زندگی کے بارے میں اگر سوچیں تو یہ کائنات کی سب سے بڑی
نعمت ہے۔ اس زندگی کی وجہ سے ہی اس دنیا میں رشتے بنتے ہیں، ماں کا رشتہ ،
باپ کا رشتہ، اولاد کا رشتہ اور سب سے بڑھ کر اپنے مالک سے بندے کا رشتہ
ہے۔ دنیا کے یہ رشتے بڑھتے بڑھتے ایک خاندان ایک بڑا خاندان بن جاتے ہیں
اور وہ خاندان سالوں کے گزرنے سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب انسان چھوٹا
ہوتا تو اس کے پاس کچھ نہ بھی ہو کم از کم وہ اس دوران وقت کا بادشاہ ہوتا
ہے۔ اس کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے۔ جسے وہ کھیل کود اور کھا پی کر گزارتا
ہے۔
انسان کی زندگی تب سے ہی شروع ہوجاتی ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں نطفہ کی شکل
میں ہوتا ہے۔ پھر وہ نطفہ گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے ، پھر اس میں روح ڈال دی
جاتی ، اس کی ہڈیاں بنتی ہیں اور کچھ ماہ کے بعد وہ مکمل ہوجاتا ہے۔ دنیا
میں آنکھ کھلتے ہی وہ حوادث زمانہ سے لڑنا شروع جاتا ہے۔ بچپن میں اس کا
کام صرف کھیلنا کودنا اور رونا ہنسنا ہوتا ہے۔ مگر لڑکپن میں اس کی
مصروفیات اس قدر کچھ بڑھ جاتی ہیں۔ یہ مصروفیات تعلیم سے لے کر دوستوں کی
محافل تک محدود ہوتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں تعلیم ہر کسی کی دسترس میں
نہیں ہے لہذا تعلیم کے بارے میں کچھ بھی کہنا شاید درست نہیں ہوگا۔ یہاں تو
ایسے بچے بھی ہیں جن کی عمر پڑھنے لکھنے اور دوستوں کے ساتھ وقت بیتانے کی
ہوتی ہے مگر معاشرہ کی سختیوں اور حالات کے بے رحم تھپیڑے اسے وقت سے پہلے
جوان بنا دیتے ہیں۔ وہ بچپن سے سیدھا جوانی کی عمر میں آکر کھڑا ہوجاتا ہے۔
اس وقت وہ عمر کے اس موڑ پر کھڑا ہوتا ہے کہ اسے زندگی کے اتار چڑھاؤ کا
بھی علم نہیں ہوتا ۔ جب وہ جوان ہوتا ہے تو اسے زندگی کی سمجھ آنا شروع
ہوتی ہے۔ اس کے دل میں خواہشات پیدا ہوتی ہیں۔ پھر وہ ہر وقت زندگی میں آگے
بڑھنے کے مواقع ڈھونڈنے میں مصروف ہوجاتا ہے اور یہیں سے اس کی مصروفیات کا
آغاز ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بس کی ہر خواہش، ہر خواب کسی بھی طریقے سے
پورا ہوجائے۔ جس کی تکمیل کے لئے وہ خوب محنت کرتا۔ یہی وقت ہوتا ہے کہ جب
کوئی اپنے لئے، اپنے مستقبل کے لئے محنت کر کے کچھ حاصل کر سکتا ہے۔
شادی کے بعد تو زندگی کی ضروریات میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک
عام سی کہاوت ہے کہ ’’شادی کے سے پہلے آپ کی اپنی زندگی سو فیصد ہوتی ہے
اور بعد میں آپ پچاس فیصد اپنے رہ جاتے ہیں، مگر اولاد کی صورت میں آپ کی
اپنی زندگی صرف دس فیصد ہوتی ہے‘‘۔ انسان اپنے روشن مستقبل کی تگ و دو میں
لگ جاتا ہے اور بالا ٓخر بچوں اپنا مستقبل بھول کر بچوں کے حال اور مستقبل
کے افکار و خیالات انسان کے گود سے لے کر گور تک کے سفر کو پورا کرتے ہیں۔
انسانی زندگی کی انتہائی مختصر سی یہ جھلک جسے چند لفظوں میں بیان کرنا
اتنا آسان نہیں ہے مگر حقیقت سے قریب تر ہے۔ زندگی میں ہر موڑ پر نشیب و
فراز آتے ہیں، جسے یا تو بھلا دیا جاتا ہے یا انہیں قبر بھلا دیتی ہے اور
حقیقت میں یہیں نشیب و فراز ، دھوپ چھاؤں انسان کی زندگی ہوتی ہیں۔ اگر
ہمیں ہر وقت خوشیاں ہی خوشیاں ملتی رہیں تو شاید ہمیں وہ خوشی کبھی خوشی نہ
لگے جب تک ہمیں کوئی دکھ یا تکلیف نہ پہنچے۔
کبھی یہ پریشانیاں ہمیں زندگی کے مقاصد بتانے کے لئے آتے ہیں۔علامہ اقبال
نے اپنے شاہین کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا تھا کہ باد مخالف تو تمہیں اونچا
اڑانے کے لئے چلتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہمیں زندگی میں آنے والی سختیوں پر
صبر کرتے ہوئے اپنے مقصد حیات کو پہنچاتے ہوئے ہمیشہ کوشش اور ہمت سے کام
لینا چاہیے۔
زندگی پر زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے اور برے اثرات مرتب ہوئے
ہیں۔ ہم پہلے کیا تھے اور ناجانے اب کیاہیں۔ اس وقت ہم جس دور میں سانس لے
رہے ہیں، اہل دانش اسے جدید ٹیکنالوجی سے مزین دور کا نا دیتے ہیں، جبکہ
ہمارے بڑے بزرگ اس دور کو جہالت اور بے راہ روی کہتے ہوئے سنے گئے ہیں۔ یہ
ایک ایسا تضاد ہے جس کا جواب اہل دانش فصاحت سے جبکہ عمر رسید بزرگ سادگی
سے دیتے ہیں۔ اس جدید دور میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہماری زندگیوں پر بہت
اچھے اور برے اثرات مرتب کیے ہیں۔
آج موبائل سے لے کر انٹر نیٹ تک ہر سہولت ہمارے پاس موجود ہے ۔ جس قدر
زندگی آسان ہوئی ہے اس قدر ہماری زندگی بے ہنگم اور بے راہ روی کا شکار بھی
ہوئی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی کا مقصد بھلا دیا ہم کون تھے اور آج کیا ہو
بیٹھے ہیں۔ ہم جوانی کی عمر کو ایسے غلط کاموں میں لگانے لگے کہ شاید اس کے
لئے کبھی بنے نہیں تھے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس مختصر سی زندگی کو ہم
کہاں کیسے اور کیوں گزار رہے ہیں۔ زندگی کا ہمیشہ ایک مقصد ہوتا ہے کیا ہم
نے کبھی اس مقصد کو پہچانا نہیں؟ شاید ابھی تک ہم نے اس کے بارے میں سوچاتک
نہیں ہے۔ اوپر زندگی کا ایک مختصر سا تعارف تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس قدر
زندگی ہے اس سے محبت کرنے کی ضرورت ہے اس کو بامقصد بنانے کی ضرورت ہے۔ آج
اگر ہم کمرہ امتحان میں بیٹھ کر ادھر ادھر کی سوچتے رہے تو کہیں ایسا نہ کہ
کل ہم فیل ہوجائیں۔ دنیا اور یہ زندگی انتہائی دارالامتحان ہے۔ کل قیامت کے
دن اس کا رزلٹ نکالا جائے گا تب ہمیں اپنے لیل و نہار کا اندازہ ہوگا کہ ہم
کیا کرتے رہے ہیں۔ اس لئے آج سے ہی اپنی زندگی کا اس مقصد پر لائیں جس کے
لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔ اس کے لئے پہلا قدم شرط ہے۔ جس نے اپنے اندر
تبدیلی لانے کے لئے پہلا قدم اٹھادیا وہ یقینا کامیاب ہوجائے گا۔ |