پیوستہ راہ شجر سے امید بہار رکھ

سکول کے دور کی بات ہے جب ہمیں چھٹی ہوتی تھی تو دنیا کے ہر غم سے آزاد گھر پہنچتے جلدی سے کھانا کھاتے اور بیٹ بول لے کر سیدھے کھیت میں جاتے یہاں پر دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں لڑکے جمع ہو جاتے اور رات گئے تک کرکٹ کھیلتے ہم اکیلے نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمارے استاد بھی ہمارے ساتھ ہوتے، ہم چھوٹے ہوتے تھے اس لئے کھیل کے دوران جو بات ہمارے استاد ہمیں کہتے ہم اس کو مان لیتے اور پہلے ان کو کھیلنے کا موقع دیتے اگر وہ آؤٹ ہوتے اور نہ مانتے تو ہم چپ ہو جاتے اور اگر وہ یہ کہتے کہ میں نے ابھی اور کھیلنا ہے تو بھی ہم ان کو کچھ نہ کہتے مگر ہمارے استاد راجہ آفتاب صاحب سب سے منفرد اور الگ طبعت کے مالک تھے وہ پہلے بچوں کو کھیلنے کا موقع دیتے اپنی باری نہ آنے پر بھی وہ کچھ نہیں کہتے تھے ان کی شفقت محبت پیار کا یہ انداز کسی اور میں نہیں تھایہی نہیں بلکہ دوران کھیل اگر نماز کا وقت ہوتا تو وہ سب سے پہلے نماز پڑھتے ،ان کی سادگی اور عاجزی کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی بات پر بحث نہ کرتے پیار اور محبت سے بچوں بڑوں اور دوستوں کے ساتھ بات کرتے ۔یوں کہنا بھی غلط نہ ہوگا وہ اخلاقیات کا پیکر تھے ،ان کی آوازدھمی اور لحجہ نرم تھا،وہ روزانہ سکول سے آتے جاتے نماز اپنے گاؤں کی مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔دو ماہ پہلے سردیوں کی راتیں تھی وہ مغرب کے وقت گھر جاتے ہوئے مسجد میں وضو کرنے گئے کہ نماز ادا کر کے گھر جا سکیں مگر اﷲ کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ دوران وضوں ہارٹ اٹیک سے اﷲ کو پیارے ہو گئے،اﷲ ان کے لواحقین کو صبرو جمیل عطا فرمائے(آمین)ان کی بیٹی سمانہ آفتاب میری مسز کے ساتھ سکول میں پڑھاتی ہے وہ بھی اپنے باپ کی طرح صلاحیتوں سے مالامال ہے وہ بہت اچھی مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی واقعات پر بھی عبور رکھتی ہے۔وہ کمال کی ڈیبیٹر اور ایک شفیق ٹیچر ہے۔اس نے میری مسز سے اپنے لکھنے کے شوق کا بھی اظہار کیا اور اس نے اپنی ایک تحریر بھی دی اس تحریر کو پڑھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں ایک اچھی رائٹر بھی ثابت ہو سکتی ہے اس نے کیا تحریر کیا یہ میں آپ کو ہوبہو بتاتا ہو اور آنے والے وقت میں آپ اس کی تحریں کالم خود پڑھا کریں گئے۔

سمانہ آفتاب لکھتی ہے ۔۔آج اگر دنیا کی آنکھ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس وقت دنیا کی معشیت کمزور ہو گئی ہے طلب اور رسد میں عدم توازن کی وجہ سے معاشی مسائل شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ایک طرف اگر عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور جاریت کے امراء طبقہ کو بے شمار آسائش دیں مگر دوسری طرف اسی سرمایہ دارانہ نظام نے غریبوں کے خون پسینے کی کمائی سے اپنی بھوریاں بھر کر غریب سے زیادتی کی ہے آج بھی دنیا کے غریب اور پسماندہ علاقوں خصوصاََافریقہ کے قحط زدہ ممالک کو شدید ترین معاشی مسائل کا مسئلہ درپیش ہے اگرپاکستان کی معشیت کو بنگلہ دیش کی معشیت سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے کہ بنگلہ دیش میں عالمی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس محمد کے اسلامی بینک کے قیام اور دیگر کئی اسلامی اصلاحات کے نظام سے بنگلہ دیش کے جی ڈی پی میں اضافہ ہوا۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ آج بھی دنیا کے معاشی مسائل کا حل اسلام کے معاشی نظام میں پہناں ہے ۔جیسا کہ زکوۃاور عشر کا نظام ہے ۔زکوۃ اور عشر کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ دولت گردش میں رہے اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو آج چائنیز عوام سے ٹیک لینے میں سب سے اگے ہیں ٹیکس کا مقصد بھی یہی ہے کہ دولت گردش میں رہے مگر بد قسمتی سے اسلامی ممالک خصوصاََ پاکستان میں عام آدمی سے ٹیکس لیا جاتا ہے اور امرا کا برا حصہ ٹیکس دینے سے قاصر ہے۔پھر اسلامی ممالک میں معاشی معاہرین کی کمی جس کی وجہ سے کوئی بھی کئیں بھی معاشی پالیسی نہیں بنی جو قوم و ملک کے لئے سود مند ثابت ہو بلکہ امیر ،امیر سے امیر تر اور غیریب ،غیریب ہوتا جا رہا ہے۔ایک طرف تو سود مذہب میں حرام ہے اور دوسری طرف سارا نظام سود پر چل رہا ہے سود پر چلنے والا نظام کیسے ملک کو ترقی دے سکتا ہے۔مہنگائی اور مشکلات نے عام آدمی کا جینا مشکل ترین کر دیا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں سب برابر کا ٹیکس دیتے ہیں طلب اور رسد کی قیمتوں میں توازن ہے معاشی معاہر دن رات ملک کی بہتری کے لئے کام کرتے ہیں۔۔۔

یہ تھی سمانہ افتاب کی پہلی تحریر جس سے اس کی ذہنی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس نہ واسائل کی کمی ہے نہ سرمائے کی،قدرت نے ہمیں دنیا کے بہترین خطے میں پیدا کیا ہے اگر کوئی کمی ہے تو وہ نیت کی مخلص پن کی،وفاداری کی،ہمارے ہاں حکومت اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ قوم و ملک کی خدمت کریں گے بلکہ اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ اپنے خزانے بھرے گے۔یہاں پر کہنے کو اسلامی ملک ہے سود کو حرام کہا جاتا ہے مگر یہاں ایمان اس حد تک کمزور ہیں کہ ان کو خدا پر نہیں بلکہ امریکہ پر یقین ہے کہ روزی وہ دیتا ہے۔سمانہ آفتاب کی باتوں سے میں اتفاق تو کرتا ہوں مگر سوچتا ہوں کہ یہ سب بھینس کے اگے بین بجانے کے مترادف ہے مگر میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ اپنے حصے کی آواز بلند کرتے چلو کوئی سنے یا نہ سنے۔سمانہ آفتاب کا کہنا ہے کہ وہ ریگولر کالم نگار بنانا چاہتی ہے جس طر اس کے اندر جذبہ اور لگن ہے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ بہت جلد اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ہم سمانہ آفتاب کے ساتھ اس کے والد کی اچانک وفات پر بھی دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور مستقبل میں اس کی کامیابیوں کے لئے دعا گو بھی ہیں۔انسان کے جذبے حوصلے،ہمت بلند ہو ں تو کوئی طوفان ، آندھی،کوئی مشکل اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔سفر شرط ہے منزل کی پہنچ تک۔پوستہ راہ شجر سے امید بہار رکھ۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75047 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.