نیپال کی سرزمین اکثر پہاڑوں پر مشتمل ہے، جو قابل کاشت بھی نہیں ہے۔ صرف
ایک تہائی میدانی علاقہ ہے جس میں کاشت کاری کی جاتی ہے۔ پہاڑوں کی وجہ سے
آب و ہوا نہایت خوشگوارہے۔
پہاڑوں کا بلند ترین سلسلہ ہمالیہ ہے جس کی بعض چوٹیاں پوری دنیا میں سب سے
زیادہ اونچی بتائی جاتی ہیں مثلاً (ماؤنٹ ایورسٹ)۔
نیپال از روئے تاریخ
نیپال کی معلوم تاریخ آج سے تقریباً سات صدی قبل سے شروع ہوتی ہے، جب یہ
مملکت ہندو مذہب کی اکثریت کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔ ہندوؤں کے بعد یہاں
دوسری اکثریت بدھوؤں کی ہے۔
نیپال کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ اس لئے اقتصادی اور معاشی
بحران سے دوچار ہے، کاشت کاری کا تو تقریباً یہاں فقدان ہے اور یہی وجہ ہے
کہ ایک آدمی کی سالانہ آمدنی صرف ۱۲۰ ڈالر ہے۔ یہاں کی قومی زبان نیپالی ہے
جو سنسکرت اور ہندی سے ملتی جلتی ہے۔ اور ہندی کے حروف سے لکھی جاتی ہے۔ کل
آبادی مردم شماری کے لحاظ سے ۱۴ ملین ہے۔ جس میں %۸مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں
کی زبان اردو ہے۔ بحری راستوں پر نیپال کی پہنچ نہیں۔ نیپال کا دارالخلافہ
(کھٹمنڈو) شہر ہے جس کو بعض لوگ دادی بھی کہتے ہیں۔ بعض تاریخی وجغرافیائی
حالات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نیپال کا جو میدانی حصہ ہے، یہ پہلے غرقاب
تھا۔ طویل زمانے کے بعد یہ خشکی ظاہر ہوئی ہے۔
نیپال میں اسلام کی آمد
اس سرزمین پر اسلام کی آمد کا کوئی خاص ذکر تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ البتہ
بعض تاریخی واقعات سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری میں یہاں اسلام
کی آمد عرب اور دیگر مسلم تاجروں کے ذریعے ہوئی تھی۔ ان میں سے چند تاجروں
نے مستقل سکونت اختیار کرلی اور اسلام کی دعوت کو رفتہ رفتہ اس علاقے کے
کونے کونے میں پہنچا دیا۔
مسلمانوں کے موجودہ حالات
سرکاری ذرائع ابلاغ و نشریات کے مطابق یہاں ایک ملین مسلمان ہیں۔ مگر
اسلامی تنظیموں اور اداروں کا کہنا ہے کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد ایک ملین
سے کہیں زیادہ ہے۔ ابتدائے تاریخ کے برعکس نیپالی مسلمان کی اب مالی
واقتصادی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں۔ اکثر مزدوری اور دہقانی کرتے ہیں۔
تجارت و صنعت سے کوسوں دور ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی نظر نہیں آتے اور
اگر ہیں بھی تو ایسی ملازمتوں پر کام کرتے ہیں کہ جس سے وہ اپنی گھریلو
ضروریات کو ہی بمشکل پورا کرپاتے ہیں۔ بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو صرف
اسلام کا نام جانتے ہیں اور بس۔ بایں وجہ یہاں کے مسلمانوں کے عقائد و
اعمال میں اسلام کی پاکیزہ روح کی بجائے بدعات و رسومات کو مرکزی مقام حاصل
ہے۔
اب ان مسلمانوں کو ایسے افراد کی اشد ضرورت ہے جو ان کو اسلام کی مبادیات،
صفات، شفاف عقائد اور توحید خالص کا درس دیں تاکہ وہ بھی اور ان کی اولاد
بھی اسلامی عقائد واعمال سے بخوبی روشناس ہوسکیں ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ
نیپال کی سرزمین سے گزر ان کے ساتھ ساتھ اسلام کا بھی گزر ہوجائے اور اس
سرزمین کے باسی اس ابدی نورانیت وروحانیت سے محروم رہ جائیں۔
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں صرف چار مساجد ہیں۔ ان میں جامع مسجد
نیپال میں ایک مکتب بچوں کی پڑھائی کا بھی ہے اور اس کے علاوہ تین مدارس
ہیں: ۱-مدرسۃ الاصلاح، ۲-مدرسہ سراج العلوم، ۳-مدرسہ نورا لاسلام اور بھی
کئی ابتدائی مدرسے ملک کے مختلف مقامات میں موجود ہیں، ایک اور مدرسہ کی
ابھی بنیاد رکھی گئی ہے مگر معاشی بحران کی وجہ سے اس کا کام رک گیا ہے۔
ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں مسلمان طلبہ کی تعداد ۱۲۰ ہے، جن میں دس
خواتین ہیں۔ اسلامی تعلیم وتربیت سکولوں اور کالجوں میں ممنوع ہے بلکہ باعث
جرم ہے حالانکہ تقریباً تمام اسلامی ممالک کے اس ملک کے ساتھ سفارتی اور
سیاسی تعلقات بھی ہیں۔ اس ملک میں مسلم اقلیت کے لئے اپنے حقوق کے مطالبے
کا نہ کوئی سرکاری قانون ہے اور نہ ہی نیپالی قانون کی رو سے وہ اپنے
اسلامی شرعی حقوق کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اکثر اوقات اسلامی اور نیپالی
قوانین میں بھی تضادات کی وجہ سے انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔ ان مشکلات میں سے ایک قبرستان کا مسئلہ ہے کیونکہ ہندو اور بدھ اپنے
مردوں کو جلاتے ہیں اور مسلمان زمین میں دفن کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ
زمین قابل کاشت نہیں رہتی۔ ہندوؤں اور بدھوؤں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ نئے
قبرستان نہ بنائے جائیں اورپرانے قبرستان بھی ہمارے حوالے کئے جائیں تاکہ
ہم اس میں کھیتی باڑی کریں حالانکہ مسلمانوں کے لئے الگ قبرستان کا ہونا
اور مردوں کو دفنانا دین کا ایک اہم رکن ہے اور اسلامی تہذیب کی ایک اہم
کڑی ہے۔
دارالخلافہ کھٹمنڈو میں تقریباً تین ہزار اور (پوکھر) اور اس کے گردو نواح
میں تقریباً دو ہزار مسلمان ہیں۔ ملک کے دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد
اس سے زائد ہے۔ مگر وہ متفرق ہیں۔ ان میں سے اکثر بھارتی حدود کے قریب رہتے
ہیں۔ دینی لحاظ سے کھٹمنڈو کے مسلمان دوسروں کی نسبت اسلام کے اوامرو نواہی
سے کچھ نہ کچھ روشناس ہیں اور اقتصادی حالت بھی ان کی دوسرے مسلمانوں کے
مقابلے میں بہتر ہے۔
کھٹمنڈو میں مقیم مسلمانوں کے علاوہ تمام مسلمان خصوصاً پہاڑوں میں بسنے
والے ہیں اور رہن سہن، تہذیب و ثقافت ، رسم و رواج میں ہندوؤں کے غلام ہیں۔
جہالت وضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسلامی تحریکوں اور
تنظیموں سے کوئی تعلق و مناسبت نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ ان کا اقتصادی ومعاشی
انحطاط ہے۔ ان میں تقریباً دو دو ہزار کی آبادیوں میں صرف ایک مسجد ہوتی ہے
اور وہ بھی نظم و نسق کی مشکلات سے دوچار۔ نہ اس میں کوئی مستقل امام ہوتا
ہے اور نہ کوئی مؤذن یا بچوں کا معلم۔ اسی طرح یہاں کے مدارس کی نہ کوئی
الگ تنظیم ہے جس کے تحت یہ مدارس منظم طور پر کام کریں اور نہ کوئی متفقہ
نصاب تعلیم بلکہ نصاب و معیارِ تعلیم، مہتمم مدرسہ کی صوابدید پر ہوتا ہے۔
نیپال کی حکومت نے ایک تنظیم مسلمانوں کے لئے ’’جمعیۃ الاصلاح‘‘ کے نام سے
بنائی تھی مگر اس میں ایسے اختلافات رونما ہوگئے ہیں کہ اب اس کا وجود بھی
نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک اور تنظیم ’’ملت اسلام نیپال‘‘ کے نام سے چند
نوجوانوں نے قائم کی ہے۔ شروع میں تو اس کے کارکنوں کی تعداد بہت کم تھی،
مگر ان کے علماء دیوبند اور دیگر علماء ہند سے روابط کی وجہ سے اس میں اب
کافی لوگوں نے شمولیت اختیار کرلی ہے اور آہستہ آہستہ قومی دھارے میں شامل
ہورہی ہے۔
نیپال کی مسلم اقلیت کشمیر، ہندوستان، تبت اور دیگر اسلامی ممالک سے مختلف
زبانوں میں ہجرت کرنے والوں کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کی اپنی زبان اردو اور
قومی زبان نیپالی ہے یہاں ان مسلمانوں کے لئے اردو زبان میں اسلامی لٹریچر
نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے ان کو اسلام کے بنیادی امور کی بھی خبر نہیں
اور نہ ہی ارکان اسلام کو صحیح طور پر بجا لانے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔
عیسائی، یہودی اور دیگر دینی قوتیں یہاں کے مسلمانوں کے درمیان زور وشور سے
کام کررہی ہیں۔ ان غیر مسلموں کی جانب سے مسلمانوں کے لئے ہسپتال، مدارس،
سکول اور مکاتب کھولے جارہے ہیں، جس میں بظاہر تعلیم و تربیت اور علاج
معالجہ کاکام ہورہا ہے، مگر درون خانہ مسلمانوں کو اسلام سے بیزار کرنے اور
اپنے اپنے مذاہب، نظریات وافکار کی دعوت دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلامی
حکومتوں کے سربراہان، علماء ، اسکالر ایک ایسے وقت میں خاموش تماشائی کا
کردار ادا کررہے ہیں جب کہ نیپال کی اس مسلم اقلیت کے دل و دماغ سے مذہب و
عقیدہ، فکر وحریت، ایمان اور عمل علی الاعلان چھینا جارہا ہے۔ اگر اسلامی
ممالک، اسلامی تنظیموں اور بااثر مسلمانوں نے اب بھی ان کی مدد نہ کی اور
ان سے غافل ہی رہے تو یہ نظارہ بھی سامنے آجائے گا کہ مسلم اقلیتیں کافر
وملحد اکثریتوں میں گھل مل کر ختم ہوجائیں گی۔
نیپال کے دور دراز دیہات میں جو بلند پہاڑوں پر واقع ہیں بغیر نماز جنازہ
میت دفن کردی جاتی ہے کہ کوئی نماز پڑھانے والا نہیں ہے اسی طرح بغیر خطبہ
مسنونہ اور باضابطہ نکاح کے پنچایت کے فیصلہ کے مطابق شادی کردی جاتی ہے،
اس ہدایت کے ساتھ کہ جب شہر جاؤ تو کسی عالم دین سے نکاح پڑھوا لینا۔ جب
کوئی تبلیغی جماعت (جو دور دراز پہاڑی دیہاتوں میں کم ہی پہنچتی ہیں) آتی
ہے تو گاؤں کے لوگ اپنے مرحومین کے لئے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کرتے
ہیں، یا شادی شدہ جوڑے نکاح پڑھواتے ہیں۔
الحمدﷲ صدیقی ٹرسٹ کی جانب سے قرآن کریم، درسِ نظامی اور صحاح ستہ کے علاوہ
اردو کا لٹریچر کثیر تعداد میں ہر ماہ متواتر اور مسلسل روا نہ کیاجاتا ہے۔
تیس مدارس اسلامیہ کو ٹرسٹ میں اعزازی رکنیت دی گئی۔ یہ خدمت اہل نیپال کے
لئے عجیب و غریب اور حیران کن ہے۔ اﷲ تعالیٰ نافع بنائے۔ آمین۔
(بحوالۂ ’’الفاروق‘‘ کراچی، ربیع الثانی، ۱۴۱۱ھ)
(ماہنامہ ’’المذاہب‘‘ لاہور) |